كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ , حَدَّثَنِي أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ طَلْحَةُ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ [ص:8] لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟ قَالَ: ((إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا))
کتاب
باب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میرے دو ہمسائے ہیں، میں ان دونوں میں سے ہدیہ کسے دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں میں سے جس کا دروازہ تیرے زیادہ قریب ہے۔
تشریح :
عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور شریعت نے بھی یہی ضابطہ بیان کیا ہے کہ قریبی رشتہ دار اور تعلق، دور کے رشتے اور تعلق کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرمایا۔ لیکن اگر دونوں ہمسائیوں میں سے ایک قریبی رشتہ دار بھی ہو تو اس کا حق زیادہ ہوگا، چاہے دروازہ دور ہو۔ واللہ اعلم
تخریج :
صحیح بخاري، حدیث : 2595، الزهد، ابن مبارك : 251، تاریخ بغداد: 7؍275۔
عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے اور شریعت نے بھی یہی ضابطہ بیان کیا ہے کہ قریبی رشتہ دار اور تعلق، دور کے رشتے اور تعلق کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسی اصول کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ فرمایا۔ لیکن اگر دونوں ہمسائیوں میں سے ایک قریبی رشتہ دار بھی ہو تو اس کا حق زیادہ ہوگا، چاہے دروازہ دور ہو۔ واللہ اعلم