مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 44

كِتَابُ الْمَشَايِخُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ، مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ يُقَالُ لَهُ غَيْلَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: ((لَا تَغْلِبَنَّكُمُ الْأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلَاتِكُمْ فَإِنَّهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ الْعِشَاءِ وَإِنَّمَا سَمَّيْتِ الْعَتْمَةُ لِإِعْتَامِ الْإِبِلِ أَحْلَابَهَا))

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 44

کتاب مشائخ کی عبد الرحمن سے روایت اہل طائف کے غیلان نامی بوڑھے شخص نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اعراب تم پر تمہاری نماز کے نام پر غلبہ حاصل نہ کرجائیں، یہ اللہ عزوجل کی کتاب میں نمازِ ’’عشاء‘‘ ہے، اس کا نام ’’العتمہ‘‘ اونٹنیوں کا دودھ عشاء کے وقت دیر سے دوہنے کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔
تشریح : قرآن مجید میں عشاء کی نماز کا ذکر اس کے نام کے ساتھ آیا ہے، جہاں یہ حکم ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد بچے اور غلام بھی اجازت لے کر گھر اور کمرے میں آئیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ﴾ (النور : ۲۴؍۵۸) بدوی لوگ نماز مغرب کو عشاء اور عشاء کو عتمہ سے موسوم کرتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لا تغلبنکم الأعراب علی اسم صلاتکم‘‘ ’’بدویوں کی اصطلاح غالب نہیں ہونی چاہیے‘‘ بلکہ ان کو مغرب اور عشاء ہی کے ناموں سے پکارا جائے۔ عتمہ وہ باقی دودھ جو اونٹنی کے تھنوں میں رہ جاتا اور تھوڑی رات گزرنے کے بعدا اسے نکالتے۔ بعض اہل لغت نے کہا کہ عتمہ کے معنی رات کی تاریکی تک دیر کرنا چونکہ اس نماز کا وقت یہی وقت ہے۔ اس لیے اسے عتمہ کہا گیا۔ بعض احادیث میں نماز عشاء کو عتمہ کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے درجہ جواز دیا گیا۔ مگر بہتر یہی ہے کہ لفظ عشاء ہی سے پکارا جائے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت آپ نے اس خیال سے کی عشاء کے معنی لغت میں تاریکی کے ہیں اور یہ شفق ڈوبنے کے بعد ہوتی ہے۔ پس اگر مغرب کا نام عشاء پڑچائے تو احتمال ہے کہ آئندہ لوگ مغرب کا وقت شفق ڈوبنے کے بعد سمجھنے لگیں۔( فتح الباري : ۲؍۵۸۔ ۵۹، طبع دارالسلام، پاکستان۔)
تخریج : صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب وقت العشاء وتاخیرها، رقم : ۶۴۴، سنن ابي داود، رقم : ۴۹۸۴، سنن نسائي، رقم : ۵۴۱، سنن ابن ماجة، رقم : ۷۰۴، مسند احمد : ۲؍۱۰، صحیح ابن خزیمة، رقم : ۳۴۹، صحیح ابن حبان، رقم : ۱۵۴۱، مسند شافعي : ۱؍۲۸، معجم اوسط للطبراني، رقم : ۷۳۹۱۔ قرآن مجید میں عشاء کی نماز کا ذکر اس کے نام کے ساتھ آیا ہے، جہاں یہ حکم ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد بچے اور غلام بھی اجازت لے کر گھر اور کمرے میں آئیں۔ چنانچہ فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ﴾ (النور : ۲۴؍۵۸) بدوی لوگ نماز مغرب کو عشاء اور عشاء کو عتمہ سے موسوم کرتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لا تغلبنکم الأعراب علی اسم صلاتکم‘‘ ’’بدویوں کی اصطلاح غالب نہیں ہونی چاہیے‘‘ بلکہ ان کو مغرب اور عشاء ہی کے ناموں سے پکارا جائے۔ عتمہ وہ باقی دودھ جو اونٹنی کے تھنوں میں رہ جاتا اور تھوڑی رات گزرنے کے بعدا اسے نکالتے۔ بعض اہل لغت نے کہا کہ عتمہ کے معنی رات کی تاریکی تک دیر کرنا چونکہ اس نماز کا وقت یہی وقت ہے۔ اس لیے اسے عتمہ کہا گیا۔ بعض احادیث میں نماز عشاء کو عتمہ کے نام سے بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے درجہ جواز دیا گیا۔ مگر بہتر یہی ہے کہ لفظ عشاء ہی سے پکارا جائے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت آپ نے اس خیال سے کی عشاء کے معنی لغت میں تاریکی کے ہیں اور یہ شفق ڈوبنے کے بعد ہوتی ہے۔ پس اگر مغرب کا نام عشاء پڑچائے تو احتمال ہے کہ آئندہ لوگ مغرب کا وقت شفق ڈوبنے کے بعد سمجھنے لگیں۔( فتح الباري : ۲؍۵۸۔ ۵۹، طبع دارالسلام، پاکستان۔)