مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 45

كِتَابُ الْمَشَايِخُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: كَانَ بَيْنَ عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْءٌ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ إِنِّي وَاللَّهِ مَا فَرَرْتُ عَنْ رَسُولَ اللَّهَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَومَ حُنَيْنٍ، وَلَا تَخَلَّفْتُ عَنْ بَدْرٍ، وَلَا خَالَفْتُ سُنَّةَ عُمَرَ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُثْمَانُ أَمَّا قَوْلُكَ فَرَرْتُ يَوْمَ حُنَيْنٍ فَقَدْ صَدَقْتَ، فَقَدْ عَفَا عَنَى، وَأَمَّا سُنَّةَ عُمَرَ فَوَاللَّهِ مَا أُطِيقُهَا أَنَا وَلَا أَنْتَ

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 45

کتاب مشائخ کی عبد الرحمن سے روایت شقیق نے بیان کیا، کہا کہ حضرت عثمان اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما کے درمیان کوئی رنجش ہوگئی، چنانچہ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے اُن کی طرف پیغام بھیجا: بلاشبہ اللہ کی قسم! میں حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑ کر بھاگا نہیں تھا، اور بدر سے پیچھے رہا اور نہ ہی امیر عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کی مخالفت کی۔ (راوی نے) کہا: تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اُن کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کا یہ کہنا کہ میں حنین کے دن بھاگ گیا تو تم نے یقینا سچ کہا، مگر (اللہ نے) مجھے معاف کردیا تھا اور جو امیر عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کا معاملہ ہے تو اللہ کی قسم! نہ تو اس کی طاقت رکھتا ہے اور نہ میں۔
تشریح : پس منظر: جناب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان حالات کشیدہ تھے، ایک دن حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی ملاقات ولید بن عقبہ سے ہوئی۔ تو ولید نے کہا: مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں ؟ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میری طرف سے عثمان کو پیغام دینا کہ میں نے احد سے فرار اختیار نہیں کیا تھا، اور نہ میں بدر سے پیچھے رہا اور نہ میں نے امیر عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کو ترک کیا ہے۔ پس وہ گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا۔ دراصل اس پیغام کے ذریعے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض کیے تھے کہ: (۱) آپ نے اُحد کے دن فرار اختیار کیا تھا۔ (۲) آپ نے بدر میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔ (۳) آپ بیعت رضوان میں شریک نہیں تھے اور (۴) آپ نے امیر عمر رضی اللہ عنہ جیسا زہد، فکر آخرت، رعیت کا خیال، فساد فی الارض کا خاتمہ نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے صفائی پیش کرتے ہوئے اسی قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ: ‚ اُحد کے دن مدینہ کی طرف بھاگنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا تھا: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾(آل عمران : ۳؍۱۵۵) ’’تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی، جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا، اللہ تعالیٰ بخشنے والا بردبار ہے۔‘‘ لہٰذا اس وجہ سے مجھ پر عیب لگانا درست نہیں۔ اور 2 بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی جو بات ہے وہ تو مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف اپنا سفیر مقرر کرکے بھیجا اور مسلمانوں میں میرے قتل کی افواہ پھیلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘ اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔ اور یاد رہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بایاں ہاتھ لوگوں کے دائیں ہاتھوں سے افضل ہے۔ „ اور بدر سے پیچھے رہنے کا جو اعتراض ہے دراصل رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم (میری زوجہ محترمہ) بیماری میں مبتلا تھیں۔ تو مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تیمار داری کے لیے گھر پر رکنے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ ان کی وفات ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت میں میرے لیے حصہ مقرر فرمایا تو گویا میں شریک بدر شمار کیا گیا۔ اور ....رہی سنت عمر رضی اللہ عنہ کو ترک کرنے کی بات تو میں نے سنت عمر کو چھوڑا نہیں، بلکہ ((وہ بہت نیک، زاہد، رعایا کا خیال رکھنے والے، عادل، فساد فی الارض کو ختم کرنے والے، فتنوں کا سدباب کرنے والے شخص تھے) میں اور تم اس کی رعایت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔( مسند أحمد : ۱؍۶۸، رقم : ۴۹۰، مسند بزار : ۲؍۳۴، رقم : ۳۸۰، رقم : ۳۹۵۔) ﴿ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (البقرۃ : ۲؍۱۴۱) اس چیز کو بنیاد بنا کر روافض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خبث باطن کی تردید کے لیے تفصیل مزید: 1۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور غزوۂ بدر: جب مسلمان غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا چیچک کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے قریش کے تجارتی قافلے کو چھیڑنے کے لیے نکلنے کا حکم دیا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل میں جلدی کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع کر دیا، اور رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو گھر پر محترمہ صابر و طاہرہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں رہے۔ جب مرض بڑھ گیا اور موت کے آثار نمودار ہوئے اس حالت میں رقیہ رضی اللہ عنہا کو جب کہ موت نے انھیں گھیر رکھا تھا اپنے والد محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بدر میں مشغول تھے اور اپنی ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا کی دیدار کے انتہائی شوق میں بے تاب تھیں، جو مکہ میں تھیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ آنسوؤں کے ساتھ ان پر ٹکٹکی لگائے ہوئے تھے اور جیسے غم سے دل پھٹا جا رہا تھا۔( نساء اهل البیت، احمد خلیل جمعہ :۴۹۱۔۵۰۴۔) سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے ساتھ موت کو لبیک کہا اور رفیق اعلیٰ سے جاملیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارنہ ہو سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر میں صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلاء کلمۃ اللہ کے عمل میں مشغول تھے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین ہوئی، لوگ آپ کے پاک جسم کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان روانہ ہوئے، آپ کے شوہر عثمان رضی اللہ عنہ غمگین پیچھے پیچھے چلتے، جب جنازہ ’’بقیع‘‘ پہنچ گیا آپ کو وہاں دفن کر دیا گیا، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے آپ کو دفن کر کے جب لوگ واپس آرہے تھے تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہو کر فتح و نصرت کا مژدہ جانفزا لے کر مدینہ پہنچے، اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکین کے قتل و قید کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ مسلمانانِ مدینہ کے چہروں پر فتح و نصرت کی ان خبروں سے خوشی امڈ آئی، عثمان رضی اللہ عنہ بھی انھیں لوگوں میں سے تھے لیکن رقیہ رضی اللہ عنہا کے فراق کا غم چھپا نہ سکے۔ مدینہ واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رقیہ رضی اللہ عنہا کے وفات کی خبر ملی، آپ بقیع تشریف لے گئے، ان کی قبر پر کھڑے ہو کر آپ نے بخشش و غفران کی ان کے لیے دعا کی۔( دماء علی قمیص عثمان بن عفان، ص :۲۰۔) عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سے بزدلی یا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہوئے تھے۔ جیسا کہ اہل بدعت کا زعم باطل ہے، اور نہ ہی ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت تھی، جو فضیلت اہل بدر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں میدان بدر میں حاضری کی وجہ سے حاصل ہوئی وہ فضیلت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہوئی کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسروں کی طرح روانہ ہوئے تھے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو واپس کر دیا تھا، لہٰذا آپ کا بدر سے پیچھے رہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری میں تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا، اور اس طرح آپ اہل بدر کے ساتھ مال غنیمت، فضیلت اور اجز و ثواب میں شریک رہے۔ (کتاب الامامة والرد علی الرفضة، الأصبہاني، ص : ۳۰۲۔) عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ ایک شخص مصر سے حج کے لیے آیا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں اللہ واسطے آپ مجھے بتائیں : کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان بدر سے غائب رہے اور شریک نہ ہوئے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہاں لیکن بدر سے ان کا غائب ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپ کی زوجیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر (رقیہ رضی اللہ عنہا) بیمار تھیں، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رکنے کا حکم دیا، اور فرمایا: تمہیں بدر میں شریک ہونے والے کے برابر اجر و ثواب اور حصہ ملے گا۔( صحیح بخاري، کتاب فضائل أصحاب النبي، رقم : ۳۶۹۸۔) اور ابووائل، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی وجہ سے پیچھے رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں میرے لیے حصہ مقرر فرمایا۔ اور زائدہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ مقرر کیا تو گویا وہ شریک رہا۔( الامامة والرد علی الرافضة، ص : ۳۰۴۔) اور عثمان رضی اللہ عنہ کا شمار بالاتفاق بدری صحابہ میں ہوتا ہے۔( عثمان بن عفان، صادق عرجون، ص : ۴۷۔) 2۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور غزوہ احد: غزوہ احد کے احد کے اندر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ابتدائی مرحلہ میں فتح نصیب فرمائی، اور مسلمانوں کی تلواریں مشرکین کی گردن پر اپنا کام کرتی رہیں، مشرکین کو ہزیمت و شکست میں شکست نہ رہا اور مشرکین کے پرچم برداریکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے قتل ہوتے رہے، اور پرچم سے قریب ہونے کی ہمت کسی میں باقی نہ رہی، اب مشرکین شکست خوردہ ہو چکے تھے اور خواتین جو گا گا کر دف بجا بجا کر ہمت دلا رہی تھیں سب کچھ چھوڑ کر آہ و بکا کرنے لگیں، اور دف وغیرہ پھینک کر خوفزدہ ہو کر پنڈلیاں کھولے ہوئے پہاڑ کی طرف بھاگ کھڑی ہوئیں .....لیکن اچانک معرکے کا توازن بگڑ گیا اور اس کا سبب یہ ہوا کہ جن تیر اندازوں کو پہاڑ کے اوپر مقرر کیا گیا تھا اور ان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ معرکہ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں ان میں سے چند کے علاوہ بقیہ نے اپنی جگہ چھوڑ دی، اور پہاڑی سے اتر کر دوسروں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔ تب تک خالد بن ولید نے جو قریشی شہسواروں کے قائد تھے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شہسواروں کو لے کر عکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اولا جو پہاڑی پر تیر انداز باقی تھے جن میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے جو تیر اندازوں کے امیر تھے، انھیں قتل کیا پھر جو مسلمان بالکل غافل تھے اور مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے خالد بن ولید نے ان پر دھاوا بول دیا، مسلمان اس اچانک حملے سے اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو گئے اور ان کا ایک گروہ مدینہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، انھیں میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما بھی تھے، یہ لوگ اس وقت تک واپس نہ ہو سکے جب تک کہ جنگ ختم نہ ہوئی، اور دوسرا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قتل کی افواہ سن کر حیران و پریشان ہو کر رہ گیا، اور تیسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹا رہا۔ پہلے گروہ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (آل عمران: ۳؍۱۵۵) ’’تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی، جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے بخشنے والا اور تحمل والا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کر دیا تو پھر مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کوئی التباس باقی نہیں رہا لہٰذا اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔( ذوالنورین مع النبی، د: عاطف لماضة، ص : ۳۲۔) 3۔ حضرت عثمان اور بیعت الرضوان بیعت رضوان کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر نزول فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ ایک خصوصی سفیر قریش کے پاس روانہ فرمائیں جو ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد و موقف کی وضاحت کر دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح و آشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں قتال کا کوئی ارادہ نہیں، مقامات مقدسہ کے احترام کے آپ حریص ہیں، عمرہ کرنے آئے ہیں، عمرہ ادا کر کے مدینہ واپس ہو جائیں گے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کے پاس جاؤ اور انھیں بتاؤ کہ ہم کسی سے قتال کرنے نہیں آئے ہیں، ہم خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، ہماری ساتھ ہدی کے جانور ہیں ہم انھیں ذبح کریں گے اور واپس ہو جائیں گے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اس مہم پر روانہ ہوئے، بلدح مقام پر پہنچے تو قریش کے لوگ انھیں وہاں ملے، انھوں نے آپ سے سوال کیا کہاں جا رہے ہیں ؟ فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ظاہر اور اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا۔ اگر یہ منظور نہیں ہے تو تم ان کا راستہ چھوڑ کر خاموش ہو جاؤ، دوسروں کو اس کے لیے چھوڑ دو، اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آگئے تو تمہارا مقصد پورا ہو گیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے تو پھر تمہیں اختیار ہو گا چاہے تم اس دین میں داخل ہو جاؤ جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں یا پھر تم ان سے اس حالت میں قتال کرو جب کہ تمہاری تعداد زیادہ ہو اور قوت و طاقت حاصل ہو، کیوں کہ فی الحال جنگ نے تمہیں کمزور کر دیا ہے اور سور ماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے جو کفار کو ناگوار گزر رہی تھی، وہ آپ کی باتوں کو یہ کہہ کر ٹالتے جاتے تھے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں ہم نے سن لیا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ زبردستی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، آپ واپس جائیں اور اپنے ساتھی سے کہہ دیں وہ یہاں نہیں آسکتے۔ یہ موقف دیکھ کر ابان بن سعید بن العاص نے آپ کو خوش آمدید کہا اور پناہ دی اور کہا آپ اپنی مہم سے رکیں نہیں پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور عثمان کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل ہوئے۔فرداً فرداً سرداران قریش سے ملاقات کی۔ ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ وغیرہم جن سے بلدح میں ملاقات کی تھی، اور وہ لوگ جن سے صرف مکہ میں ملاقات ہوئی سب ہی آپ کی بات کو یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ ’’محمد کبھی بھی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (زادالمعاد، ابن القیم : ۳؍۲۹۰، السیرة النبویة، ابن هشام : ۳؍۳۴۴۔)مشرکین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پیش کش کی وہ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔( زادالمعاد: ۳؍۲۹۰۔) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مستضعفینِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا، اور جلد مشکلات سے نجات پانے کی بشارت سنائی۔( زادالمعاد: ۳؍۲۹۰۔) اور ان سے زبانی پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیا جن میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ پہنچا سکتی ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ آپ کو مکہ کے اندر داخل کر دے۔( غزوة الحدیبیة، ابو فارس، ص : ۸۵۔) ابھی آپ رضی اللہ عنہ مکہ ہی میں اپنی مہم میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے، ان حالات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہاتھوں پر موت کی بیعت کی۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازی، رقم : ۴۱۶۹۔) سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ابوسنان عبداللہ بن وہب الاسدری رضی اللہ عنہما نے بیعت کی(السیرة النبویة فی ضوء المصادر الأصلیة، ص : ۴۸۶۔) اس کے بعد تمام لوگوں نے بیعت کی۔( السیرة النبویة فی ضوء المصادر الأصلیة، ص : ۴۸۶۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘ اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔( صحیح السیرة النبویة، ص : ۴۰۴۔) اس موقع پر درخت کے نیچے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی ان کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔( السیرة النبویة فی ضوء المصادر الأصلیة، ص : ۴۸۲۔) قرآن کریم میں ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ آیا ہے جنھوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی، اور قرآن و حدیث کے بہت سے نصوص میں ان کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا﴾(الفتح: ۴۸؍۱۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہو گیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اللہ نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انھیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے روز ہم سے ارشاد فرمایا: ((أَنْتُمْ الْیَوْمَ خَیْرُ أَهْلِ الْاَرْضِ۔)) ’’تم روئے زمین میں سب سے بہتر ہو۔‘‘ اس وقت ہم ایک ہزار سو تھے اگر میری بینائی کام کرتی تو میں تمھیں اس درخت کا مقام دکھا دیتا جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔( صحیح مسلم، کتاب الإمارة، رقم : ۴۸۱۱۔) یہ حدیث اصحاب شجرہ کی فضیلت میں صریح ہے اس وقت مکہ و مدینہ وغیرہ میں مسلمان موجود تھے۔ اس سے بعض شیعہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر استدلال کیا ہے بایں طور پر کہ اس وقت علی رضی اللہ عنہ مخاطبین اور ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ نہ تھے، لیکن یہ استدلال باطل ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی تھی، لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ اس خیریت میں ان کے مساوی قرار پائے اور حدیث میں بعض کو بعض پر فضیلت دینی مقصود نہیں ہے۔( فتح الباري : ۷؍۴۴۳۔) حدیبیہ کے سلسلہ میں محب طبری نے عثمان رضی اللہ عنہ کے چند خصائص کا تذکرہ کیا ہے: 1۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔ 2۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام مکہ میں قیدی مسلمانوں تک پہنچایا۔ 3۔ ترک طواف کے سلسلہ میں ان کی موافقت کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔( الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ص : ۴۹۰،۴۹۱۔) 4۔ ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی تو لوگوں نے کہا: ابو عبد اللہ کو بحالت امن طواف مبارک ہو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک میں طواف نہ کروں عثمان طواف نہیں کر سکتے۔( الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ص : ۴۹۱۔) یہ اتہام لگا کر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر ظلم ڈھایا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت میں شرکت نہیں کی اور غائب رہے۔ ارکان خلافت کو ڈھانے کے لیے فتنہ رچا گیا اور اس سلسلہ میں جو اتہامات عثمان رضی اللہ عنہ پر باندھے گئے انھیں میں سے ایک اتہام یہ بھی ہے۔( ذوالنورین مع النبي، ص : ۳۲۔) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیعت رضوان کا حکم فرمایا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیج رکھا تھا، لوگوں نے بیعت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان اللہ و رسول کی ضرورت میں لگے ہیں، پھر آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے بہتر تھا۔( سنن ترمذي، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۰۲، سیر سلف الصالحین : ۱؍۱۸۱۔) اللہ ہدایت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
تخریج : مسند بزار : ۲، رقم : ۳۸۰، ۳۹۵، مسند احمد : ۱؍۵۸، رقم : ۴۹۰، مجمع الزوائد : ۹؍۹۵۔ پس منظر: جناب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان حالات کشیدہ تھے، ایک دن حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کی ملاقات ولید بن عقبہ سے ہوئی۔ تو ولید نے کہا: مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کرتے ہیں ؟ چنانچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم میری طرف سے عثمان کو پیغام دینا کہ میں نے احد سے فرار اختیار نہیں کیا تھا، اور نہ میں بدر سے پیچھے رہا اور نہ میں نے امیر عمر رضی اللہ عنہ کی سنت کو ترک کیا ہے۔ پس وہ گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا پیغام پہنچایا۔ دراصل اس پیغام کے ذریعے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ پر یہ اعتراض کیے تھے کہ: (۱) آپ نے اُحد کے دن فرار اختیار کیا تھا۔ (۲) آپ نے بدر میں شرکت بھی نہیں کی تھی۔ (۳) آپ بیعت رضوان میں شریک نہیں تھے اور (۴) آپ نے امیر عمر رضی اللہ عنہ جیسا زہد، فکر آخرت، رعیت کا خیال، فساد فی الارض کا خاتمہ نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے صفائی پیش کرتے ہوئے اسی قاصد کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ: ‚ اُحد کے دن مدینہ کی طرف بھاگنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا تھا: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾(آل عمران : ۳؍۱۵۵) ’’تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی، جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا، اللہ تعالیٰ بخشنے والا بردبار ہے۔‘‘ لہٰذا اس وجہ سے مجھ پر عیب لگانا درست نہیں۔ اور 2 بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی جو بات ہے وہ تو مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی طرف اپنا سفیر مقرر کرکے بھیجا اور مسلمانوں میں میرے قتل کی افواہ پھیلی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘ اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔ اور یاد رہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بایاں ہاتھ لوگوں کے دائیں ہاتھوں سے افضل ہے۔ „ اور بدر سے پیچھے رہنے کا جو اعتراض ہے دراصل رقیہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم (میری زوجہ محترمہ) بیماری میں مبتلا تھیں۔ تو مجھے جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تیمار داری کے لیے گھر پر رکنے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ ان کی وفات ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت میں میرے لیے حصہ مقرر فرمایا تو گویا میں شریک بدر شمار کیا گیا۔ اور ....رہی سنت عمر رضی اللہ عنہ کو ترک کرنے کی بات تو میں نے سنت عمر کو چھوڑا نہیں، بلکہ ((وہ بہت نیک، زاہد، رعایا کا خیال رکھنے والے، عادل، فساد فی الارض کو ختم کرنے والے، فتنوں کا سدباب کرنے والے شخص تھے) میں اور تم اس کی رعایت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔( مسند أحمد : ۱؍۶۸، رقم : ۴۹۰، مسند بزار : ۲؍۳۴، رقم : ۳۸۰، رقم : ۳۹۵۔) ﴿ تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ (البقرۃ : ۲؍۱۴۱) اس چیز کو بنیاد بنا کر روافض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سب و شتم کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خبث باطن کی تردید کے لیے تفصیل مزید: 1۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور غزوۂ بدر: جب مسلمان غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا چیچک کی بیماری میں مبتلا تھیں۔ لیکن اس کے باوجود جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے قریش کے تجارتی قافلے کو چھیڑنے کے لیے نکلنے کا حکم دیا عثمان رضی اللہ عنہ نے اس حکم کی تعمیل میں جلدی کی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع کر دیا، اور رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو گھر پر محترمہ صابر و طاہرہ رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں رہے۔ جب مرض بڑھ گیا اور موت کے آثار نمودار ہوئے اس حالت میں رقیہ رضی اللہ عنہا کو جب کہ موت نے انھیں گھیر رکھا تھا اپنے والد محترمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو بدر میں مشغول تھے اور اپنی ہمشیرہ زینب رضی اللہ عنہا کی دیدار کے انتہائی شوق میں بے تاب تھیں، جو مکہ میں تھیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ آنسوؤں کے ساتھ ان پر ٹکٹکی لگائے ہوئے تھے اور جیسے غم سے دل پھٹا جا رہا تھا۔( نساء اهل البیت، احمد خلیل جمعہ :۴۹۱۔۵۰۴۔) سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے ساتھ موت کو لبیک کہا اور رفیق اعلیٰ سے جاملیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدارنہ ہو سکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میدان بدر میں صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعلاء کلمۃ اللہ کے عمل میں مشغول تھے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کے جنازے میں شرکت نہ کر سکے۔ رقیہ رضی اللہ عنہا کی تجہیز و تکفین ہوئی، لوگ آپ کے پاک جسم کو کندھوں پر اٹھا کر قبرستان روانہ ہوئے، آپ کے شوہر عثمان رضی اللہ عنہ غمگین پیچھے پیچھے چلتے، جب جنازہ ’’بقیع‘‘ پہنچ گیا آپ کو وہاں دفن کر دیا گیا، لوگوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے آپ کو دفن کر کے جب لوگ واپس آرہے تھے تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہو کر فتح و نصرت کا مژدہ جانفزا لے کر مدینہ پہنچے، اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی اور مشرکین کے قتل و قید کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ مسلمانانِ مدینہ کے چہروں پر فتح و نصرت کی ان خبروں سے خوشی امڈ آئی، عثمان رضی اللہ عنہ بھی انھیں لوگوں میں سے تھے لیکن رقیہ رضی اللہ عنہا کے فراق کا غم چھپا نہ سکے۔ مدینہ واپسی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رقیہ رضی اللہ عنہا کے وفات کی خبر ملی، آپ بقیع تشریف لے گئے، ان کی قبر پر کھڑے ہو کر آپ نے بخشش و غفران کی ان کے لیے دعا کی۔( دماء علی قمیص عثمان بن عفان، ص :۲۰۔) عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر سے بزدلی یا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پیچھے نہیں ہوئے تھے۔ جیسا کہ اہل بدعت کا زعم باطل ہے، اور نہ ہی ان کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت تھی، جو فضیلت اہل بدر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں میدان بدر میں حاضری کی وجہ سے حاصل ہوئی وہ فضیلت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی حاصل ہوئی کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوسروں کی طرح روانہ ہوئے تھے، لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر رقیہ رضی اللہ عنہا کی تیمار داری کے لیے ان کو واپس کر دیا تھا، لہٰذا آپ کا بدر سے پیچھے رہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری میں تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا، اور اس طرح آپ اہل بدر کے ساتھ مال غنیمت، فضیلت اور اجز و ثواب میں شریک رہے۔ (کتاب الامامة والرد علی الرفضة، الأصبہاني، ص : ۳۰۲۔) عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ ایک شخص مصر سے حج کے لیے آیا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ سے ایک چیز کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں اللہ واسطے آپ مجھے بتائیں : کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان بدر سے غائب رہے اور شریک نہ ہوئے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہاں لیکن بدر سے ان کا غائب ہونا اس وجہ سے تھا کہ آپ کی زوجیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر (رقیہ رضی اللہ عنہا) بیمار تھیں، جس کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں رکنے کا حکم دیا، اور فرمایا: تمہیں بدر میں شریک ہونے والے کے برابر اجر و ثواب اور حصہ ملے گا۔( صحیح بخاري، کتاب فضائل أصحاب النبي، رقم : ۳۶۹۸۔) اور ابووائل، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: میں بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کی وجہ سے پیچھے رہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں میرے لیے حصہ مقرر فرمایا۔ اور زائدہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں کہ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حصہ مقرر کیا تو گویا وہ شریک رہا۔( الامامة والرد علی الرافضة، ص : ۳۰۴۔) اور عثمان رضی اللہ عنہ کا شمار بالاتفاق بدری صحابہ میں ہوتا ہے۔( عثمان بن عفان، صادق عرجون، ص : ۴۷۔) 2۔ عثمان رضی اللہ عنہ اور غزوہ احد: غزوہ احد کے احد کے اندر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ابتدائی مرحلہ میں فتح نصیب فرمائی، اور مسلمانوں کی تلواریں مشرکین کی گردن پر اپنا کام کرتی رہیں، مشرکین کو ہزیمت و شکست میں شکست نہ رہا اور مشرکین کے پرچم برداریکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے قتل ہوتے رہے، اور پرچم سے قریب ہونے کی ہمت کسی میں باقی نہ رہی، اب مشرکین شکست خوردہ ہو چکے تھے اور خواتین جو گا گا کر دف بجا بجا کر ہمت دلا رہی تھیں سب کچھ چھوڑ کر آہ و بکا کرنے لگیں، اور دف وغیرہ پھینک کر خوفزدہ ہو کر پنڈلیاں کھولے ہوئے پہاڑ کی طرف بھاگ کھڑی ہوئیں .....لیکن اچانک معرکے کا توازن بگڑ گیا اور اس کا سبب یہ ہوا کہ جن تیر اندازوں کو پہاڑ کے اوپر مقرر کیا گیا تھا اور ان کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ معرکہ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اپنی جگہ کو نہ چھوڑیں ان میں سے چند کے علاوہ بقیہ نے اپنی جگہ چھوڑ دی، اور پہاڑی سے اتر کر دوسروں کے ساتھ مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔ تب تک خالد بن ولید نے جو قریشی شہسواروں کے قائد تھے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شہسواروں کو لے کر عکرمہ بن ابی جہل کے ساتھ پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اولا جو پہاڑی پر تیر انداز باقی تھے جن میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما بھی تھے جو تیر اندازوں کے امیر تھے، انھیں قتل کیا پھر جو مسلمان بالکل غافل تھے اور مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے خالد بن ولید نے ان پر دھاوا بول دیا، مسلمان اس اچانک حملے سے اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو گئے اور ان کا ایک گروہ مدینہ کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، انھیں میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہما بھی تھے، یہ لوگ اس وقت تک واپس نہ ہو سکے جب تک کہ جنگ ختم نہ ہوئی، اور دوسرا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قتل کی افواہ سن کر حیران و پریشان ہو کر رہ گیا، اور تیسرا گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ڈٹا رہا۔ پہلے گروہ سے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (آل عمران: ۳؍۱۵۵) ’’تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی، جس دن دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی یہ لوگ اپنے بعض کرتوتوں کے باعث شیطان کے پھسلانے میں آگئے لیکن یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں معاف کر دیا، اللہ تعالیٰ ہے بخشنے والا اور تحمل والا۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ نے ان سب کو معاف کر دیا تو پھر مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کوئی التباس باقی نہیں رہا لہٰذا اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔( ذوالنورین مع النبی، د: عاطف لماضة، ص : ۳۲۔) 3۔ حضرت عثمان اور بیعت الرضوان بیعت رضوان کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر نزول فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ ایک خصوصی سفیر قریش کے پاس روانہ فرمائیں جو ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد و موقف کی وضاحت کر دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح و آشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں قتال کا کوئی ارادہ نہیں، مقامات مقدسہ کے احترام کے آپ حریص ہیں، عمرہ کرنے آئے ہیں، عمرہ ادا کر کے مدینہ واپس ہو جائیں گے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: تم قریش کے پاس جاؤ اور انھیں بتاؤ کہ ہم کسی سے قتال کرنے نہیں آئے ہیں، ہم خانہ کعبہ کی زیارت اور اس کی حرمت کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، ہماری ساتھ ہدی کے جانور ہیں ہم انھیں ذبح کریں گے اور واپس ہو جائیں گے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اس مہم پر روانہ ہوئے، بلدح مقام پر پہنچے تو قریش کے لوگ انھیں وہاں ملے، انھوں نے آپ سے سوال کیا کہاں جا رہے ہیں ؟ فرمایا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ وہ تمہیں اللہ اور اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں، یقینا اللہ تعالیٰ اپنے دین کو ظاہر اور اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا۔ اگر یہ منظور نہیں ہے تو تم ان کا راستہ چھوڑ کر خاموش ہو جاؤ، دوسروں کو اس کے لیے چھوڑ دو، اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آگئے تو تمہارا مقصد پورا ہو گیا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آگئے تو پھر تمہیں اختیار ہو گا چاہے تم اس دین میں داخل ہو جاؤ جس میں لوگ داخل ہوئے ہیں یا پھر تم ان سے اس حالت میں قتال کرو جب کہ تمہاری تعداد زیادہ ہو اور قوت و طاقت حاصل ہو، کیوں کہ فی الحال جنگ نے تمہیں کمزور کر دیا ہے اور سور ماؤں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ اپنی گفتگو جاری رکھے ہوئے تھے جو کفار کو ناگوار گزر رہی تھی، وہ آپ کی باتوں کو یہ کہہ کر ٹالتے جاتے تھے کہ جو آپ کہہ رہے ہیں ہم نے سن لیا ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ زبردستی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے، آپ واپس جائیں اور اپنے ساتھی سے کہہ دیں وہ یہاں نہیں آسکتے۔ یہ موقف دیکھ کر ابان بن سعید بن العاص نے آپ کو خوش آمدید کہا اور پناہ دی اور کہا آپ اپنی مہم سے رکیں نہیں پھر وہ اپنے گھوڑے سے اترا اور عثمان کو اپنے ساتھ سوار کر لیا اس طرح عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں داخل ہوئے۔فرداً فرداً سرداران قریش سے ملاقات کی۔ ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ وغیرہم جن سے بلدح میں ملاقات کی تھی، اور وہ لوگ جن سے صرف مکہ میں ملاقات ہوئی سب ہی آپ کی بات کو یہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ ’’محمد کبھی بھی مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (زادالمعاد، ابن القیم : ۳؍۲۹۰، السیرة النبویة، ابن هشام : ۳؍۳۴۴۔)مشرکین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پیش کش کی وہ خانہ کعبہ کا طواف کر لیں، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔( زادالمعاد: ۳؍۲۹۰۔) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مستضعفینِ مکہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا، اور جلد مشکلات سے نجات پانے کی بشارت سنائی۔( زادالمعاد: ۳؍۲۹۰۔) اور ان سے زبانی پیغام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیا جن میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام بھیجا تھا اور یہ کہا تھا کہ جو ذات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ پہنچا سکتی ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ آپ کو مکہ کے اندر داخل کر دے۔( غزوة الحدیبیة، ابو فارس، ص : ۸۵۔) ابھی آپ رضی اللہ عنہ مکہ ہی میں اپنی مہم میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں میں یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے، ان حالات کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشرکین سے قتال کے سلسلہ میں بیعت کی دعوت دی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہاتھوں پر موت کی بیعت کی۔ (صحیح بخاري، کتاب المغازی، رقم : ۴۱۶۹۔) سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر ابوسنان عبداللہ بن وہب الاسدری رضی اللہ عنہما نے بیعت کی(السیرة النبویة فی ضوء المصادر الأصلیة، ص : ۴۸۶۔) اس کے بعد تمام لوگوں نے بیعت کی۔( السیرة النبویة فی ضوء المصادر الأصلیة، ص : ۴۸۶۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے متعلق فرمایا: ’’یہ عثمان کا ہاتھ ہے‘‘ اور پھر اپنے دوسرے ہاتھ پر مار کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی۔( صحیح السیرة النبویة، ص : ۴۰۴۔) اس موقع پر درخت کے نیچے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی ان کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔( السیرة النبویة فی ضوء المصادر الأصلیة، ص : ۴۸۲۔) قرآن کریم میں ان نفوس قدسیہ کا تذکرہ آیا ہے جنھوں نے بیعت رضوان میں شرکت کی تھی، اور قرآن و حدیث کے بہت سے نصوص میں ان کے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا﴾(الفتح: ۴۸؍۱۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہو گیا جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ سے بیعت کر رہے تھے، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اللہ نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انھیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے روز ہم سے ارشاد فرمایا: ((أَنْتُمْ الْیَوْمَ خَیْرُ أَهْلِ الْاَرْضِ۔)) ’’تم روئے زمین میں سب سے بہتر ہو۔‘‘ اس وقت ہم ایک ہزار سو تھے اگر میری بینائی کام کرتی تو میں تمھیں اس درخت کا مقام دکھا دیتا جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔( صحیح مسلم، کتاب الإمارة، رقم : ۴۸۱۱۔) یہ حدیث اصحاب شجرہ کی فضیلت میں صریح ہے اس وقت مکہ و مدینہ وغیرہ میں مسلمان موجود تھے۔ اس سے بعض شیعہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت پر استدلال کیا ہے بایں طور پر کہ اس وقت علی رضی اللہ عنہ مخاطبین اور ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں نے درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ نہ تھے، لیکن یہ استدلال باطل ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی تھی، لہٰذا عثمان رضی اللہ عنہ اس خیریت میں ان کے مساوی قرار پائے اور حدیث میں بعض کو بعض پر فضیلت دینی مقصود نہیں ہے۔( فتح الباري : ۷؍۴۴۳۔) حدیبیہ کے سلسلہ میں محب طبری نے عثمان رضی اللہ عنہ کے چند خصائص کا تذکرہ کیا ہے: 1۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ موجود نہ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔ 2۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام مکہ میں قیدی مسلمانوں تک پہنچایا۔ 3۔ ترک طواف کے سلسلہ میں ان کی موافقت کی شہادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی۔( الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ص : ۴۹۰،۴۹۱۔) 4۔ ایاس بن سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بیعت کی تو لوگوں نے کہا: ابو عبد اللہ کو بحالت امن طواف مبارک ہو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک میں طواف نہ کروں عثمان طواف نہیں کر سکتے۔( الریاض النضرة فی مناقب العشرة، ص : ۴۹۱۔) یہ اتہام لگا کر لوگوں نے عثمان رضی اللہ عنہ پر ظلم ڈھایا ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت میں شرکت نہیں کی اور غائب رہے۔ ارکان خلافت کو ڈھانے کے لیے فتنہ رچا گیا اور اس سلسلہ میں جو اتہامات عثمان رضی اللہ عنہ پر باندھے گئے انھیں میں سے ایک اتہام یہ بھی ہے۔( ذوالنورین مع النبي، ص : ۳۲۔) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیعت رضوان کا حکم فرمایا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیج رکھا تھا، لوگوں نے بیعت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان اللہ و رسول کی ضرورت میں لگے ہیں، پھر آپ نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا، عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ لوگوں کے اپنے ہاتھوں سے بہتر تھا۔( سنن ترمذي، ابواب المناقب، رقم : ۳۷۰۲، سیر سلف الصالحین : ۱؍۱۸۱۔) اللہ ہدایت کی توفیق عطا فرمائے، آمین!