كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو الْفُقَيْمِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ تَرَاحَمُوا، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُذُنَيَّ يَقُولُ: ((الْمُسْلِمُونَ كَالرَّجُلِ الْوَاحِدِ إِذَا اشْتَكَى عُضْوٌ مِنْ أَعْضَائِهِ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ جَسَدِهِ))
کتاب
باب
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اے لوگو! ایک دوسرے پر رحم کیا کرو، کیوں کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے فرماتے ہوئے سنا: مسلمان ایک آدمی کی طرح ہیں، جب اس کے اعضاء میں سے کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا باقی سارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
تشریح :
(1) .... اس حدیث میں مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیا گیا ہے کہ جس طرح ایک عضو کی تکلیف پر باقی سارا جسم بھی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے ایسے ہی ایک مسلمان کی پریشانی سب مسلمانوں کی پریشانی ہونی چاہیے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے
دوسری حدیث میں یوں ہے کہ: ’’ایک مومن دوسرے مومن کے حق میں عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزید سمجھانے کے لیے)اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں۔‘‘ (صحیح بخاري : 6026، صحیح مسلم : 2585۔)
نیز فرمایا: ’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے میں، ایک دوسر ے کے ساتھ رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و نرمی کرنے میں، جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی ایک عضو درد کرتاہے تو اس کا سارا جسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ (صحیح بخاري: 6011، صحیح مسلم : 2586۔)
(2) .... حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
’’باہمی ہمدردی اور خیر خواہی ہی سے معاشروں کی بقا ہے۔ اسلامی معاشرے کے اولین دور میں مسلمان اس خوبی سے خوب بہرہ ور تھے کہ ان میں خود اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرو ں کا درد تھا۔ رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور تقلید مغرب نے انسان کو مادہ پرست اور خود غرض بنا دیا کہ اسے غیروں کا احساس تو کیا وہ خونی رشتہ داروں تک سے غافل ہوگیا۔‘‘( مختصر ریاض الصالحین، ص : 161۔)
تخریج :
صحیح مسلم : 16؍140(67)۔
(1) .... اس حدیث میں مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیا گیا ہے کہ جس طرح ایک عضو کی تکلیف پر باقی سارا جسم بھی تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے ایسے ہی ایک مسلمان کی پریشانی سب مسلمانوں کی پریشانی ہونی چاہیے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہوجائے
دوسری حدیث میں یوں ہے کہ: ’’ایک مومن دوسرے مومن کے حق میں عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزید سمجھانے کے لیے)اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر دکھائیں۔‘‘ (صحیح بخاري : 6026، صحیح مسلم : 2585۔)
نیز فرمایا: ’’مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے میں، ایک دوسر ے کے ساتھ رحم کرنے میں اور ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و نرمی کرنے میں، جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی ایک عضو درد کرتاہے تو اس کا سارا جسم اس کی وجہ سے بیداری اور بخار میں مبتلا رہتا ہے۔ (صحیح بخاري: 6011، صحیح مسلم : 2586۔)
(2) .... حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
’’باہمی ہمدردی اور خیر خواہی ہی سے معاشروں کی بقا ہے۔ اسلامی معاشرے کے اولین دور میں مسلمان اس خوبی سے خوب بہرہ ور تھے کہ ان میں خود اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرو ں کا درد تھا۔ رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور تقلید مغرب نے انسان کو مادہ پرست اور خود غرض بنا دیا کہ اسے غیروں کا احساس تو کیا وہ خونی رشتہ داروں تک سے غافل ہوگیا۔‘‘( مختصر ریاض الصالحین، ص : 161۔)