كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ يَهُودِيًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِيَةٍ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَسُئِلَتْ: مَنْ فَعَلَ هَذَا بِكِ؟ فَقِيلَ: فُلَانٌ، أَوْ فُلَانٌ حَتَّى ذُكِرَ اسْمُ الْيَهُودِيِّ، فَأَوْمَأَتْ بِرَأْسِهَا، أَيْ: نَعَمْ، فَدُعِيَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ، ((فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُضَّ رَأْسُهُ بَيْنَ حَجَرَيْنِ))، أَوْ قَالَ: حِجَارَةٍ
کتاب
باب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا،اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کسی نے کہا؟ کہا گیا کہ کیا فلاں یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ اس یہودی کانام لیا گیا، اس نے اپنے سر کے ساتھ اشارہ کیا یعنی ہاں، تو اس یہودی کو بلایا گیا، اس نے اعتراف (جرم)کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اس کا سر (بھی)دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔ یا کہا کے پتھر کے ساتھ۔
تشریح :
(1).... مقتول کے ورثاء کے لیے تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔
قصاص، دیت اور معافی: قاتل کے اعتراف یا شہادتوں کے قائم ہونے سے حکومت اسے سزا دے گی۔
(2) .... اس حدیث میں اس لڑکی نے اشارے سے قاتل کی تصدیق کی کیونکہ وہ بولنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ ایسے ہی جو شخص گونگا، بہرہ وغیرہ ہو اس کا اشارہ معتبر ہوگا۔
(3) .... قاتل نے جس طرح قتل کیا، ویسے ہی قصاص میں اسے قتل کر دیا جائے گا۔
(4) .... قصاص سے قاتل نے جو بندے کے حق میں کوتاہی کی تھی، وہ معاف ہوگی، لیکن جو اللہ کے حق میں تجاوز کیا وہ ابھی باقی ہے۔ وہ اس کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے چاہے تو سزا دے یا معاف کردے۔
(5).... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ کے نزدیک صرف تلوار کے ساتھ ہی قصاص لیا جا سکتا ہے، حالاں کہ جس حدیث سے اس کا استدلال ہے: ’’لا قود الا بالسیف‘‘ وہ ضعیف ہے۔
ابن عدی نے کہا کہ اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں۔ فرض کریں اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو ان کے اصول فقہ کے قاعدے کے بھی خلاف ہے، کہ سنت قرآن کو نہ منسوخ کر سکتی ہے اور نہ اس کی تخصیص کر سکتی ہے۔( فتح الباري: 12؍249۔)
تخریج :
صحیح بخاري، فی أول کتاب الخصومات : 5؍45، صحیح مسلم : 11؍157، 158، 159، رقم : 15،16، 17، کتاب القسامة باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر وغیرہ، جامع الترمذی،کتاب الدیات : 6، باب من ضخ رأسه بالصخرة : 4؍651، سنن ابن ماجة، کتاب الدیات : 24، باب یقتاد من القاتل کما قتل : 2665، 2666، مسند احمد : 3؍193، 262، 269، سنن دارمي، کتاب الدیات : 4، باب کیف یعمل فی القود : 2؍110، سنن دارقطني، کتاب الدیات : 3؍168، 169، التلخیص الحبیر : 4؍15۔
(1).... مقتول کے ورثاء کے لیے تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار ہے۔
قصاص، دیت اور معافی: قاتل کے اعتراف یا شہادتوں کے قائم ہونے سے حکومت اسے سزا دے گی۔
(2) .... اس حدیث میں اس لڑکی نے اشارے سے قاتل کی تصدیق کی کیونکہ وہ بولنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔ ایسے ہی جو شخص گونگا، بہرہ وغیرہ ہو اس کا اشارہ معتبر ہوگا۔
(3) .... قاتل نے جس طرح قتل کیا، ویسے ہی قصاص میں اسے قتل کر دیا جائے گا۔
(4) .... قصاص سے قاتل نے جو بندے کے حق میں کوتاہی کی تھی، وہ معاف ہوگی، لیکن جو اللہ کے حق میں تجاوز کیا وہ ابھی باقی ہے۔ وہ اس کا معاملہ اب اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے چاہے تو سزا دے یا معاف کردے۔
(5).... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اہل کوفہ کے نزدیک صرف تلوار کے ساتھ ہی قصاص لیا جا سکتا ہے، حالاں کہ جس حدیث سے اس کا استدلال ہے: ’’لا قود الا بالسیف‘‘ وہ ضعیف ہے۔
ابن عدی نے کہا کہ اس حدیث کے تمام طرق ضعیف ہیں۔ فرض کریں اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو تو ان کے اصول فقہ کے قاعدے کے بھی خلاف ہے، کہ سنت قرآن کو نہ منسوخ کر سکتی ہے اور نہ اس کی تخصیص کر سکتی ہے۔( فتح الباري: 12؍249۔)