كِتَابُ بَابٌ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنْ صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ يُرَدُّونَ بَنِي ثَلَاثِينَ سَنَةً فِي الْجَنَّةِ لَا يَزِيدُونَ عَلَيْهَا أَبَدًا، وَكَذَلِكَ أَهْلُ النَّارِ))
کتاب
باب
اسی سند کے ساتھ (یہ حدیث بھی مروی ہے ک)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت میں سے جو بھی فوت ہوا، چھوٹا یا بڑا، وہ جنت میں تیس سال کی عمر میں لوٹا دیے جائیں گے، وہ کبھی اس سے زیادہ (عمر کے)نہ ہوں گے۔ اور اہل جہنم بھی عمر میں اسی طرح ہوں گے۔
تشریح :
(1).... علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : طیبی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر تم یہ اعتراض کرو گے،ا س حدیث اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ’’با ب البکاء‘‘ میں مروی حدیث کے درمیان کی جمع و تطبیق ہے کہ :
((صِغَارُهُمْ دَعَامِیْصُ الْجَنَّةِ))
’’ان (جنتیوں )کے چھوٹے بچے جنت کے چھوٹے گھر والے ہوں گے۔‘‘
یعنی اپنی اپنی منازل پر داخل ہونے والے ہوں گے، کسی چیز سے روکے نہیں جائیں گے، جس طرح کہ دنیا میں (چھوٹے بچوں کا گھرمیں معاملہ)ہوتا ہے۔میں اس اعتراض کے جواب میں کہوں گا کہ ’’فی الجنة‘‘ ظرف ہے ’’لیردون‘‘ کی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لوٹائے جانے سے قبل چھوٹے گھر والے نہ تھے۔ (تحفة الأحوذي : 3؍338۔)
میں کہتا ہوں کہ جمع و تطبیق کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پہلی حدیث ضعیف ہے۔ صحیح اور ضعیف کے مابین تطبیق نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہ صحیح مسلم کی یہ حدیث ’’باب البکاء‘‘ میں نہیں بلکہ کتاب البر والصلۃ کے باب ’’فَضْلُ مَنْ یَمُوْتُ لَهُ وَلَدٌ فَیَحْتَسِبُهُ‘‘ میں ہے۔ دیکھیں صحیح مسلم: 6701۔
(2) .... دعامیص: یہ دُعموص کی جمع ہے، جس کا معنی ہے، چھوٹے گھر والے، اصل میں دعموص اس چھوٹے جانور کو کہتے ہیں جو پانی میں ہی رہتاہے، اس کی رفاقت کی وجہ سے یعنی یہ چھوٹا بچہ بھی جنت میں ہی رہے گا اس سے جدا نہ ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم : 2؍331۔)
تخریج :
زیادات الزهد، ابن مبارك : 128، جامع ترمذي: 2562۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(1).... علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : طیبی رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر تم یہ اعتراض کرو گے،ا س حدیث اور صحیح مسلم کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ’’با ب البکاء‘‘ میں مروی حدیث کے درمیان کی جمع و تطبیق ہے کہ :
((صِغَارُهُمْ دَعَامِیْصُ الْجَنَّةِ))
’’ان (جنتیوں )کے چھوٹے بچے جنت کے چھوٹے گھر والے ہوں گے۔‘‘
یعنی اپنی اپنی منازل پر داخل ہونے والے ہوں گے، کسی چیز سے روکے نہیں جائیں گے، جس طرح کہ دنیا میں (چھوٹے بچوں کا گھرمیں معاملہ)ہوتا ہے۔میں اس اعتراض کے جواب میں کہوں گا کہ ’’فی الجنة‘‘ ظرف ہے ’’لیردون‘‘ کی اور اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ لوٹائے جانے سے قبل چھوٹے گھر والے نہ تھے۔ (تحفة الأحوذي : 3؍338۔)
میں کہتا ہوں کہ جمع و تطبیق کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ پہلی حدیث ضعیف ہے۔ صحیح اور ضعیف کے مابین تطبیق نہیں ہوتی۔ دوسرا یہ کہ صحیح مسلم کی یہ حدیث ’’باب البکاء‘‘ میں نہیں بلکہ کتاب البر والصلۃ کے باب ’’فَضْلُ مَنْ یَمُوْتُ لَهُ وَلَدٌ فَیَحْتَسِبُهُ‘‘ میں ہے۔ دیکھیں صحیح مسلم: 6701۔
(2) .... دعامیص: یہ دُعموص کی جمع ہے، جس کا معنی ہے، چھوٹے گھر والے، اصل میں دعموص اس چھوٹے جانور کو کہتے ہیں جو پانی میں ہی رہتاہے، اس کی رفاقت کی وجہ سے یعنی یہ چھوٹا بچہ بھی جنت میں ہی رہے گا اس سے جدا نہ ہوگا۔ (شرح صحیح مسلم : 2؍331۔)