كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((وَيْلٌ، وَادٍ فِي جَهَنَّمَ يَهْوِي فِيهِ الْكَافِرُ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا قَبْلَ أَنْ يَبْلُغَ قَعْرَهُ، وَالصَّعُودُ جَبَلٌ مِنْ نَارٍ يَتَصَعَّدُ فِيهِ سَبْعِينَ خَرِيفًا، ثُمَّ يَهْوِي بِهِ كَذَلِكَ أَبَدًا))
کتاب
باب
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ ’’ویل‘‘ جہنم میں ایک وادی ہے، کافر اس سے پہلے کہ اس کی گہرائی تک پہنچے چالیس سال گرتا رہے گا اور ’’صعود‘‘ ایک آگ کا پہاڑ ہے، وہ اس پر ستر سال تک چڑھتا رہے گا، پھر آگ میں گر جائے گا۔
تشریح :
قرآن مجید میں ہے:
﴿ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ﴾ (المدثر : 17)
’’عنقریب میں اسے ایک دشوار گھاٹی چڑھنے کی تکلیف دوں گا۔‘‘
قیامت کے دن کی اور جہنم کی مصیبتیں جھیلنے پر مجبور کرنے کو دشوار چڑھائی کی تکلیف دینے کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ لہٰذا پہاڑ مراد لینا حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔ کیونکہ اس میں رشدین بن سعد ہے۔ اس بارے میں ایک اور روایت ہے جو طبری : (29؍155)، طبراني اوسط : 5؍366، رقم : 5573، میں ہے، اس بارے علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد : 7؍134 میں فرمایا کہ اس میں عطیہ عوفی ہے اور وہ ضعیف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام قتادہ رحمہ اللہ نے صعود کی تفسیر کی ہے: ایسا عذاب جس میں کوئی راحت و آرام نہ ہو۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے ہی پسند کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر : 14؍181۔)
تخریج :
زیادات الزهد، ابن مبارك : 96، مسند احمد : 3؍75، صحیح ابن حبان (الموارد)649، سنن ترمذي: 3164۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ﴾ (المدثر : 17)
’’عنقریب میں اسے ایک دشوار گھاٹی چڑھنے کی تکلیف دوں گا۔‘‘
قیامت کے دن کی اور جہنم کی مصیبتیں جھیلنے پر مجبور کرنے کو دشوار چڑھائی کی تکلیف دینے کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ لہٰذا پہاڑ مراد لینا حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے محل نظر ہے۔ کیونکہ اس میں رشدین بن سعد ہے۔ اس بارے میں ایک اور روایت ہے جو طبری : (29؍155)، طبراني اوسط : 5؍366، رقم : 5573، میں ہے، اس بارے علامہ ہیثمی نے مجمع الزوائد : 7؍134 میں فرمایا کہ اس میں عطیہ عوفی ہے اور وہ ضعیف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام قتادہ رحمہ اللہ نے صعود کی تفسیر کی ہے: ایسا عذاب جس میں کوئی راحت و آرام نہ ہو۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اسے ہی پسند کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر : 14؍181۔)