كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، أَنا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنِ الْحَسَنِ، وَقَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((يُؤْتَى بِالْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ بَذَجٌ فَيُوقَفُ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ، فَيَقُولُ اللَّهُ: أَعْطَيْتُكَ وَخَوَّلْتُكَ وَأَنْعَمْتُ عَلَيْكَ فَمَا صَنَعْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ، فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، فَيَقُولُ لَهُ: أَرِنِي مَا قَدَّمْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، جَمَعْتُهُ وَثَمَّرْتُهُ وَتَرَكْتُهُ أَكْثَرَ مَا كَانَ، فَارْجِعْنِي آتِكَ بِهِ كُلِّهِ، فَإِذَا كَانَ عَبْدٌ لَمْ يُقَدِّمْ خَيْرًا فَيَمْضِي بِهِ إِلَى النَّارِ))
کتاب
باب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت والے دن بندے کو لایا جائے گا، گویا کہ وہ ایک بکری کا بچہ ہے، اسے اللہ کے سامنے کھڑا کرد یا جائے گا، اللہ فرمائے گا، میں نے تجھے دیا، میں نے تجھے نوازا اور میں نے تجھ پر احسان کیا تو نے کیا کیا؟ وہ کہے گا: یا رب! میں نے اسے جمع کیا،ا سے بڑھایا اور جتنا (مال)تھا اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا، تو مجھے لوٹا دے، میں تیرے پاس وہ سارا لے آتا ہوں، وہ اس سے کہے گا: مجھے دکھا جو تو نے آگے بھیجا، تو وہ کہے گا کہ میں نے اسے جمع کیا، اسے بڑھایا اور جتنا تھا اس سے بڑا چھوڑ آیا، تو مجھے لوٹا، میں تیرے پاس وہ سارا لے کر آتا ہوں، اچانک اس بندے نے کوئی نیکی آگے نہیں بھیجی ہوگی تو اسے آگ کی طرف چلا دیا جائے گا۔‘‘
تشریح :
(1).... اس بندے سے مراد کافر ہے کیونکہ قرآن نے کفار کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ قیامت والے دن دنیا میں واپس آنے کی درخواست کریں گے:
﴿ رَبِّ ارْجِعُونِ () لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ﴾ (المؤمنون : 99، 100)
(2) .... اس معنی کی حدیث سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت والے دن بندے کو بلایا جائے گا، وہ اس سے کہے گا: کیا میں نے تیرے لیے، کان، آنکھ، مال اور اولاد نہ بنائی تھی اور تیرے لیے چوپائے اور کھیتی مسخر نہ کی تھی اور میں نے تجھے چھوڑا، تو سردار بنتا تھا اور چوتھا حصہ وصول کرتا تھا (دور جاہلیت میں بادشاہ مال غنیمت کا چوتھا مخصوص حصہ لیتا تھا، اسے مرباع کہا جاتا تھا)تو کیا تجھے خیال تھا کہ یقینا تو اپنے اس دن میں مجھ سے ملاقات کرنے والا ہے؟ وہ کہے گا کہ نہیں، تو وہ اس سے کہے گا کہ آج کے دن میں تجھے بھول جاؤں گا جس طرح تو نے مجھے بھلا دیا۔( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 3؍295۔)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے اور ’’میں آج تجھے بھول جاؤں گا۔‘‘ کا مطلب ہے کہ میں تجھے عذاب میں چھوڑ دوں گا، بعض اہل علم نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔
﴿ الْيَوْمَ نَنْسَاكُمْ ﴾ (الجاثیہ : 34)’’آج کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔‘‘
یعنی آج کے دن انہیں عذاب میں ہی چھوڑ دیں گے۔( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 3؍295۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 357، جامع ترمذی، کتاب صفة القیامة : 2427۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(1).... اس بندے سے مراد کافر ہے کیونکہ قرآن نے کفار کے متعلق بیان کیا ہے کہ وہ قیامت والے دن دنیا میں واپس آنے کی درخواست کریں گے:
﴿ رَبِّ ارْجِعُونِ () لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ﴾ (المؤمنون : 99، 100)
(2) .... اس معنی کی حدیث سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت والے دن بندے کو بلایا جائے گا، وہ اس سے کہے گا: کیا میں نے تیرے لیے، کان، آنکھ، مال اور اولاد نہ بنائی تھی اور تیرے لیے چوپائے اور کھیتی مسخر نہ کی تھی اور میں نے تجھے چھوڑا، تو سردار بنتا تھا اور چوتھا حصہ وصول کرتا تھا (دور جاہلیت میں بادشاہ مال غنیمت کا چوتھا مخصوص حصہ لیتا تھا، اسے مرباع کہا جاتا تھا)تو کیا تجھے خیال تھا کہ یقینا تو اپنے اس دن میں مجھ سے ملاقات کرنے والا ہے؟ وہ کہے گا کہ نہیں، تو وہ اس سے کہے گا کہ آج کے دن میں تجھے بھول جاؤں گا جس طرح تو نے مجھے بھلا دیا۔( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 3؍295۔)
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے اور ’’میں آج تجھے بھول جاؤں گا۔‘‘ کا مطلب ہے کہ میں تجھے عذاب میں چھوڑ دوں گا، بعض اہل علم نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے۔
﴿ الْيَوْمَ نَنْسَاكُمْ ﴾ (الجاثیہ : 34)’’آج کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔‘‘
یعنی آج کے دن انہیں عذاب میں ہی چھوڑ دیں گے۔( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 3؍295۔)