كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ هِشَامٍ، سَمِعْتُ الْحَسَنَ يَذْكُرُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةً قَدْ دَعَا بِهَا، وَإِنِّي اسْتَخْبَأْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ))
کتاب
باب
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے لیے ایک دعا ہے جو قبول کی جانے والی ہے، یقینا وہ اس کے ساتھ دعا کر چکا ہے اور بے شک میں نے قیامت والے دن ا پنی امت کی شفاعت کے لیے اپنے دعا کو چھپا رکھا ہے۔
تشریح :
(1).... صحیح بخاری میں الفاظ ہیں :
((لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ یَدْعُو بِهَا، وفی أخری: کُلُّ نَبِیٍّ سَأَلَ سُؤْلًا أَوْ قَالَ لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا فَاسْتُجِیبَ....)) (صحیح بخاري: 6304، 6305۔)
’’ہر نبی کے لیے ایک قبول کی جانے والی دعا ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ دعا کرتا ہے، اور ایک دوسری روایت ہے، ہر نبی کے لیے ہے کہ وہ کوئی سوال کر سکتا ہے، یا فرمایا کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا ہے جو اس نے دعا کی اور قبول کر لی گئی۔‘‘
گزشتہ بالاحدیث نمبر 110 میں گزر چکا ہے کہ جب سب لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور سفارش کے لیے کہیں گے تو وہ عذر بیان کرتے ہوئے فرمائیں گے: ’’بے شک بات میرے لیے ایک دعا کا اختیار تھا جو میں اپنی قوم پر بددعا کر چکا ہوں۔‘‘
(2) .... آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا سے کون خوش نصیب مستفید ہو سکے گا؟ اس بارے صحیح مسلم کی حدیث ہے:
((فَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مَنْ مَاتَ مِنْ اُمَّتِيْ لَا یُشْرِكُ بِاللّهِٰ شَیْئًا)) (فتح الباري: 11؍116۔)
’’پس وہ اگر اللہ نے چاہا تو اسے حاصل ہوگی، جو میری امت میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔‘‘
(3) .... اس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی انبیاء پر فضیلت ثابت ہو رہی ہے کہ انہوں نے دنیا میں ہی اپنی دعا کا یہ حق استعمال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے گناہ گاروں کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے مخصوص ہے اور نہ اپنے اہل بیت کے لیے بلکہ امت کے کبیرہ کے مرتکبین کے لیے، کیوں کہ وہی اس وقت اطاعت گزاروں کی نسبت زیادہ ضرورت مند ہوں گے۔ نیز یہ دعا امت اجابت کے لیے ہوگی نہ کہ امت دعوت کے لیے۔
(4) .... یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے ساتھ کمال محبت اور شفقت ہے نیز ان کی مصلحتوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بلیغ اور اہتمام بالغ ہے۔
(5).... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس میں اہل سنت کے اس موقف کی دلیل ہے کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا نہ تھا، وہ ہمیشہ آگ میں نہیں رکھا جائے گا، چاہے وہ کبیرہ گناہوں پر اصرار کرتا رہا۔( فتح الباري: 11؍117۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 563، 564، صحیح مسلم : فی کتاب الإیمان، رقم 345۔ 3؍77، صحیح بخاري، کتاب الدعوات، باب لکل نبی دعوة مستجابة : 11؍80، سنن دارمي، کتاب الرقاق 85، باب ان لکل نبي دعوة مستجابة : 2؍235، سنن ترمذي، فی کتاب الدعوات : 10؍63۔
(1).... صحیح بخاری میں الفاظ ہیں :
((لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ یَدْعُو بِهَا، وفی أخری: کُلُّ نَبِیٍّ سَأَلَ سُؤْلًا أَوْ قَالَ لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا فَاسْتُجِیبَ....)) (صحیح بخاري: 6304، 6305۔)
’’ہر نبی کے لیے ایک قبول کی جانے والی دعا ہوتی ہے جس کے ساتھ وہ دعا کرتا ہے، اور ایک دوسری روایت ہے، ہر نبی کے لیے ہے کہ وہ کوئی سوال کر سکتا ہے، یا فرمایا کہ ہر نبی کے لیے ایک دعا ہے جو اس نے دعا کی اور قبول کر لی گئی۔‘‘
گزشتہ بالاحدیث نمبر 110 میں گزر چکا ہے کہ جب سب لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور سفارش کے لیے کہیں گے تو وہ عذر بیان کرتے ہوئے فرمائیں گے: ’’بے شک بات میرے لیے ایک دعا کا اختیار تھا جو میں اپنی قوم پر بددعا کر چکا ہوں۔‘‘
(2) .... آخرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا سے کون خوش نصیب مستفید ہو سکے گا؟ اس بارے صحیح مسلم کی حدیث ہے:
((فَهِيَ نَائِلَةٌ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ مَنْ مَاتَ مِنْ اُمَّتِيْ لَا یُشْرِكُ بِاللّهِٰ شَیْئًا)) (فتح الباري: 11؍116۔)
’’پس وہ اگر اللہ نے چاہا تو اسے حاصل ہوگی، جو میری امت میں سے اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔‘‘
(3) .... اس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی انبیاء پر فضیلت ثابت ہو رہی ہے کہ انہوں نے دنیا میں ہی اپنی دعا کا یہ حق استعمال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے گناہ گاروں کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے مخصوص ہے اور نہ اپنے اہل بیت کے لیے بلکہ امت کے کبیرہ کے مرتکبین کے لیے، کیوں کہ وہی اس وقت اطاعت گزاروں کی نسبت زیادہ ضرورت مند ہوں گے۔ نیز یہ دعا امت اجابت کے لیے ہوگی نہ کہ امت دعوت کے لیے۔
(4) .... یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے ساتھ کمال محبت اور شفقت ہے نیز ان کی مصلحتوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر بلیغ اور اہتمام بالغ ہے۔
(5).... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس میں اہل سنت کے اس موقف کی دلیل ہے کہ جو شخص اس حال میں مرا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا نہ تھا، وہ ہمیشہ آگ میں نہیں رکھا جائے گا، چاہے وہ کبیرہ گناہوں پر اصرار کرتا رہا۔( فتح الباري: 11؍117۔)