مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 133

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَوْ أَنَّ رَصَاصَةً مِثْلَ هَذِهِ، وَأَشَارَ إِلَى مِثْلِ الْجُمْجُمَةِ، أُرْسِلَتْ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ مَسِيرَ ةَ خَمْسِمِائَةِ سَنَةٍ لَبَلَغَتِ الْأَرْضَ قَبْلَ اللَّيْلِ، وَلَوْ أَنَّهَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ لَسَارَتْ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَهَا أَوْ قَعْرَهَا))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 133

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر بے شک ایک پتھر اس کی مثل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھوپڑی کی طرف اشارہ فرمایا۔ آسمان سے زمین کی طرف پھینکا جائے اور وہ پانچ سو سال کی مسافت ہے تو یقینا وہ رات سے پہلے پہنچ جائے گا اور اگر بے شک اسے اس زنجیر کے سرے سے چھوڑا جائے گا تو یقینا وہ چالیس سال دن رات چلتا رہے گا (جہنم کی تہہ تک)پہنچنے سے پہلے۔
تشریح : اس حدیث میں جہنم کی گہرائی بیان کر کے ڈرایا گیا ہے۔ زنجیر سے مراد وہی ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے: ﴿ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ﴾ (الحاقة : 32) ’’پھر ایک زنجیر میں، جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے، پس اسے داخل کر دو۔‘‘ حکم ہوگا اسے پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو، اور پھر اسے بڑھکتی ہوئی آگ میں جھونک دو، پھر اسے ایک زنجیر میں جکڑ دو جو ستر (70)ہاتھ لمبی ہے۔ جہنمیوں کو جہنم میں طوقوں اور زنجیروں سے جکڑ کر لمبے لمبے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں، کیوں کہ حرکت سے بھی عذاب میں کچھ تخفیف ہوتی ہے، فرمایا: ﴿ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ () فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ﴾(الهمزة: 8،9) ’’یقینا وہ (آگ)ان پر (ہر طرف سے)بند کی ہوئی ہے لمبے لمبے ستونوں میں۔‘‘ ستر ہاتھ سے مراد یہ پیمائش بھی ہو سکتی ہے اور بہت زیادہ لمبائی بھی، کیونکہ عربوں کے ہاں ستر کا عدد کثرت کے لیے بھی آتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ یہ زنجیر ہر مجرم کے لیے الگ الگ ہو اور یہ بھی کہ ایک ہی زنجیر میں سب کو پروتے چلے جائیں۔( تحفة الأحوذي : 3؍345۔)
تخریج : زیادات الزهد : 84، جامع ترمذي، کتاب جهنم، باب صفة طعام أهل النار : 2588، مسند أحمد (الفتح الرباني )24؍165۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ اس حدیث میں جہنم کی گہرائی بیان کر کے ڈرایا گیا ہے۔ زنجیر سے مراد وہی ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے: ﴿ ثُمَّ فِي سِلْسِلَةٍ ذَرْعُهَا سَبْعُونَ ذِرَاعًا فَاسْلُكُوهُ﴾ (الحاقة : 32) ’’پھر ایک زنجیر میں، جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے، پس اسے داخل کر دو۔‘‘ حکم ہوگا اسے پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو، اور پھر اسے بڑھکتی ہوئی آگ میں جھونک دو، پھر اسے ایک زنجیر میں جکڑ دو جو ستر (70)ہاتھ لمبی ہے۔ جہنمیوں کو جہنم میں طوقوں اور زنجیروں سے جکڑ کر لمبے لمبے ستونوں سے باندھ دیا جائے گا تاکہ وہ حرکت نہ کر سکیں، کیوں کہ حرکت سے بھی عذاب میں کچھ تخفیف ہوتی ہے، فرمایا: ﴿ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُؤْصَدَةٌ () فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ ﴾(الهمزة: 8،9) ’’یقینا وہ (آگ)ان پر (ہر طرف سے)بند کی ہوئی ہے لمبے لمبے ستونوں میں۔‘‘ ستر ہاتھ سے مراد یہ پیمائش بھی ہو سکتی ہے اور بہت زیادہ لمبائی بھی، کیونکہ عربوں کے ہاں ستر کا عدد کثرت کے لیے بھی آتا ہے۔ پھر ہوسکتا ہے کہ یہ زنجیر ہر مجرم کے لیے الگ الگ ہو اور یہ بھی کہ ایک ہی زنجیر میں سب کو پروتے چلے جائیں۔( تحفة الأحوذي : 3؍345۔)