مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 9

كِتَابُ حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، وَحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَينَهُ وَبَينَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: سَعْدٌ أَيْ أَخِي إِنِّي أَكْثَرُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَالًا فَانْظُرْ شَطْرَ مَالِي فَخُذْهُ، وَعِنْدِي امْرَأَتَانِ فَانْظُرْ أَيُّهُمَا أَعْجَبَ لَكَ حَتَّى أُطَلِّقُهَا لَكَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: بَارِكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكِ وَمَالِكِ، دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ، فَدَلُّوهُ عَلَى السُّوقِ، فَذَهَبَ وَاشْتَرَى وَبَاعَ فَرَبِحَ فَجَاءَ بِشَيْءٍ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ، فَلَبِثَ مَا شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَلْبَثَ، فَجَاءَ عَلَيْهِ رَدْغُ زَعْفَرَانٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْيَمْ؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَقَالَ: مَا أَصْدَقْتَهَا؟ قَالَ: وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ: أَوَلَمْ وَلَوْ بِشَاةٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَلَقَدْ رَأَيْتَنِي بَعْدَ ذَلِكَ لَوْ رَفَعْتُ حَجَرًا لَظَنَنْتُ أَنِّي سَأَجِدُ تَحْتَهُ ذَهَبًا وَفِضَّةً

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 9

کتاب سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہا کہ سیّدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کردیا، انہیں سیّدنا سعد الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بھائی! میں مدینے والوں میں سے زیادہ مال والا ہوں۔ میرے مال سے آدھا مال لے لیں اور میرے پاس دو بیویاں ہیں جو آپ کو زیادہ پسند لگتی ہے میں اسے آپ کے لیے طلاق دیتا ہوں (وہ عدت گزارلے تو آپ اس سے شادی کرلیں ) عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، آپ میری منڈی کی طرف راہنمائی کردیں، تو انہوں نے منڈی کا راستہ بتادیا، آپ رضی اللہ عنہ منڈی میں گئے، خرید و فروخت کی اور کچھ پنیر اور گھی کما کر لے آئے۔ آپ اس طرح اللہ نے جتنا چاہا کام کرتے رہے۔ (ایک دفعہ) آپ رضی اللہ عنہ آئے اور آپ پرحجلہ عروسی کے نشانات تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا، یہ کیا ہے، انہوں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک عورت کے ساتھ شادی کرلی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے حق کتنا مہر ادا کیا ہے؟ کہا: کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو، تو سیّدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد آپ نے مجھے دیکھا، اگر میں پتھر اٹھاتا تو مجھے گمان ہوتا کہ اس کے نیچے سے میں نے سونا اور چاندی اٹھانا ہے۔
تشریح : مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے خود کوشش کرنے سے کاروبار میں اللہ ذوالجلال برکت ڈال دیتا ہے۔ سیّدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے مال میں اتنی برکتیں ہوئیں کہ پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔ اس کے باوجود وفات کے وقت اتنا مال چھوڑا کہ چار بیویوں میں سے ہر ایک کے حصہ میں تقریباً ۸۳ ہزار دینار آئے، اولاد کا حصہ اس کے علاوہ تھا، اور جو مویشی چھوڑے ان میں سے ۳ ہزار بکریاں، ایک ہزار اونٹ اور ایک سو گھوڑے تھے۔
تخریج : مسند أحمد : ۳؍۲۷۱، سنن ابي داود، کتاب النکاح، باب قلم المیر، رقم : ۲۱۰۹۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے خود کوشش کرنے سے کاروبار میں اللہ ذوالجلال برکت ڈال دیتا ہے۔ سیّدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے مال میں اتنی برکتیں ہوئیں کہ پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہے۔ اس کے باوجود وفات کے وقت اتنا مال چھوڑا کہ چار بیویوں میں سے ہر ایک کے حصہ میں تقریباً ۸۳ ہزار دینار آئے، اولاد کا حصہ اس کے علاوہ تھا، اور جو مویشی چھوڑے ان میں سے ۳ ہزار بکریاں، ایک ہزار اونٹ اور ایک سو گھوڑے تھے۔