مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 7

كِتَابُ حَدِيثُ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو حُذَيْفَةَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ وَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَينَهُ وَبَينَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، وَكَانَتْ عِنْدَ الْأَنْصَارِيِّ امْرَأَتَيْنِ. فَعَرَضَ عَلَيْهِ أَنْ يُنَاصِفَهُ أَهْلَهَ وَمَالَهَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: بَارِكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ، فَأَتَى السُّوقَ فَرَبِحَ شَيْئًا مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَضَرٌّ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ: ((مَهْيَمْ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ؟)) قَالَ: تَزَوَّجْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: مَا سُقْتَ إِلَيْهَا؟ قَالَ: وَزْنُ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: ((أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ))

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 7

کتاب سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے حدیث سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان اور سعد بن الربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس دو بیویاں تھیں، انہوں نے انہیں پیشکش کی کہ وہ ان کے گھر بار اور مال سے آدھا حصہ بانٹ لیں (یعنی ایک بیوی اور آدھا مال) لے لیں۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و مال میں برکت دے، مجھے بازار کی راہ دکھا دیں، اگلے دن وہ بازار گئے اور پنیر اور گھی میں کچھ نفع کمایا، پھر ایک دن انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ان پر حجلۂ عروسی کے نشانات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے عبد الرحمن کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے کہا، اللہ کے رسول! میں نے انصار کی ایک عورت کے ساتھ شادی کرلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اسے کتنا مہر پیش کیا؟ انہوں نے کہا: کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔
تشریح : حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے: 1۔....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ انسانی کا ایک نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ کل نوے آدمی تھے، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار۔ بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبی قرابت داروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ وراثت کا یہ حکم جنگ بدر تک قائم رہا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ: ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ﴾(الاحزاب : ۳۳؍۶) ’’نسبی قرابت دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ (یعنی وراثت میں ) تو انصار و مہاجرین میں باہمی توارث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارہے کا عہد باقی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے۔ یوں بھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت، وطنی اخوت اور رشتہ و قرابت داری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے۔ جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔( زاد المعاد : ۲؍۵۶۔) اس بھائی چارے کا مقصود - جیسا کہ محمد غزالی نے لکھا ہے- یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں۔ حمیت و غیرت جو کچھ ہو و ہ اسلام کے لیے ہو۔ نسل، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں۔ بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقویٰ کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھائی چارے کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا تھا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد و پیمان قرار دیا تھا جو خون اور مال سے مربوط تھا۔ یہ خالی خولی سلامی اور مبارکباد تھی کہ زبان پر روانی کے ساتھ جاری رہے مگر نتیجہ کچھ نہ ہو بلکہ اس بھائی کے ساتھ ایثار و غمگساری اور موانست کے جذبات بھی مخلوط تھے اور اسی لیے اُس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔( فقه السیرة، ص : ۱۴۰، ۱۴۱۔) چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’انصار میں سب سے زیادہ مال دار ہوں۔ آپ میرا مال دو حصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں ) اور میری دو بیویاں ہیں۔ آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو مجھے بتادیں میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔‘‘ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے۔ آپ لوگوں کا بازار کہاں ہے؟ لوگوں نے انہیں بنوقینقاع کا بازار بتلادیا۔ وہ وآپس آئے تو ان کے پاس کچھ فاضل پنیر اور گھی تھا۔ اس کے بعد وہ روزانہ جاتے رہے۔ پھر ایک دن آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے شادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورت کو مہر کتنا دیا ہے؟ بولے ایک نواۃ (گٹھلی) کے ہم وزن (یعنی کوئی سوا تولہ) سونا۔( صحیح بخاري، باب اخاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بین المهاجرین والانصار ۱؍۵۵۳۔) اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔ انصار نے کہا، تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم بات سنی اور مانی۔( أیضاً، باب اذا قال اکفنی مؤنة النخل : ۱؍۳۱۲۔) اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز و اکرام کیا تھا اور کس قدر محبت، خلوص، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم و نوازش کی کتنی قدر کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمر سیدھی کرسکتے تھے۔ اور حق یہ ہے کہ یہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو در پیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔ 2۔....عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں اہل اسلام تجارت کیا کرتے تھے اور ان کا بہترین پیشہ تجارت ہی تھا۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو قریشی ہیں ہجرت فرما کر جب مدینہ آئے تو انہوں نے غور و فکر کے بعد اپنے قدیمی پیشہ تجارت ہی کو یہاں بھی اپنایا۔ اور اپنے اسلامی بھائی سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی پیش کش کی تھی بازار کا راستہ لیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آپ نے تیل اور گھی کا کاروبار شروع کیا، اللہ نے آپ کو تھوڑی ہی مدت میں ایسی کشادگی عطا فرمائی کہ آپ نے ایک انصاری عورت سے اپنا عقد بھی کرلیا۔ 3۔....مردوں کو رنگ دار خوشبو لگانا جائز نہیں ہے اور سیّدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ پر جملہ عروسی کے جو نشانات تھے۔وہ ان کو ان کی بیوی سے لگے تھے، یا پھر زرد رنگ شاید کسی عطر کا ہو یا کسی ایسی مخلوط چیز کا جس میں کوئی زر قسم کی چیز بھی شامل ہو اور آپ نے اس سے غسل وغیرہ کیا ہو۔ 4۔....نکاح میں حق مہر ضروری ہے حق مہر اتنا ہونا چاہیے جتنا خاوند آسانی سے دے سکے اتنا کم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جس کی خاوند کے ہاں کوئی وقعت نہ ہو۔ انہوں نے مہر میں اپنی بیوی کو نواۃ من ذہب دی۔ نواۃ سے مراد کھجور کی گٹھلی کے برابر وزن ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ وزن نواۃ پانچ درہم ہیں جو سونے کا تقریباً ڈیڑھ تولہ بنتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کا موقف ہے پانچ درہم سونے کے یہی قول صحیح ہے۔ 5۔....مذکورہ روایت سے ولیمہ کرنے کی تاکید بھی ثابت ہوئی کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ کم از کم ایک بکری کا ولیمہ کریں۔ اہل علم نے ولیمہ میں بکرے یا بکری کے ذبیحہ کو مستحب گردانا ہے۔ ویسے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت کھجور اور تھوڑے سے ستو کے ساتھ ولیمہ کیا۔( سنن ابي داود، رقم : ۳۷۴۴، سنن ترمذي، رقم : ۱۰۹۵۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔)
تخریج : صحیح بخاري، کتاب البیوع، باب ما جاء فی قول اللّٰه تعالٰی، رقم : ۲۰۴۸، سنن ترمذي، ابواب البر والصلة، باب مواساة الاخ، رقم : ۱۹۳۳۔ مسند احمد : ۳؍۱۹۰، معجم کبیر طبراني: ۶؍۲۶، رقم : ۵۴۰۳، معجم طبراني اوسط، رقم : ۱۶۴۱، مصنف عبدالرزاق، رقم : ۱۰۴۱۱۔ حدیث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے: 1۔....رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریخ انسانی کا ایک نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کا عمل کا نام دیا جاتا ہے۔ حافظ ابن قیم لکھتے ہیں : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔ کل نوے آدمی تھے، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار۔ بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبی قرابت داروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ وراثت کا یہ حکم جنگ بدر تک قائم رہا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ: ﴿ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ﴾(الاحزاب : ۳۳؍۶) ’’نسبی قرابت دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘ (یعنی وراثت میں ) تو انصار و مہاجرین میں باہمی توارث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارہے کا عہد باقی رہا۔ کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے۔ یوں بھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت، وطنی اخوت اور رشتہ و قرابت داری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے۔ جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔( زاد المعاد : ۲؍۵۶۔) اس بھائی چارے کا مقصود - جیسا کہ محمد غزالی نے لکھا ہے- یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں۔ حمیت و غیرت جو کچھ ہو و ہ اسلام کے لیے ہو۔ نسل، رنگ اور وطن کے امتیازات مٹ جائیں۔ بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقویٰ کے علاوہ کچھ اور نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بھائی چارے کو محض کھوکھلے الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا تھا بلکہ اسے ایک ایسا نافذ العمل عہد و پیمان قرار دیا تھا جو خون اور مال سے مربوط تھا۔ یہ خالی خولی سلامی اور مبارکباد تھی کہ زبان پر روانی کے ساتھ جاری رہے مگر نتیجہ کچھ نہ ہو بلکہ اس بھائی کے ساتھ ایثار و غمگساری اور موانست کے جذبات بھی مخلوط تھے اور اسی لیے اُس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا۔( فقه السیرة، ص : ۱۴۰، ۱۴۱۔) چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’انصار میں سب سے زیادہ مال دار ہوں۔ آپ میرا مال دو حصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں ) اور میری دو بیویاں ہیں۔ آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو مجھے بتادیں میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں۔‘‘ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے۔ آپ لوگوں کا بازار کہاں ہے؟ لوگوں نے انہیں بنوقینقاع کا بازار بتلادیا۔ وہ وآپس آئے تو ان کے پاس کچھ فاضل پنیر اور گھی تھا۔ اس کے بعد وہ روزانہ جاتے رہے۔ پھر ایک دن آئے تو ان پر زردی کا اثر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے شادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورت کو مہر کتنا دیا ہے؟ بولے ایک نواۃ (گٹھلی) کے ہم وزن (یعنی کوئی سوا تولہ) سونا۔( صحیح بخاري، باب اخاء النبی صلي اللّٰه عليه وسلم بین المهاجرین والانصار ۱؍۵۵۳۔) اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں۔ انصار نے کہا، تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم بات سنی اور مانی۔( أیضاً، باب اذا قال اکفنی مؤنة النخل : ۱؍۳۱۲۔) اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز و اکرام کیا تھا اور کس قدر محبت، خلوص، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم و نوازش کی کتنی قدر کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اس کا کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمر سیدھی کرسکتے تھے۔ اور حق یہ ہے کہ یہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو در پیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا۔ 2۔....عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں اہل اسلام تجارت کیا کرتے تھے اور ان کا بہترین پیشہ تجارت ہی تھا۔ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو قریشی ہیں ہجرت فرما کر جب مدینہ آئے تو انہوں نے غور و فکر کے بعد اپنے قدیمی پیشہ تجارت ہی کو یہاں بھی اپنایا۔ اور اپنے اسلامی بھائی سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی پیش کش کی تھی بازار کا راستہ لیا اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آپ نے تیل اور گھی کا کاروبار شروع کیا، اللہ نے آپ کو تھوڑی ہی مدت میں ایسی کشادگی عطا فرمائی کہ آپ نے ایک انصاری عورت سے اپنا عقد بھی کرلیا۔ 3۔....مردوں کو رنگ دار خوشبو لگانا جائز نہیں ہے اور سیّدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ پر جملہ عروسی کے جو نشانات تھے۔وہ ان کو ان کی بیوی سے لگے تھے، یا پھر زرد رنگ شاید کسی عطر کا ہو یا کسی ایسی مخلوط چیز کا جس میں کوئی زر قسم کی چیز بھی شامل ہو اور آپ نے اس سے غسل وغیرہ کیا ہو۔ 4۔....نکاح میں حق مہر ضروری ہے حق مہر اتنا ہونا چاہیے جتنا خاوند آسانی سے دے سکے اتنا کم بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جس کی خاوند کے ہاں کوئی وقعت نہ ہو۔ انہوں نے مہر میں اپنی بیوی کو نواۃ من ذہب دی۔ نواۃ سے مراد کھجور کی گٹھلی کے برابر وزن ہے۔ اور بعض کا موقف ہے کہ وزن نواۃ پانچ درہم ہیں جو سونے کا تقریباً ڈیڑھ تولہ بنتا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ کا موقف ہے پانچ درہم سونے کے یہی قول صحیح ہے۔ 5۔....مذکورہ روایت سے ولیمہ کرنے کی تاکید بھی ثابت ہوئی کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ کم از کم ایک بکری کا ولیمہ کریں۔ اہل علم نے ولیمہ میں بکرے یا بکری کے ذبیحہ کو مستحب گردانا ہے۔ ویسے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت کھجور اور تھوڑے سے ستو کے ساتھ ولیمہ کیا۔( سنن ابي داود، رقم : ۳۷۴۴، سنن ترمذي، رقم : ۱۰۹۵۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔)