كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ((إِنَّ فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا سَبْعِينَ، أَوْ قَالَ: مِائَةَ سَنَةٍ هِيَ شَجَرَةُ الْخُلْدِ))
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں : ’’بے شک جنت میں ایک ایسا عظیم درخت ہے کہ سوار اس کے سائے میں ستر یا فرمایا سو سال چلتا رہے گا، وہ ہمیشگی کا درخت ہے۔
تشریح :
(1).... سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ سوار اس درخت کے سائے میں سو سال چلتا رہے گا، اسے طے نہ کر سکے گا۔ (صحیح البخاری : 3251۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی اور فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:
﴿ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ﴾ (الواقعة : 30) ’’اور ایسے سائے میں جو خوب پھیلا ہوا ہے۔‘‘
سائے جگہ کے لحاظ سے پھیلاؤ بھی شامل ہے اور زمانے کے لحاظ سے بھی۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
﴿ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا﴾ (الرعد : 35) ’’اس کا پھل دائمی ہے اور اس کا سایہ بھی۔‘‘
(2) .... امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس درخت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ یہی ’’طوبیٰ‘‘ ہے۔ میں (ابن حجر)کہتا ہوں اس کا شاہد عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جو احمد، طبرانی اور ابن حبان میں ہے اور یہی قول معتمد ہے۔ (فتح الباري: 6؍393۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 523، زیادات الزهد، ابن مبارك : 75، صحیح بخاري، کتاب بدء الخلق، باب صفة الجنة وأنها مخلوقة : 6؍251، سنن ابن ماجة: 4335، مسند أحمد : (الفتح الرباني ): 24؍188، دارمی : 2؍244۔
(1).... سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ سوار اس درخت کے سائے میں سو سال چلتا رہے گا، اسے طے نہ کر سکے گا۔ (صحیح البخاری : 3251۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی اور فرمایا: اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:
﴿ وَظِلٍّ مَمْدُودٍ﴾ (الواقعة : 30) ’’اور ایسے سائے میں جو خوب پھیلا ہوا ہے۔‘‘
سائے جگہ کے لحاظ سے پھیلاؤ بھی شامل ہے اور زمانے کے لحاظ سے بھی۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
﴿ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا﴾ (الرعد : 35) ’’اس کا پھل دائمی ہے اور اس کا سایہ بھی۔‘‘
(2) .... امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس درخت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ یہی ’’طوبیٰ‘‘ ہے۔ میں (ابن حجر)کہتا ہوں اس کا شاہد عتبہ بن عبد سلمی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جو احمد، طبرانی اور ابن حبان میں ہے اور یہی قول معتمد ہے۔ (فتح الباري: 6؍393۔)