مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 12

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيءَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ؟ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَنَهَضَ فَصَلَّى، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ، قَالَ: ((أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ السَّاعَةِ؟)) قَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ((وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟)) قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَبِيرِ صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ، إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ. فَقَالَ: ((الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ))، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ الْمُسْلِمِينَ فَرِحُوا بِشَيْءٍ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحَهُمْ بِهِ

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 12

کتاب باب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (صحابہ رضی اللہ عنہم (کو یہ بات اچھی لگتی تھی کہ دیہات والوں سے کوئی آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بدوی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ نماز کی اقامت کہہ دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور نماز پڑھائی، پھر جب اپنی نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا کہ قیامت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں ہے؟‘‘ اس نے کہا: میں ہوں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !مزید کہا کہ میں نے اس کے لیے بہت زیادہ نمازیں اورروزے تیار نہیں کیے، البتہ بے شک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اسی کے ساتھ ہے جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔‘‘ کہا کہ میں نے مسلمانوں کو اسلام لانے کے بعد کسی چیز پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا مسرور وہ اس بات پر ہوئے۔
تشریح : (1) .... پس منظر: ایک وقت تھا کہ غیر ضروری سوالات سے منع کردیا گیا تھا، جیسا کہ صحیح مسلم : 1؍114)347)میں ہے کہ ایک شخص نے کہا: ((یَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَیْنَ أَبِی؟ قَالَ فِی النَّارِ۔)) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کہاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ میں۔‘‘ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت محتاط رہتے اور خواہش کرتے کہ کاش، باہر سے کوئی عقل مند شخص آئے، جسے سوال کی ممانعت کا علم نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے اچھے سوال کرے اور ہم بھی جواب سن کر مستفید ہوں، چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ((نُهِینَا أَنْ نَّسْأَلَ رَسُولَ اللّٰهِ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْئٍ فَکَانَ یُعْجِبُنَا أَنْ یَّجٓیْئَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ الْعَاقِلُ فَیَسْأَلُهٗ وَنَحْنُ نَسْمَعُ فَجَآءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ فَقَالَ....)) (صحیح مسلم : 1؍30 (10)۔) ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع کر دیا گیا، تو ہمیں اچھا لگتا کہ دیہاتیوں میں سے کوئی عقل مند شخص آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے اور ہم سن رہے ہوں تو اہل دیہہ میں سے ایک آدمی آیا اور کہا .... ‘‘ (2) .... غیر ضروری سوالات کی ممانعت کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اس قدر ڈر گئے کہ ضروری چیزوں کے متعلق سوال کرنے سے بھی گھبراتے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((سَلُونِي فَهَابُوهُ أَنْ یَّسْأَلُوهُ....)) (صحیح مسلم : 1؍28 (7)۔) ’’مجھ سے سوال کرو، تو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے ڈر گئے....‘‘ امام نووی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’هذا لیس بمخالف للنهي عن سؤاله فإن هذا المامور به هو فیما یحتاج إلیه وهو موافق لقول اللّٰه تعالیٰ: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ﴾۔‘‘( صحیح مسلم: 1؍28 (7)۔) ’’یہ (مجھ سے سوال کرو(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کی ممانعت کے خلاف نہیں ہے، کیوں کہ یہاں جس چیز کا حکم دیا جا رہا ہے، اس سے مراد ضروری سوال ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے موافق ہے: ’’پس تم اہل ذکر سے سوال کرو۔‘‘ (3) .... غیر ضروری سوال پہلی قوموں کی ایک بری عادت میں سے ہے کہ جس پر قدغن لگائی گئی ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ ﴾(المائدہ : 102) ’’بے شک تم سے پہلے ان کے بارے میں کچھ لوگوں نے سوال کیا، پھر وہ ان سے کفر کرنے والے ہو گئے۔‘‘ یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے، کیوں کہ ان کا حال یہ تھاکہ اپنے انبیاء کرام علیہم السلام سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دی جاتی تو حکم بجا نہ لاتے،اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہرتے۔ یہ ساری مصیبت بلاضرورت کثرت سوال سے پیش آئی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو۔‘‘ تو ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے۔‘‘ پھر فرمایا: مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ اپنے سوالوں کی کثرت اور انبیاء سے اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوے، تو جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس میں جتنا کر سکو کرو، اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اسے چھوڑ دو۔ (صحیح مسلم، حدیث : 1337۔) (4) .... نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ ﴾(المائدہ : 101) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک مسلمانوں کے حق میں مسلمانوں میں سے جرم کے لحاظ سے سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام قرار نہیں دی گئی تھی، پھر اس کے سوال کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئی۔ (صحیح بخاري، حدیث : 7289، صحیح مسلم، حدیث : 2358۔) (5) .... اس حدیث پاک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر نیک لوگوں کے ساتھ محبت کا اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فیه فضل حب اللّٰه ورسوله صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ والصالحین، وأهل الخیر الأحیاء والأموات، ومن أفضل محبة اللّٰه ورسوله إمتثال أمرهما واجتناب نهیهما والتأدب بالأداب الشرعیة‘‘(شرح صحیح مسلم : 2؍331۔) ’’اس میں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صالحین، نیز زندہ اور فوت شدگان اصحاب خیر سے محبت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے افضل محبت ان دونوں کے احکام کی بجا آوری، منع کردہ کاموں سے رکنا اور شرعی آداب کو ملحوظ رکھنا ہے۔‘‘ دوسری حدیث میں یوں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ((کَیْفَ تَرٰی فِیْ رَجُلٍ اَحَبَّ قَوْمًا وَلَمَّا یَلْحَقْ بِهٖمْ؟ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ۔)( صحیح مسلم : 2؍332(2640)۔) ’’اس آدمی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہے، جو ایک قوم سے محبت کرتا ہے، لیکن ابھی تک ان سے ملا نہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔‘‘ (6) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صالحین سے محبت کا فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری نہیں کہ عمل بھی ان جیسا ہو، اس لیے کہ اگر عمل ان جیسا ہو پھر تو یہ شخص خود ان میں سے اور ان کی مثل ہو گیا، جب کہ اس حدیث میں وضاحت ہے کہ وہ خود ان میں سے نہیں، نیز عربی قواعد کے ماہرین نے کہا ہے کہ ’’لَمَّا‘‘ کے ساتھ ماضی اور زمانہ حال دونوں کی نفی ہوتی ہے جب کہ ’’لَمْ‘‘ کے ساتھ صرف ماضی کی نفی ہوتی ہے اور پھر اس کے ان کے ساتھ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ا س کا مرتبہ اور جزا ہر اعتبار سے ان جیسی ہو۔ (شرح صحیح مسلم : 2؍331،332۔) (7) .... یہ حدیث پاک سن کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ انتہائی خوش ہوئے اور فرماتے ہیں : ((فَأَنَا أُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ، وَأَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ، فَأَرْجُوْا أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ)) (صحیح مسلم، (تحت حدیث : 2639)۔) ’’پس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم سے محبت کرتا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ انہیں کے ساتھ ہوں گا، اگرچہ میں ان کے اعمال کے برابر عمل نہ کر سکا۔‘‘
تخریج : صحیح مسلم : 16؍186، 187 (61، 164)، طبراني صغیر : 1؍58، 2؍130،150، الزهد، ابن مبارك : 250،260، صحیح ابن حبان : 1؍107، 175، 471، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 6؍339، 7؍309، تاریخ بغداد، خطیب بغدادي : 2؍16، 4؍259، مشکل الآثار، طحاوی : 1؍198، الأدب المفرد، بخاري : 1؍441، مسند احمد (الفتح الرباني)2؍37،المقاصد الحسنة، سخاوي : 379۔ (1) .... پس منظر: ایک وقت تھا کہ غیر ضروری سوالات سے منع کردیا گیا تھا، جیسا کہ صحیح مسلم : 1؍114)347)میں ہے کہ ایک شخص نے کہا: ((یَا رَسُولَ اللّٰهِ، أَیْنَ أَبِی؟ قَالَ فِی النَّارِ۔)) ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کہاں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آگ میں۔‘‘ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت محتاط رہتے اور خواہش کرتے کہ کاش، باہر سے کوئی عقل مند شخص آئے، جسے سوال کی ممانعت کا علم نہ ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھے اچھے سوال کرے اور ہم بھی جواب سن کر مستفید ہوں، چنانچہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ((نُهِینَا أَنْ نَّسْأَلَ رَسُولَ اللّٰهِ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَیْئٍ فَکَانَ یُعْجِبُنَا أَنْ یَّجٓیْئَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ الْعَاقِلُ فَیَسْأَلُهٗ وَنَحْنُ نَسْمَعُ فَجَآءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِیَةِ فَقَالَ....)) (صحیح مسلم : 1؍30 (10)۔) ’’ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرنے سے منع کر دیا گیا، تو ہمیں اچھا لگتا کہ دیہاتیوں میں سے کوئی عقل مند شخص آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے اور ہم سن رہے ہوں تو اہل دیہہ میں سے ایک آدمی آیا اور کہا .... ‘‘ (2) .... غیر ضروری سوالات کی ممانعت کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم اس قدر ڈر گئے کہ ضروری چیزوں کے متعلق سوال کرنے سے بھی گھبراتے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((سَلُونِي فَهَابُوهُ أَنْ یَّسْأَلُوهُ....)) (صحیح مسلم : 1؍28 (7)۔) ’’مجھ سے سوال کرو، تو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے ڈر گئے....‘‘ امام نووی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’هذا لیس بمخالف للنهي عن سؤاله فإن هذا المامور به هو فیما یحتاج إلیه وهو موافق لقول اللّٰه تعالیٰ: ﴿ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ﴾۔‘‘( صحیح مسلم: 1؍28 (7)۔) ’’یہ (مجھ سے سوال کرو(آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کی ممانعت کے خلاف نہیں ہے، کیوں کہ یہاں جس چیز کا حکم دیا جا رہا ہے، اس سے مراد ضروری سوال ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے موافق ہے: ’’پس تم اہل ذکر سے سوال کرو۔‘‘ (3) .... غیر ضروری سوال پہلی قوموں کی ایک بری عادت میں سے ہے کہ جس پر قدغن لگائی گئی ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ ﴾(المائدہ : 102) ’’بے شک تم سے پہلے ان کے بارے میں کچھ لوگوں نے سوال کیا، پھر وہ ان سے کفر کرنے والے ہو گئے۔‘‘ یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے، کیوں کہ ان کا حال یہ تھاکہ اپنے انبیاء کرام علیہم السلام سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دی جاتی تو حکم بجا نہ لاتے،اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہرتے۔ یہ ساری مصیبت بلاضرورت کثرت سوال سے پیش آئی۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: ’’لوگو! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے، لہٰذا حج کرو۔‘‘ تو ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! کیا ہر سال؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، یہاں تک کہ اس نے تین بار یہی بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں ہاں کہہ دیتا تو فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے۔‘‘ پھر فرمایا: مجھے چھوڑے رکھو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ اپنے سوالوں کی کثرت اور انبیاء سے اختلاف کی وجہ ہی سے ہلاک ہوے، تو جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو اس میں جتنا کر سکو کرو، اور جب میں تمہیں کسی چیز سے منع کر دوں تو اسے چھوڑ دو۔ (صحیح مسلم، حدیث : 1337۔) (4) .... نیز فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ ﴾(المائدہ : 101) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک مسلمانوں کے حق میں مسلمانوں میں سے جرم کے لحاظ سے سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام قرار نہیں دی گئی تھی، پھر اس کے سوال کی وجہ سے حرام قرار دے دی گئی۔ (صحیح بخاري، حدیث : 7289، صحیح مسلم، حدیث : 2358۔) (5) .... اس حدیث پاک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر نیک لوگوں کے ساتھ محبت کا اجر و ثواب بیان کیا گیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فیه فضل حب اللّٰه ورسوله صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ والصالحین، وأهل الخیر الأحیاء والأموات، ومن أفضل محبة اللّٰه ورسوله إمتثال أمرهما واجتناب نهیهما والتأدب بالأداب الشرعیة‘‘(شرح صحیح مسلم : 2؍331۔) ’’اس میں اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، صالحین، نیز زندہ اور فوت شدگان اصحاب خیر سے محبت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے افضل محبت ان دونوں کے احکام کی بجا آوری، منع کردہ کاموں سے رکنا اور شرعی آداب کو ملحوظ رکھنا ہے۔‘‘ دوسری حدیث میں یوں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ((کَیْفَ تَرٰی فِیْ رَجُلٍ اَحَبَّ قَوْمًا وَلَمَّا یَلْحَقْ بِهٖمْ؟ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ۔)( صحیح مسلم : 2؍332(2640)۔) ’’اس آدمی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال ہے، جو ایک قوم سے محبت کرتا ہے، لیکن ابھی تک ان سے ملا نہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس نے محبت کی۔‘‘ (6) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صالحین سے محبت کا فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری نہیں کہ عمل بھی ان جیسا ہو، اس لیے کہ اگر عمل ان جیسا ہو پھر تو یہ شخص خود ان میں سے اور ان کی مثل ہو گیا، جب کہ اس حدیث میں وضاحت ہے کہ وہ خود ان میں سے نہیں، نیز عربی قواعد کے ماہرین نے کہا ہے کہ ’’لَمَّا‘‘ کے ساتھ ماضی اور زمانہ حال دونوں کی نفی ہوتی ہے جب کہ ’’لَمْ‘‘ کے ساتھ صرف ماضی کی نفی ہوتی ہے اور پھر اس کے ان کے ساتھ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ا س کا مرتبہ اور جزا ہر اعتبار سے ان جیسی ہو۔ (شرح صحیح مسلم : 2؍331،332۔) (7) .... یہ حدیث پاک سن کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ انتہائی خوش ہوئے اور فرماتے ہیں : ((فَأَنَا أُحِبُّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ، وَأَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ، فَأَرْجُوْا أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِأَعْمَالِهِمْ)) (صحیح مسلم، (تحت حدیث : 2639)۔) ’’پس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم سے محبت کرتا ہوں، اور امید رکھتا ہوں کہ انہیں کے ساتھ ہوں گا، اگرچہ میں ان کے اعمال کے برابر عمل نہ کر سکا۔‘‘