مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 5

كِتَابُ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَصْبَهَانِيُّ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: سَمِعَ عُمَرُ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الْحُدِّيَّ، فَأَتَاهُ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ رَأَى عَلَيْهِ خُفَّانِ، فَقَالَ: وَالْخُفَّانِ مَعَ الْحُدِّيِّ، فَقَالَ: لَقَدْ لَبِسْتُهَا مَعَ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ، يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 5

کتاب عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ حدیث عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا، کہا کہ : سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو (سفر مکہ میں ) (اونٹوں کو حدی بآواز بلند ہانکتے) سنا، تو رات کے کسی حصے میں ان کے ساتھ مکہ داخل ہوئے، جب صبح ہوئی تو انہیں موزے پہنے دیکھا، تو فرمایا: آپ نے موزے پہن رکھے ہیں ؟ انہوں نے کہا: میں نے ایسی شخصیت کی موجودگی میں انہیں پہنا جو آپ سے بہتر تھے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
تشریح : پس منظر: مسند احمد اور ابویعلی کے الفاظ سے بات واضح ہوتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ،حضرت عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے کچھ لوگوں سمیت مکہ کی طرف سفر کرکے گئے رات کے حصے میں مکہ میں داخل ہوئے، بیت اللہ کا طواف کیا اور جب صبح کی روشنی ہوئی تو دیکھا کہ جناب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے موزے پہنے ہوئے تھے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعجب کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ یہ اتار دیں ورنہ لوگ بھی یہی عمل شروع کردیں گے۔ مسائل کا استنباط: 1۔....اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم رات میں بھی کسی وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ امام ترمذی اور نسائی نے حضرت محرش کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَیْلًا مِنَ الْجِعْرَانَةِ حِیْنَ مَشَی مُعْتَمِرًا، فَأَصْبَحَ بِالْجِعْرَانَةِ کَبَائتٍ۔))( سنن ترمذي، أبواب الحج، رقم : ۹۳۹، سنن نسائي، کتاب مناسك الحج، رقم : ۲۸۶۳۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’بے شک حضرت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے عمرے کی غرض سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی رات کو ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت جعرانہ میں ایسے تھے کہ گویا کہ آپ نے رات (وہیں ) بسر کی ہو۔‘‘ امام نسائی نے اس حدیث پر عنوان تحریر کیا ہے: ’’دُخُوْلُ مَکَّةَ لَیْلًا‘‘ ’’مکہ میں رات کو داخل ہونا۔‘‘ بعض علماء نے محرم کے لیے دن کو مکہ مکرمہ آنا مستحب قرار دیا ہے۔ اس بارے میں ان کی دلیل مسلم کی روایت ہے جو انہوں نے نافع سے نقل کی ہے: ((أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ لَا یَقْدَمُ مَکَّةَ إِلَّا بَاتَ بِذِی طَوًي حَتّٰی یُصْبِحَ وَیَغْتَسِلَ ثُمَّ یَدْخُلُ مَکَّةَ نَهَارًا وَیَذْکُرُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنَّهٗ فَعَلَهٗ)) (صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۲۲۷؍ ۱۲۵۹۔) ’’بے شک ابن عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ (مکرمہ) آتے، تو ذی طوی میں رات بسر کرتے، پھر صبح ہونے پر غسل کرتے، پھر دن کے وقت مکہ (مکرمہ) میں داخل ہوتے۔‘‘ امام نووی نے اس حدیث پر عنوان لکھا ہے: ’’بَابُ اسْتِحْبَابِ الْمَبِیتِ بِذِي طُوًی عِنْدَ إِرَادَةِ دُخُولِ مَکَّةَ وَالِاغْتِسَالِ لِدُخُولِهَا وَدُخُولِهَا نَهَارًا‘‘ ’’مکہ میں داخلے کے وقت ذی طوی میں رات بسر کرنے، اس میں داخلے کے لیے غسل کرنے اور اس میں دن کو داخل ہونے کے مستحب ہونے کے متعلق باب۔‘‘ الغرض محرم رات دن کے کسی وقت میں بھی مکہ مکرمہ آسکتا ہے۔ دونوں اوقات میں آنے کے جواز پر اتفاق ہے۔ 2۔....دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ جوتے میسر نہ آنے کی صورت میں محرم موزے پہن سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عمل کیا۔ امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ((مَنْ لَمْ یَجِدِ النَّعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسِ الْخُفَّیْنِ وَمَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَارًا فَلْیَلْبَسْ سَرَاوِیلَ لِلْمُحْرِمِ)) (صحیح بخاري، کتاب جزء الصید، باب لبس الخفین للمحرم إذا لم یجر نعلین، رقم : ۱۸۴۱، صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۳؍۱۱۷۷۔ الفاظ حدیث صحیح بخاری کے ہیں۔) ’’جس محرم کے پاس جوتے نہ ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس اس حدیث سے پتا چلا کہ جس محرم کو جوتے میسر نہ آئیں تو اسے موزے پہننے کی اجازت ہے۔ مزید برآں موزے پہننے والا محرم انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے: ((وَلْیَقُطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ.....الحدیث)) (صحیح بخاري، کتاب الحج، رقم : ۱۵۴۲، صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۲؍۱۱۷۷۔) امام ابن حبان نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: ’’ذِکْرُ الْبَیَانِ بِأَنَّ الْمُحْرِمَ إِنَّمَا أُبِیْحَ لَهُ فِيْ لَبْسِ الْخُفَّیْنِ عِنْدَ عَدْمِ النَّعْلَیْنِ، إِذَا قَطَعَهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ۔‘‘ (الإحسان فی تقریب صحیح حبان، کتاب الحج : ۹؍۹۴۔) ’’اس بات کا ذکر کہ محرم کے لیے جوتوں کے میسر نہ آنے پر موزے پہننے کی اجازت تب ہے، جب کہ وہ انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے۔‘‘ جمہور علمائے امت کی بھی یہی رائے ہے، البتہ امام احمد سے اس بارے میں دو روایات ہیں۔ مشہور روایت یہ ہے کہ موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں اور دوسری روایت جمہور علماء کی رائے کے موافق ہے۔( المفهم شرح صحیح مسلم : ۳؍۲۵۸۔) امام ابن قدامہ دونوں آراء اور ان کے دلائل نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں : ’’وَالْأَوْلٰی قَطْعُهُمَا عَمَلًا بِالْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ، وَخُرُوْجًا مِنَ الْخُلَافِ، وَأَخْذًا بِالْاِحْتِیَاطِ۔‘‘ (المغنی لابن قدامة : ۵؍۱۲۲۔) ’’صحیح حدیث کے مطابق عمل کرنے، اختلاف سے بچنے اور احتیاط کے پیش نظر (موزوں کا) کاٹنا بہتر ہے۔‘‘ مجبوری کی حالت میں موزے پہننے کی صورت میں محرم پر کوئی فدیہ نہیں، امام ابن حبان نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: ’’ذِکْرُ الْخَبَرِ الْمُدْحِضِ قَوْلَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ لَبْسَ الْمُحْرِمِ الْخُفَّیْنِ عِنْدَ عَدَمِ النَّعْلِ أَوِ السَّرَاوِیْلِ عِنْدَ عَدَمِ الْإِزَارِ، عَلَیْهِ دَمٌ۔‘‘ (الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، رقم : ۹؍۹۸۔) ’’اس شخص کے قول کی تردید کرنے والی حدیث، جو یہ سمجھتا ہے کہ جوتا نہ ہونے پر موزے اور تہبند نہ ہونے پر شلوار پہننے والے محرم پر دَم ہے۔‘‘
تخریج : مسند احمد : ۱؍۱۹۲، رقم : ۱۶۶۸، مجمع الزوائد : ۳؍۴۹۹، مسند أبویعلي، رقم : ۸۴۲ و ۸۴۳۔ پس منظر: مسند احمد اور ابویعلی کے الفاظ سے بات واضح ہوتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ،حضرت عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے کچھ لوگوں سمیت مکہ کی طرف سفر کرکے گئے رات کے حصے میں مکہ میں داخل ہوئے، بیت اللہ کا طواف کیا اور جب صبح کی روشنی ہوئی تو دیکھا کہ جناب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے موزے پہنے ہوئے تھے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعجب کا اظہار کیا اور فرمایا کہ آپ یہ اتار دیں ورنہ لوگ بھی یہی عمل شروع کردیں گے۔ مسائل کا استنباط: 1۔....اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ محرم رات میں بھی کسی وقت مکہ مکرمہ میں داخل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ امام ترمذی اور نسائی نے حضرت محرش کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے: ((أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ لَیْلًا مِنَ الْجِعْرَانَةِ حِیْنَ مَشَی مُعْتَمِرًا، فَأَصْبَحَ بِالْجِعْرَانَةِ کَبَائتٍ۔))( سنن ترمذي، أبواب الحج، رقم : ۹۳۹، سنن نسائي، کتاب مناسك الحج، رقم : ۲۸۶۳۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔) ’’بے شک حضرت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے عمرے کی غرض سے روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی رات کو ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت جعرانہ میں ایسے تھے کہ گویا کہ آپ نے رات (وہیں ) بسر کی ہو۔‘‘ امام نسائی نے اس حدیث پر عنوان تحریر کیا ہے: ’’دُخُوْلُ مَکَّةَ لَیْلًا‘‘ ’’مکہ میں رات کو داخل ہونا۔‘‘ بعض علماء نے محرم کے لیے دن کو مکہ مکرمہ آنا مستحب قرار دیا ہے۔ اس بارے میں ان کی دلیل مسلم کی روایت ہے جو انہوں نے نافع سے نقل کی ہے: ((أَنَّ ابْنَ عُمَرَ کَانَ لَا یَقْدَمُ مَکَّةَ إِلَّا بَاتَ بِذِی طَوًي حَتّٰی یُصْبِحَ وَیَغْتَسِلَ ثُمَّ یَدْخُلُ مَکَّةَ نَهَارًا وَیَذْکُرُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَنَّهٗ فَعَلَهٗ)) (صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۲۲۷؍ ۱۲۵۹۔) ’’بے شک ابن عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ (مکرمہ) آتے، تو ذی طوی میں رات بسر کرتے، پھر صبح ہونے پر غسل کرتے، پھر دن کے وقت مکہ (مکرمہ) میں داخل ہوتے۔‘‘ امام نووی نے اس حدیث پر عنوان لکھا ہے: ’’بَابُ اسْتِحْبَابِ الْمَبِیتِ بِذِي طُوًی عِنْدَ إِرَادَةِ دُخُولِ مَکَّةَ وَالِاغْتِسَالِ لِدُخُولِهَا وَدُخُولِهَا نَهَارًا‘‘ ’’مکہ میں داخلے کے وقت ذی طوی میں رات بسر کرنے، اس میں داخلے کے لیے غسل کرنے اور اس میں دن کو داخل ہونے کے مستحب ہونے کے متعلق باب۔‘‘ الغرض محرم رات دن کے کسی وقت میں بھی مکہ مکرمہ آسکتا ہے۔ دونوں اوقات میں آنے کے جواز پر اتفاق ہے۔ 2۔....دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ جوتے میسر نہ آنے کی صورت میں محرم موزے پہن سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عمل کیا۔ امام بخاری اور مسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ((مَنْ لَمْ یَجِدِ النَّعْلَیْنِ فَلْیَلْبَسِ الْخُفَّیْنِ وَمَنْ لَمْ یَجِدْ إِزَارًا فَلْیَلْبَسْ سَرَاوِیلَ لِلْمُحْرِمِ)) (صحیح بخاري، کتاب جزء الصید، باب لبس الخفین للمحرم إذا لم یجر نعلین، رقم : ۱۸۴۱، صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۳؍۱۱۷۷۔ الفاظ حدیث صحیح بخاری کے ہیں۔) ’’جس محرم کے پاس جوتے نہ ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس اس حدیث سے پتا چلا کہ جس محرم کو جوتے میسر نہ آئیں تو اسے موزے پہننے کی اجازت ہے۔ مزید برآں موزے پہننے والا محرم انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے، جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے: ((وَلْیَقُطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ.....الحدیث)) (صحیح بخاري، کتاب الحج، رقم : ۱۵۴۲، صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۲؍۱۱۷۷۔) امام ابن حبان نے اس حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: ’’ذِکْرُ الْبَیَانِ بِأَنَّ الْمُحْرِمَ إِنَّمَا أُبِیْحَ لَهُ فِيْ لَبْسِ الْخُفَّیْنِ عِنْدَ عَدْمِ النَّعْلَیْنِ، إِذَا قَطَعَهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ۔‘‘ (الإحسان فی تقریب صحیح حبان، کتاب الحج : ۹؍۹۴۔) ’’اس بات کا ذکر کہ محرم کے لیے جوتوں کے میسر نہ آنے پر موزے پہننے کی اجازت تب ہے، جب کہ وہ انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے۔‘‘ جمہور علمائے امت کی بھی یہی رائے ہے، البتہ امام احمد سے اس بارے میں دو روایات ہیں۔ مشہور روایت یہ ہے کہ موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ضروری نہیں اور دوسری روایت جمہور علماء کی رائے کے موافق ہے۔( المفهم شرح صحیح مسلم : ۳؍۲۵۸۔) امام ابن قدامہ دونوں آراء اور ان کے دلائل نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں : ’’وَالْأَوْلٰی قَطْعُهُمَا عَمَلًا بِالْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ، وَخُرُوْجًا مِنَ الْخُلَافِ، وَأَخْذًا بِالْاِحْتِیَاطِ۔‘‘ (المغنی لابن قدامة : ۵؍۱۲۲۔) ’’صحیح حدیث کے مطابق عمل کرنے، اختلاف سے بچنے اور احتیاط کے پیش نظر (موزوں کا) کاٹنا بہتر ہے۔‘‘ مجبوری کی حالت میں موزے پہننے کی صورت میں محرم پر کوئی فدیہ نہیں، امام ابن حبان نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے: ’’ذِکْرُ الْخَبَرِ الْمُدْحِضِ قَوْلَ مَنْ زَعَمَ أَنَّ لَبْسَ الْمُحْرِمِ الْخُفَّیْنِ عِنْدَ عَدَمِ النَّعْلِ أَوِ السَّرَاوِیْلِ عِنْدَ عَدَمِ الْإِزَارِ، عَلَیْهِ دَمٌ۔‘‘ (الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، رقم : ۹؍۹۸۔) ’’اس شخص کے قول کی تردید کرنے والی حدیث، جو یہ سمجھتا ہے کہ جوتا نہ ہونے پر موزے اور تہبند نہ ہونے پر شلوار پہننے والے محرم پر دَم ہے۔‘‘