مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 132

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: أَظَنُّهُ يَرْفَعُهُ، قَالَ: ((يُؤْتَى بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالْكَبْشِ الْأَمْلَحِ فَيُوقَفُ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيُقَالُ: يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، هَذَا الْمَوْتُ، يَا أَهْلَ النَّارِ، هَذَا الْمَوْتُ، فَيُذْبَحُ وَهُمْ يَنْظُرُونَ، فَلَوْ مَاتَ أَحَدٌ فَرَحًا لَمَاتَ أَهْلُ الْجَنَّةِ، وَلَوْ مَاتَ أَحَدٌ حُزْنًا لَمَاتَ أَهْلُ النَّارِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 132

کتاب باب سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میرا (راوی کا)خیال ہے کہ انہوں نے اسے مرفوع بیان کیا ہے۔ موت کو قیامت والے دن لایا جائے گا، جس طرح چتکبرہ مینڈھا ہوتا ہے، اسے جنت اور آگ کے درمیان کھڑا کر دیاجائے گا، کہا جائے گا: اے جنت والو! یہ موت ہے، اے آگ والو! یہ موت ہے، پھر اسے ذبح کر دیاجائے گا اور وہ دیکھ رہے ہوں گے۔ اگر کسی نے خوشی سے مرنا ہوتا تو اہل جنت یقینا مر جاتے اور اگر کسی نے غم سے مرنا ہوتا تو آگ والے یقینا مر جاتے۔
تشریح : (1).... قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾(مریم : 39) ’’اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر(کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سرا سر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ صحیح بخاري، کتاب التفسیر، باب قوله عزوجل ﴿ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ ﴾ : 4730 میں ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنے کے بعد ذکر کیا کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مذکورہ بالا آیت پڑھی، دلیل ہے کہ﴿ قُضِيَ الْأَمْرُ ﴾ ’’فیصلہ کر دیا جائے گا‘‘ سے مراد موت کو ذبح کردیا جانا ہے۔ مسند احمد : 3؍9، ح : 11072 میں اسی حدیث کے شروع میں ہے کہ جب (تمام)جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو ذبح کردیا جائے گا۔ (2) .... موت ایک عرض ہے یعنی بغیر جسم کے ہے، اللہ اسے جوہر بنا کر موت دے گا۔ یعنی جسم دے کر اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کچھ مشکل نہیں ہے۔ ﴿ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ ﴾ (ابراهیم : 20) (3) .... امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہی احادیث میں وضاحت ہے کہ اہل جہنم کا اس میں ہمیشہ رہنا ایسی مدت تک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور ان کی اقامت وہاں بغیر موت کے اور بغیر ایسی زندگی کے ہے جس میں کوئی نفع اور آرام ہوگا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ﴾ (فاطر : 36) نیز فرمایا: ﴿ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا ﴾ (السجدة : 20) ’’جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں،اس میں لوٹا دئیے جائیں گے۔‘‘ نیز فرمایا کہ جس نے یہ خیال کیا کہ وہ (جہنمی)اس آگ سے نکل آئیں گے اور جہنم خالی باقی رہ جائے گی یا فنا اور ختم ہو جائے گی، وہ اس سے خارج ہے جو مقتضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور جس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔( فتح الباري: 11؍513۔) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں سات نظریات پیش کیے ہیں اور ان کا رد کیا ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام قرطبی نے بیان فرمائی ہے۔ کتاب و سنت اور اجماع امت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن کا اٹل فیصلہ ہے: ﴿ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ﴾ (البقرة : 167) ’’اور وہ کسی صورت آگ سے نکلنے والے نہیں۔‘‘ ’’بخارجین‘‘ میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے۔
تخریج : زیادات الزهد، ابن مبارك : 79، مسند احمد : 3؍9، سنن دارمي، کتاب الرقاق : 90، باب ذبح الموت : 2؍236، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 8؍184، صحیح بخاري مع الفتح : 11؍6548، صحیح مسلم : 2850۔ (1).... قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ﴾(مریم : 39) ’’اور انہیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر(کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ سرا سر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے۔‘‘ صحیح بخاري، کتاب التفسیر، باب قوله عزوجل ﴿ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ ﴾ : 4730 میں ہے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کرنے کے بعد ذکر کیا کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مذکورہ بالا آیت پڑھی، دلیل ہے کہ﴿ قُضِيَ الْأَمْرُ ﴾ ’’فیصلہ کر دیا جائے گا‘‘ سے مراد موت کو ذبح کردیا جانا ہے۔ مسند احمد : 3؍9، ح : 11072 میں اسی حدیث کے شروع میں ہے کہ جب (تمام)جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو ذبح کردیا جائے گا۔ (2) .... موت ایک عرض ہے یعنی بغیر جسم کے ہے، اللہ اسے جوہر بنا کر موت دے گا۔ یعنی جسم دے کر اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کچھ مشکل نہیں ہے۔ ﴿ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ ﴾ (ابراهیم : 20) (3) .... امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہی احادیث میں وضاحت ہے کہ اہل جہنم کا اس میں ہمیشہ رہنا ایسی مدت تک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور ان کی اقامت وہاں بغیر موت کے اور بغیر ایسی زندگی کے ہے جس میں کوئی نفع اور آرام ہوگا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا ﴾ (فاطر : 36) نیز فرمایا: ﴿ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا ﴾ (السجدة : 20) ’’جب کبھی چاہیں گے کہ اس سے نکلیں،اس میں لوٹا دئیے جائیں گے۔‘‘ نیز فرمایا کہ جس نے یہ خیال کیا کہ وہ (جہنمی)اس آگ سے نکل آئیں گے اور جہنم خالی باقی رہ جائے گی یا فنا اور ختم ہو جائے گی، وہ اس سے خارج ہے جو مقتضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں اور جس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔( فتح الباري: 11؍513۔) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں سات نظریات پیش کیے ہیں اور ان کا رد کیا ہے اور صحیح بات وہی ہے جو امام قرطبی نے بیان فرمائی ہے۔ کتاب و سنت اور اجماع امت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ قرآن کا اٹل فیصلہ ہے: ﴿ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ﴾ (البقرة : 167) ’’اور وہ کسی صورت آگ سے نکلنے والے نہیں۔‘‘ ’’بخارجین‘‘ میں باء نفی کی تاکید کے لیے ہے۔