مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 11

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَعْمَلُ لِلَّهِ وَيُحِبُّهُ النَّاسُ؟ قَالَ: ((تِلْكَ عَاجِلُ بُشْرَى الْمُؤْمِنِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 11

کتاب باب عبد اللہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ بے شک سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آدمی اللہ کے لیے عمل کرتا ہے، لوگ اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ مومن کی جلدی آنے والی خوشخبری ہے۔‘‘
تشریح : (1) .... پس منظر: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے، ایسے عمل سے لوگ خوش ہوتے ہیں اور عمل کرنے والے مرد صالح سے محبت کرتے ہیں، آیا یہ اخلاص کے منافی تو نہیں ؟ نیز اس سے ریاکاری تو لازم نہیں آتی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ جلدی آنے والی خوشخبری ہے، جس کی بدولت بندے کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے نزدیک بھی اسے محبوب و مقبول بنا دیا ہے، لہٰذااسے اخلاص کے برعکس یا ریاکاری تصور نہیں کرنا چاہیے۔ (2) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’قال العلماء: هذہ البشریٰ المعجلة له بالخیر، وهی دلیل البشریٰ المؤخرة الی الآخرة بقوله: ’’بشر لٰکم الیوم جنات الآیة، وهذہ البشریٰ المعجلة دلیل علی رضا اللّٰه تعالیٰ عنه و محبته له فیحبه إلی الخلق کما سبق فی الحدیث ثم یوضع له القبول فی الارٔض۔ هذا کله إذا حمدہ الناس من غیر تعرض منه لحمدهم والا فالتعرض مذموم۔‘‘( شرح صحیح مسلم : 2؍332۔) ’’یعنی علماء نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ خیر کی خوش خبری جو اسے جلد دی گئی ہے، بعد میں آخرت کو ملنے والی خوش خبری کی دلیل ہے، جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے، تمہارے لیے ہی آج باغات کی خوش خبری ہے۔‘‘ اور یہ جلد حاصل ہونے والی خوش خبری اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور اس بندے سے محبت کی دلیل ہے کہ اسی وجہ سے اس نے اسے مخلوق کا محبوب بنا دیا ہے، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا پھر اس کے لیے اہل زمین کے دلوں میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے کہ جب لوگ اس کی تعریف کریں اوریہ قطعاً ان کی تعریف کے درپے نہ ہو ورنہ اس کا درپے ہونا قابل مذمت ہے۔‘‘ (3) .... مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہو رہی ہے اور اس کی طرف امام نووی رحمہ اللہ نے اپنے کلام میں اشارہ بھی فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّ اللّٰهَ اِذَا اَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَقَالَ: اِنِّی اُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبَّهٗ، قَالَ: فَیُحِبُّهٗ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِی فِیْ السَّمَاءِ فَیَقُولُ: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبُّوہٗ، فَیُحِبُّهٗ اَهْلُ السَّمَآءِ، قَالَ: ثُمَّ یُوضَعُ لَهٗ الْقَبُولُ فِیْ الْاَرْضِ، وَاِذَا اَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَیَقُولُ: اِنِّی اُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضْهٗ، قَالَ: فَیُبْغِضُهٗ جِبْرِیلُ ثُمَّ یُنَادِی فِیْ اَهْلِ السَّمَآءِ اِنَّ اللّٰهَ یُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضُوهٗ، قَالَ: فَیُبْغِضُونَہٗ ثُمَّ تُوضَعُ لَهٗ الْبَغْضَآءُ فِیْ الْاَرْضِ)) (صحیح مسلم، رقم : 157۔) ’’بے شک اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یقینا میں فلاں بندے سے محبت کرتاہوں، لہٰذا تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتا ہے، پھر آسمان پر آواز لگاتا ہے اورکہتا ہے بے شک اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں۔ فرمایا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اورکہتا ہے کہ بے شک میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں، تو بھی اس سے بغض رکھ، فرمایا: جبریل علیہ السلام بھی اس سے بغض رکھتا ہے، پھر آسمان والوں میں آواز لگاتا ہے کہ بے شک اللہ فلاں سے بغض رکھتا ہے، تم بھی اس سے بغض رکھو،فرمایا کہ پھر وہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے بغض زمین میں رکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
تخریج : صحیح مسلم : 16؍189)166(،مسند احمد : 5؍156، 157، 168، سنن ابن ماجة:4225، صحیح ابن حبان : 1؍353۔ (1) .... پس منظر: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جاتا ہے، ایسے عمل سے لوگ خوش ہوتے ہیں اور عمل کرنے والے مرد صالح سے محبت کرتے ہیں، آیا یہ اخلاص کے منافی تو نہیں ؟ نیز اس سے ریاکاری تو لازم نہیں آتی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ یہ جلدی آنے والی خوشخبری ہے، جس کی بدولت بندے کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے نزدیک بھی اسے محبوب و مقبول بنا دیا ہے، لہٰذااسے اخلاص کے برعکس یا ریاکاری تصور نہیں کرنا چاہیے۔ (2) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’قال العلماء: هذہ البشریٰ المعجلة له بالخیر، وهی دلیل البشریٰ المؤخرة الی الآخرة بقوله: ’’بشر لٰکم الیوم جنات الآیة، وهذہ البشریٰ المعجلة دلیل علی رضا اللّٰه تعالیٰ عنه و محبته له فیحبه إلی الخلق کما سبق فی الحدیث ثم یوضع له القبول فی الارٔض۔ هذا کله إذا حمدہ الناس من غیر تعرض منه لحمدهم والا فالتعرض مذموم۔‘‘( شرح صحیح مسلم : 2؍332۔) ’’یعنی علماء نے کہا کہ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ خیر کی خوش خبری جو اسے جلد دی گئی ہے، بعد میں آخرت کو ملنے والی خوش خبری کی دلیل ہے، جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے، تمہارے لیے ہی آج باغات کی خوش خبری ہے۔‘‘ اور یہ جلد حاصل ہونے والی خوش خبری اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور اس بندے سے محبت کی دلیل ہے کہ اسی وجہ سے اس نے اسے مخلوق کا محبوب بنا دیا ہے، جیسا کہ پہلے ایک حدیث میں گزر چکا پھر اس کے لیے اہل زمین کے دلوں میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہے کہ جب لوگ اس کی تعریف کریں اوریہ قطعاً ان کی تعریف کے درپے نہ ہو ورنہ اس کا درپے ہونا قابل مذمت ہے۔‘‘ (3) .... مذکورہ بالا حدیث کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہو رہی ہے اور اس کی طرف امام نووی رحمہ اللہ نے اپنے کلام میں اشارہ بھی فرمایا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِنَّ اللّٰهَ اِذَا اَحَبَّ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَقَالَ: اِنِّی اُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبَّهٗ، قَالَ: فَیُحِبُّهٗ جِبْرِیلُ، ثُمَّ یُنَادِی فِیْ السَّمَاءِ فَیَقُولُ: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ فُلَانًا فَاَحِبُّوہٗ، فَیُحِبُّهٗ اَهْلُ السَّمَآءِ، قَالَ: ثُمَّ یُوضَعُ لَهٗ الْقَبُولُ فِیْ الْاَرْضِ، وَاِذَا اَبْغَضَ عَبْدًا دَعَا جِبْرِیلَ فَیَقُولُ: اِنِّی اُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضْهٗ، قَالَ: فَیُبْغِضُهٗ جِبْرِیلُ ثُمَّ یُنَادِی فِیْ اَهْلِ السَّمَآءِ اِنَّ اللّٰهَ یُبْغِضُ فُلَانًا فَاَبْغِضُوهٗ، قَالَ: فَیُبْغِضُونَہٗ ثُمَّ تُوضَعُ لَهٗ الْبَغْضَآءُ فِیْ الْاَرْضِ)) (صحیح مسلم، رقم : 157۔) ’’بے شک اللہ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے، تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یقینا میں فلاں بندے سے محبت کرتاہوں، لہٰذا تو بھی اس سے محبت کر، تو جبریل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتا ہے، پھر آسمان پر آواز لگاتا ہے اورکہتا ہے بے شک اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے اس سے محبت کرتے ہیں۔ فرمایا: پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے اور جب اللہ کسی بندے سے بغض رکھتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو بلاتا ہے اورکہتا ہے کہ بے شک میں فلاں سے بغض رکھتا ہوں، تو بھی اس سے بغض رکھ، فرمایا: جبریل علیہ السلام بھی اس سے بغض رکھتا ہے، پھر آسمان والوں میں آواز لگاتا ہے کہ بے شک اللہ فلاں سے بغض رکھتا ہے، تم بھی اس سے بغض رکھو،فرمایا کہ پھر وہ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں، پھر اس کے لیے بغض زمین میں رکھ دیا جاتا ہے۔‘‘