مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 104

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي الْمِقْدَادُ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ((إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أُدْنِيَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْعِبَادِ حَتَّى تَكُونَ قَيْدَ مِيلٍ أَوِ اثْنَيْنِ))، قَالَ سُلَيْمٌ: لَا أَدْرِي أَيُّ الْمِيلَيْنِ يَعْنِي: أَمَسَافَةُ الْأَرْضِ أَوِ الْمِيلُ الَّذِي تُكْتَحَلُ بِهِ الْعَيْنُ، قَالَ: ((فَتَصْهَرُهُمُ الشَّمْسُ فَيَكُونُونَ فِي الْعَرَقِ بِقَدْرِ أَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ الْعَرَقُ إِلَى عَقِبَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَأْخُذُهُ إِلَى حَقْوَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا))، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى فِيهِ يَقُولُ: ((يُلْجِمُهُ إِلْجَامًا))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 104

کتاب باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جب قیامت کا دن ہوگا تو سورج بندوں کے قریب کر دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ ایک یا دو میل کے بقدر ہوجائے گا۔ سلیم (راوی)نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ دو میلوں میں سے کون سا مراد ہے، آیا زمین کی مسافت والا یا وہ سرمچو جس کے ساتھ آنکھ میں سرمہ ڈالا جاتا ہے۔ فرمایا: سورج انہیں پگھلا رہا ہوگا، تو وہ پسینے میں اپنے اعمال کے مطابق ہوں گے، بعض ان میں سے وہ ہے جسے پسینہ اس کی ایڑھیوں تک پکڑے ہوگا اور بعض وہ ہے جسے اس کے گھٹنوں تک پکڑے ہوگا اور بعض وہ ہے جسے اس کی کوخوں (کمر)تک پکڑے ہوگا اور بعض وہ ہے جسے لگام پہنائے ہوگا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے منہ کی طرف اشارہ کر رہے اور فرما رہے تھے: ’’اسے لگام پہنائے ہوگا۔‘‘
تشریح : (1).... شیخ عبد الحق ’’اللمعات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ فرسخ (مسافت)والا میل مراد ہے اور یہ انہیں عذاب دینے اور ایذا رسانی کے لیے کافی ہے اور رہا سرمہ ڈالنے والا تو وہ معنی مراد لینا بعید ہے۔ (تحفة الأحوذي : 3؍292۔) (2) .... ابن ملک نے کہا کہ اگر آپ یہ کہیں کہ جب پسینہ سمندر کی طرح ہوگا، بعض کو لگام پہنا رہا ہوگا تو دوسرے آدمی کے ٹخنے جتنا کیسے ہوگا؟ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ بعض کے پاؤں کے نیچے زمین میں بلندی پیدا فرما دے یا اللہ تعالیٰ ہر انسان کا پسینہ اس کے عمل کے مطابق روک دے گا۔ دوسرے کی طرف اس میں سے کوئی چیز پہنچ نہیں پائے گی، جس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا تھا۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کہا کہ دوسرا قول ہی معتمد ہے، کیوں کہ آخرت کا سارامعاملہ خرق عادت ہے، کیا تو دیکھتا نہیں کہ ایک قبر میں دو شخص ہوں، ایک کو عذاب ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا نعمت میں ہوتا ہے اور ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کے بارے میں جانتا نہیں ہوتا۔( تحفة الأحوذي : 3؍292۔) (3) .... جن کا پسینہ منہ تک ہوگا اورلگام پہنائے ہوئے ہوگا وہ ان کے لیے بات کرنے سے بھی مانع اور رکاوٹ بن جائے گا۔( تحفة الأحوذي : 3؍292۔)
تخریج : جامع ترمذي: کتاب صفة القیامة : 2 باب منه : 2421، صحیح بخاري: 6532، صحیح مسلم : 2864۔ (1).... شیخ عبد الحق ’’اللمعات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ فرسخ (مسافت)والا میل مراد ہے اور یہ انہیں عذاب دینے اور ایذا رسانی کے لیے کافی ہے اور رہا سرمہ ڈالنے والا تو وہ معنی مراد لینا بعید ہے۔ (تحفة الأحوذي : 3؍292۔) (2) .... ابن ملک نے کہا کہ اگر آپ یہ کہیں کہ جب پسینہ سمندر کی طرح ہوگا، بعض کو لگام پہنا رہا ہوگا تو دوسرے آدمی کے ٹخنے جتنا کیسے ہوگا؟ اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ بعض کے پاؤں کے نیچے زمین میں بلندی پیدا فرما دے یا اللہ تعالیٰ ہر انسان کا پسینہ اس کے عمل کے مطابق روک دے گا۔ دوسرے کی طرف اس میں سے کوئی چیز پہنچ نہیں پائے گی، جس طرح کہ موسیٰ علیہ السلام کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا تھا۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کہا کہ دوسرا قول ہی معتمد ہے، کیوں کہ آخرت کا سارامعاملہ خرق عادت ہے، کیا تو دیکھتا نہیں کہ ایک قبر میں دو شخص ہوں، ایک کو عذاب ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا نعمت میں ہوتا ہے اور ان دونوں میں سے کوئی دوسرے کے بارے میں جانتا نہیں ہوتا۔( تحفة الأحوذي : 3؍292۔) (3) .... جن کا پسینہ منہ تک ہوگا اورلگام پہنائے ہوئے ہوگا وہ ان کے لیے بات کرنے سے بھی مانع اور رکاوٹ بن جائے گا۔( تحفة الأحوذي : 3؍292۔)