كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنِي جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ))
کتاب
باب
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔‘‘
تشریح :
(1).... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے تعارض نہیں ہے، جس میں ہے کہ ’’قیامت والے دن سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا۔ وہ اس کی نماز ہے۔‘‘ کیوں کہ پہلی حدیث کا تعلق معاملات کے ساتھ ہے اور دوسری کا خالق کی عبادت کے ساتھ۔ (فتح الباري: 11؍482۔)
(2) .... ابتدا زیادہ اہم کام سے ہوتی ہے اور گناہ کا بڑا ہونا،اس کی مضرت کے بڑا ہونے، مصلحت کے فقدان اور انسانی اقدار کے قتل سے، ہوتا ہے۔ قتل کی سنگینی کے بارے کئی ایک آیات اور احادیث ہیں : فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ﴾ (النساء : 93)
’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہو گیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے، جب تک حرام خون کو نہ پہنچے۔‘‘ (صحیح بخاري: 6862۔)
یعنی قتل کی وجہ سے اس کا دین اس پر تنگ ہو جاتا ہے۔
(3) .... سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : بے شک کاموں کی وہ ہلاکتیں کہ جن سے نکلنے کا اپنے آپ کو ان میں واقع کرنے والے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے، حرام خون کو، بغیر اس کے حلال ہونے کے، بہانہ ہے۔( صحیح بخاري: 6863۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 478، صحیح بخاري: کتاب الدیات : 12؍159، صحیح مسلم، کتاب القسامة، رقم : 28، سنن ترمذي، کتاب الدیات، باب الحکم فی الدعاء : 4؍653، 654، سنن ابن ماجة: 2615، 2617، مسند احمد : 1؍388، 441، 442، مسند الشهاب، قضاعي بحوالہ اللباب شرح الشهاب : 38، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 7؍87، 88۔
(1).... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث سے تعارض نہیں ہے، جس میں ہے کہ ’’قیامت والے دن سب سے پہلے بندے سے جس چیز کا حساب لیا جائے گا۔ وہ اس کی نماز ہے۔‘‘ کیوں کہ پہلی حدیث کا تعلق معاملات کے ساتھ ہے اور دوسری کا خالق کی عبادت کے ساتھ۔ (فتح الباري: 11؍482۔)
(2) .... ابتدا زیادہ اہم کام سے ہوتی ہے اور گناہ کا بڑا ہونا،اس کی مضرت کے بڑا ہونے، مصلحت کے فقدان اور انسانی اقدار کے قتل سے، ہوتا ہے۔ قتل کی سنگینی کے بارے کئی ایک آیات اور احادیث ہیں : فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا ﴾ (النساء : 93)
’’اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہو گیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن ہمیشہ اپنے دین کی وسعت میں رہتا ہے، جب تک حرام خون کو نہ پہنچے۔‘‘ (صحیح بخاري: 6862۔)
یعنی قتل کی وجہ سے اس کا دین اس پر تنگ ہو جاتا ہے۔
(3) .... سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : بے شک کاموں کی وہ ہلاکتیں کہ جن سے نکلنے کا اپنے آپ کو ان میں واقع کرنے والے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے، حرام خون کو، بغیر اس کے حلال ہونے کے، بہانہ ہے۔( صحیح بخاري: 6863۔)