كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ لَيَتَرَاءَوْنَ فِي الْغُرَفِ كَمَا تَتَرَاءَوْنَ الْكَوْكَبَ الشَّرْقِيَّ أَوِ الْكَوْكَبَ الْغَرْبِيَّ الْغَارِبَ فِي الْأُفُقِ أَوِ الطَّالِعَ فِي تَفَاضُلِ الدَّرَجَاتِ))، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُولَئِكَ النَّبِيُّونَ، قَالَ: ((بَلَى، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدهِ وَأَقْوَامٌ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَصَدَّقُوا الْمُرْسَلِينَ))
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں : ’’بے شک اہل جنت، باہمی فضیلت کے درجات میں، ایک دوسرے کو بالاخانوں سے ایسے دیکھیں گے، جس طرح تم مشرقی یا مغربی ستارے کو، جو افق میں غروب یا طلوع ہونے والا ہوتا ہے، دیکھتے ہو، انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو نبی ہی ہوں گے؟ فرمایا: کیوں نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اور وہ لوگ بھی ہوں گے جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔‘‘
تشریح :
(1).... اہل جنت کی فضیلت کے مختلف درجات کی وجہ سے، جنت میں متفاوت درجات ہوں گے، یہاں تک کہ اوپر کے درجات والوں کو نیچے والے یوں دیکھیں گے جیسے، ستاروں کو دیکھ رہے ہوں۔ یہ بات اس حدیث سے بھی واضح ہو جاتی ہے جس میں ہے کہ جنت کے سو درجات ہیں اور ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے، جتنا زمین اور زمین کے درمیان اور سب سے اونچا درجہ جنت الفردوس ہے۔( ترمذي مع التحفة : 3؍326۔)
(2) .... یہ سب سے بلند درجات انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان لوگوں کو ملیں گے، جن میں تین اوصاف ہوں گے۔ اللہ پر ایمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور تمام رسولوں کی تصدیق۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تمام رسولوں کی تصدیق، صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے ثابت ہوتی ہے، نہ کہ پہلی امتوں کے لیے، کیوں کہ اگر ان میں کوئی ایسا ہو جس نے ا پنے اور آنے والے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی بھی ہو، لیکن وہ توقع کے طریق سے ہے نہ کہ واقع کے طریق سے۔ ’’واللہ اعلم‘‘(فتح الباري: 6؍395۔)
(3) .... جامع ترمذی میں ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی ان میں سے ہیں اور انعام یافتہ ہیں۔ (فتح الباري: 6؍395۔)
(4) .... جامع ترمذی کی دوسری روایت ہے جس میں تین اوصاف مزید بیان کیے گئے ہیں۔ (1)جس نے نرم گفتگو کی (2)ہمیشہ روزہ رکھا (3)نماز پڑھی جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ (فتح الباري: 6؍396۔)
تخریج :
زیادات الزهد، ابن مبارك : 126، مسند احمد : 2؍335 339، صحیح بخاري: 3256، معجم صغیر طبراني: 1؍128۔
(1).... اہل جنت کی فضیلت کے مختلف درجات کی وجہ سے، جنت میں متفاوت درجات ہوں گے، یہاں تک کہ اوپر کے درجات والوں کو نیچے والے یوں دیکھیں گے جیسے، ستاروں کو دیکھ رہے ہوں۔ یہ بات اس حدیث سے بھی واضح ہو جاتی ہے جس میں ہے کہ جنت کے سو درجات ہیں اور ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے، جتنا زمین اور زمین کے درمیان اور سب سے اونچا درجہ جنت الفردوس ہے۔( ترمذي مع التحفة : 3؍326۔)
(2) .... یہ سب سے بلند درجات انبیاء کرام صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان لوگوں کو ملیں گے، جن میں تین اوصاف ہوں گے۔ اللہ پر ایمان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور تمام رسولوں کی تصدیق۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’تمام رسولوں کی تصدیق، صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے ثابت ہوتی ہے، نہ کہ پہلی امتوں کے لیے، کیوں کہ اگر ان میں کوئی ایسا ہو جس نے ا پنے اور آنے والے کسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی بھی ہو، لیکن وہ توقع کے طریق سے ہے نہ کہ واقع کے طریق سے۔ ’’واللہ اعلم‘‘(فتح الباري: 6؍395۔)
(3) .... جامع ترمذی میں ہے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی ان میں سے ہیں اور انعام یافتہ ہیں۔ (فتح الباري: 6؍395۔)
(4) .... جامع ترمذی کی دوسری روایت ہے جس میں تین اوصاف مزید بیان کیے گئے ہیں۔ (1)جس نے نرم گفتگو کی (2)ہمیشہ روزہ رکھا (3)نماز پڑھی جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ (فتح الباري: 6؍396۔)