مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 110

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ، وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ، فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً، ثُمَّ قَالَ: ((أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، هَلْ تَدْرُونَ بِمَ ذَاكَ؟ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ، يُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمُ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ، فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنَ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ، فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ، أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ، فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ: عَلَيْكُمْ بِآدَمَ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ، وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ، نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُونَ: يَا نُوحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا؟ قَالَ: فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُونَ: يَا إِبْرَاهِيمُ، أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ لَهُمْ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، فَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كِذْبَاتٍ، فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُونَ: يَا مُوسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَضَّلَكَ بِرِسَالَاتِهِ وَبِتَكْلِيمِهِ عَلَى النَّاسِ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى، فَيَأْتُونَ فَيَقُولُونَ: يَا عِيسَى، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ، وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ عِيسَى: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي، اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُونَ: يَا مُحَمَّدُ، أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتمُ الْأَنْبِيَاءِ، غَفَرَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحنُ فِيهِ؟ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي، ثُمَّ يَفْتَحُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي، ثُمَّ يُقَالُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَهْ، اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي يَا رَبِّ، أُمَّتِي. فَيُقَالُ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنَ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنَ الْأَبْوَابِ. قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 110

کتاب باب سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی دستی بلند کی گئی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے دانتوں سے نوچا، پھر فرمایا: میں قیامت والے دن لوگوں کا سردار ہوں گااور کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیسے ہوگا؟ اللہ پہلے پچھلے تمام لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرے گا، پکارنے والا انہیں سنا سکے گا، نگاہ انہیں پار کر جائے گی اور سورج قریب ہو جائے گا، لوگ غم اور کرب کی (اس انتہاء کو)پہنچ جائیں گے کہ جس کی تاب رکھتے ہوں گے نہ برداشت کر پائیں گے، لوگ بعض بعض سے کہیں گے: لازماً آدم علیہ السلام کے پاس چلو، وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے باپ ہیں، اللہ نے آپ علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور آپ علیہ السلام میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو وہ آپ علیہ السلام کے لیے سجدہ ریز ہوئے، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجئے، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے جس (پریشانی)میں ہم ہیں، کیا آپ علیہ السلام اس کی طرف نہیں دیکھ رہے جو ہم کو پہنچا، تو آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس کی مثل اس سے پہلے غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کی مثل اس کے بعد غضب ناک ہوگا اور بے شک اس نے مجھے اس درخت سے منع کیا تھا تو میں نے اس کی نافرمانی کی تھی، ہائے میری جان، میری جان! جاؤ میرے غیر کی طرف، نوح علیہ السلام کی طرف جاؤ، پھر وہ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے نوح علیہ السلام! آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین والوں کی طرف پہلے رسول ہیں اور اللہ نے آپ علیہ السلام کا نام انتہائی شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے ہم کس (پریشانی)میں ہیں، کیا آپ علیہ السلام اس کی طرف نہیں دیکھ رہے جو ہم کو پہنچا؟ وہ کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس کی مثل اس سے پہلے غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کی مثال اس کے بعد غضب ناک ہوگا اور بے شک میرے لیے ایک دعا (کا اختیار)تھا اور وہ بددعا میں اپنی قوم پر کر چکا، ہائے میری جان، میری جان! میرے غیر کی طرف جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کی طرف جاؤ، وہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے ابراہیم علیہ السلام! آپ علیہ السلام اللہ کے نبی اور اہل زمین میں سے اس کے دوست ہیں، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں، تو وہ ان سے کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضب ناک نہیں ہوا اور نہ اس کی بعد اتنا غضب ناک ہوگا اور بے شک میں نے تین خلاف واقع باتیں کی تھیں، ابو حیان (راوی)نے حدیث میں ان کو ذکر کیا ہے۔ ہائے میری جان، میری جان، میرے غیر کی طرف جاؤ، موسیٰ علیہ السلام کی طرف جاؤ۔ وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے موسیٰ علیہ السلام! آپ علیہ السلام اللہ کے رسول ہیں،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رسالتوں اور کلام کے ساتھ لوگوں پر فضیلت دی، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں ؟ تو وہ کہیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس سے پہلے اتنا غضب ناک ہوا ہے اور نہ ہی اس کے بعد اتنا غضب ناک ہوگا اور بے شک میں نے ایک ایسی جان کو قتل کیا تھا کہ جسے قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، ہائے میری جان، میری جان، میرے غیر کی طرف جاؤ، عیسیٰ علیہ السلام کی طرف جاؤ۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے عیسیٰ علیہ السلام! آپ اللہ کے رسول ہیں اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو مریم علیہ السلام کی طرف ڈالا اور اس کی روح ہیں اور آپ علیہ السلام نے گود میں لوگوں سے کلام کیا، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کریں، کیا آپ علیہ السلام دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں ؟ تو عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: بے شک میرا رب آج اتنا غصے میں ہے کہ اس کی مثل اس سے پہلے غضب ناک ہوا اور نہ اس کی مثل اس کے بعد غضب ناک ہوگا اور کسی گناہ کا ذکر نہیں کریں گے۔ ہائے میری جان، میری جان، میرے غیر کی طر ف جاؤ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاؤ، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجائیں گے اور کہیں گے: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اورسب نبیوں کے خاتم ہیں، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرما دیے، ہمارے لیے اپنے رب سے سفارش کیجئے، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس (پریشانی)میں ہیں ؟ میں چلوں گا اور عرش کے نیچے آجاؤں گا، پھر اپنے رب کے لیے سجدہ ریز ہوجاؤں گا، پھر اللہ میرے اوپر اپنی حمد اور اچھی تعریف میں سے وہ چیز کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی پر نہیں کھولی گئی ہوگی، پھر کہا جائے گا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنا سر اٹھائیے، مانگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا، سفارش کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش قبول کی جائے گی، تو میں اپنی سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: میری امت، یا رب میری امت، یا رب میری امت! پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جائے گا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کے دروازوں میں سے دائیں دروازے سے اپنی امت میں اسے داخل کریں، جس پر کوئی حساب نہیں ہے اور وہ اس کے علاوہ دروازوں میں باقی لوگوں کے شریک ہوں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے (دروازوں کے)کواڑوں میں سے دو کواڑوں کے درمیان کا (فاصلہ)ایسے ہے جیسے مکہ اور ہجر یا مکہ اور بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے۔
تشریح : شفاعت کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے کچھ امت کے مابین متفق علیہ ہیں اور کچھ میں معتزلہ اور ان جیسے اہل بدعت نے اختلاف کیا ہے۔ پہلی قسم:....پہلی سفارش، جسے شفاعت عظمیٰ بھی کہتے ہیں، یہ باقی سب انبیاء علیہ السلام میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے اور اس حدیث میں اسی کا ذکر ہوا ہے۔ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ائمہ حدیث نے شفاعت کبریٰ والی اس حدیث کو بیان کرتے وقت حذف و اختصار سے کام لیا ہے اور اس میں باریٰ تعالیٰ کے فصلِ قضا کے لیے آنے کا ذکر نہیں کیا حالانکہ سیاق کلام کا تقاضا یہی تھا اور اس مقام پر اصل مقصود بھی یہی تھا، لیکن انہوں نے صرف اتنا حصہ بیان کیا جس میں خوارج اور اس کے پیرو معتزلہ کا رد مقصود تھا، جو آگ میں داخل ہونے کے بعد کسی کے بھی نکلنے کا قائل نہیں ہیں۔( شرح عقیده طحاویة، ص : 164۔) دوسری اور تیسری قسم: .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے لوگوں کے لیے سفارش جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے سفارش کریں گے تاکہ وہ جنت میں داخل کر دئیے جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان لوگوں کے بارے میں سفارش کہ جنہیں آگ کی طرف حکم دیا جا چکا ہوگا کہ وہ اس میں داخل نہ کیے جائیں۔ چوتھی قسم:....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنتیوں کے بارے میں سفارش کے ان کے درجات بلند کیے جائیں، اس سے کہیں زیادہ کہ جس کا تقاضا اس کے اعمال کا اجرو ثواب کرتا ہے۔ معتزلہ صرف اس شفاعت میں اہل سنت کے ہم نوا ہیں۔ پانچویں قسم: .... ایسے لوگوں کے لیے سفارش کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو سکیں جس طرح کہ سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ انہیں ان ستر ہزار لوگوں میں شامل فرما لے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔( صحیح بخاري: 5811، صحیح مسلم : 216، 217۔) چھٹی قسم: .... عذاب کے مستحق سے، عذاب میں تخفیف کے لیے سفارش، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے چچا ابو طالب کے لیے سفارش کہ اس کے عذاب پر تخفیف کر دی جائے۔( صحیح بخاري: 3883، صحیح مسلم : 209۔) امام قرطبی رحمہ اللہ نے ’’التذکرہ‘‘ میں اس قسم کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾(المدثر : 48) ’’پس انہیں (کفار کو)سفارش کرنے والوں کی سفارش فائدہ نہیں دے گی۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں آگ سے نکلنے کا فائدہ نہیں دے گی، جیسا کہ گناہ گار توحید پرستوں کو فائدہ دے گی کہ جنہیں آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرد یاجائے گا۔ (شرح عقیده طحاویة: 165۔) ساتویں قسم: .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے تمام اہل ایمان کو جنت میں داخلے کی اجازت دے دی جائے، جیسا سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں جنت کے بارے میں سب سے پہلا سفارش کرنے والا ہوں گا۔‘‘( صحیح مسلم : 196۔) آٹھویں قسم: .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سفارش، جو آگ میں داخل ہو چکے ہوں گے، پھر انہیں وہاں سے نکال دیا جائے گا، اس بارے متواتر احادیث ہیں، اس کا علم خوارج اور معتزلہ سے مخفی رہ گیا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ سفارش کی اس قسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرشتے،ا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان بھی شریک ہیں اور اس سفارش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار بار تکرار ہوگی، چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((شَفَاعَتِيْ لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ۔))( مسند احمد : 3؍213۔) ’’میری سفارش، میری امت کے کبیرہ گناہوں والوں کے لیے ہے۔‘‘ شفاعت کی مذکورہ بالا اقسام کے لیے دیکھیں۔ شرح عقیده طحاویة ص : 161۔167۔
تخریج : الزهد، ابن مبارك فی زیادات نعیم : 110، صحیح مسلم، کتاب الایمان : 3؍65، 3؍69، رقم : 328، جامع ترمذي، کتاب صفة القیامة : 10، باب ما جاء فی الشفاعة : 7؍121۔ شفاعت کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے کچھ امت کے مابین متفق علیہ ہیں اور کچھ میں معتزلہ اور ان جیسے اہل بدعت نے اختلاف کیا ہے۔ پہلی قسم:....پہلی سفارش، جسے شفاعت عظمیٰ بھی کہتے ہیں، یہ باقی سب انبیاء علیہ السلام میں سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے اور اس حدیث میں اسی کا ذکر ہوا ہے۔ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ائمہ حدیث نے شفاعت کبریٰ والی اس حدیث کو بیان کرتے وقت حذف و اختصار سے کام لیا ہے اور اس میں باریٰ تعالیٰ کے فصلِ قضا کے لیے آنے کا ذکر نہیں کیا حالانکہ سیاق کلام کا تقاضا یہی تھا اور اس مقام پر اصل مقصود بھی یہی تھا، لیکن انہوں نے صرف اتنا حصہ بیان کیا جس میں خوارج اور اس کے پیرو معتزلہ کا رد مقصود تھا، جو آگ میں داخل ہونے کے بعد کسی کے بھی نکلنے کا قائل نہیں ہیں۔( شرح عقیده طحاویة، ص : 164۔) دوسری اور تیسری قسم: .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسے لوگوں کے لیے سفارش جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے سفارش کریں گے تاکہ وہ جنت میں داخل کر دئیے جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان لوگوں کے بارے میں سفارش کہ جنہیں آگ کی طرف حکم دیا جا چکا ہوگا کہ وہ اس میں داخل نہ کیے جائیں۔ چوتھی قسم:....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جنتیوں کے بارے میں سفارش کے ان کے درجات بلند کیے جائیں، اس سے کہیں زیادہ کہ جس کا تقاضا اس کے اعمال کا اجرو ثواب کرتا ہے۔ معتزلہ صرف اس شفاعت میں اہل سنت کے ہم نوا ہیں۔ پانچویں قسم: .... ایسے لوگوں کے لیے سفارش کہ وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو سکیں جس طرح کہ سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی کہ انہیں ان ستر ہزار لوگوں میں شامل فرما لے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔( صحیح بخاري: 5811، صحیح مسلم : 216، 217۔) چھٹی قسم: .... عذاب کے مستحق سے، عذاب میں تخفیف کے لیے سفارش، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے چچا ابو طالب کے لیے سفارش کہ اس کے عذاب پر تخفیف کر دی جائے۔( صحیح بخاري: 3883، صحیح مسلم : 209۔) امام قرطبی رحمہ اللہ نے ’’التذکرہ‘‘ میں اس قسم کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ﴾(المدثر : 48) ’’پس انہیں (کفار کو)سفارش کرنے والوں کی سفارش فائدہ نہیں دے گی۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں آگ سے نکلنے کا فائدہ نہیں دے گی، جیسا کہ گناہ گار توحید پرستوں کو فائدہ دے گی کہ جنہیں آگ سے نکال کر جنت میں داخل کرد یاجائے گا۔ (شرح عقیده طحاویة: 165۔) ساتویں قسم: .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش کے تمام اہل ایمان کو جنت میں داخلے کی اجازت دے دی جائے، جیسا سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں جنت کے بارے میں سب سے پہلا سفارش کرنے والا ہوں گا۔‘‘( صحیح مسلم : 196۔) آٹھویں قسم: .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سفارش، جو آگ میں داخل ہو چکے ہوں گے، پھر انہیں وہاں سے نکال دیا جائے گا، اس بارے متواتر احادیث ہیں، اس کا علم خوارج اور معتزلہ سے مخفی رہ گیا تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ سفارش کی اس قسم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فرشتے،ا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان بھی شریک ہیں اور اس سفارش کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چار بار تکرار ہوگی، چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((شَفَاعَتِيْ لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِيْ۔))( مسند احمد : 3؍213۔) ’’میری سفارش، میری امت کے کبیرہ گناہوں والوں کے لیے ہے۔‘‘ شفاعت کی مذکورہ بالا اقسام کے لیے دیکھیں۔ شرح عقیده طحاویة ص : 161۔167۔