مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 42

كِتَابُ الْمَشَايِخُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَاصُّ فِلَسْطِينَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَقُولُ: ((وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم بِيَدِهِ إِنْ كُنْتُ لَحَالِفًا عَلَيْهِنَّ لَا يَنْقُصُ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ فَتَصَدَّقُوا، وَلَا يَعْفُو رَجُلٌ عَنْ مَظْلَمَةٍ يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا عِزًّا يَومَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَفْتَحُ رَجُلٌ عَلَى نَفْسِهِ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتْحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ))

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 42

کتاب مشائخ کی عبد الرحمن سے روایت فلسطین کے کسی قصہ گو شخص نے نے بیان کیا، کہا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ کہہ رہے تھے: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، اگر ان چیزوں پر میں حلف اٹھاؤں (تو میری بات درست ہے)، صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا، اگر کوئی آدمی محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر کسی ظلم کے بدلے درگزر کرتا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی عزت بلند کرے گا اور اگر کوئی آدمی بھیک مانگنا شروع کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر فقر کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
تشریح : اس حدیث سے درج ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں : 1۔....صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اُسے اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے اور بسااوقات وہ بڑھ کر سات سو گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾ (الروم : ۳۰؍۳۹) اور تم لوگ جو سود دیتے ہو، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔‘‘ مزید ارشاد فرمایا: ﴿ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾(السباء: ۳۴؍۳۹) ’’اور تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ کیونکہ صدقہ کی جگہ اللہ تعالیٰ اور مال دے دیتا ہے۔ بعض اوقات اس مال کو بڑھا دیتا ہے۔ 2۔....اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کو معاف کردینے کی وجہ سے انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اضافہ دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ((وَمَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدً بِعَفْوٍ اِلَّا عِزًّا۔))( صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۶۵۹۲۔) ’’اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے کی بدولت بندے کی عزت بڑھا دیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہیں لیا۔ جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کیے، سر پھوڑا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں بھی گر گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نبی نہیں بنایا گیا۔ اللہ نے مجھے لوگوں کو اپنی بارگاہ میں بلانے کے لیے بھیجا ہے، اس کے بعد یہ دعا فرمائی: اے اللہ! میری قوم کو ہدایت فرما، وہ مجھے نہیں جانتے ہیں۔( الشفاء للقاضي عیاض، ص : ۴۷۔) 3۔....اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام نے بھیک مانگنے کی مذمت کی ہے۔ بھیک مانگنے سے انسان غنی نہیں بن سکتا۔ اصل غنی تو دل کی غنی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اے لوگو! سمجھ لو لالچ فقیری ہے اور لوگوں سے ناامید رہنا غنا ہے اور (یہ حقیقت ہے) جب کوئی شخص لوگوں سے امیدیں وابستہ نہیں رکھتا تو وہ ان سے مستغنی ہوجاتا ہے۔( المشکاة، کتاب الزکاة، رقم : ۱۸۵۶۔) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَیْسَ فِی وَجْهِهِ مُزْغَةُ لَحْمٍ)) (صحیح بخاري، کتاب الزکاة، رقم : ۱۴۷۴، صحیح مسلم، رقم : ۱۰۴؍ ۱۰۴۰، سنن النسائي، رقم : ۲۵۸۵، مسند أحمد : ۲؍۱۵۔) ’’ایک شخص (باوجود غنا کے) لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے قیامت کے دن وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔‘‘
تخریج : انظر ما قبله۔ اس حدیث سے درج ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں : 1۔....صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اللہ کی خوشنودی کے لیے کرتا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اُسے اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دیتا ہے اور بسااوقات وہ بڑھ کر سات سو گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾ (الروم : ۳۰؍۳۹) اور تم لوگ جو سود دیتے ہو، تاکہ لوگوں کے اموال میں اضافہ ہوجائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا، اور تم لوگ جو زکوٰۃ دیتے ہو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے، ایسے ہی لوگ اسے کئی گنا بڑھانے والے ہیں۔‘‘ مزید ارشاد فرمایا: ﴿ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ﴾(السباء: ۳۴؍۳۹) ’’اور تم جو بھی چیز خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ اور دیتا ہے اور وہ سب رزق دینے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ معلوم ہوا کہ صدقہ کرنے سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔ کیونکہ صدقہ کی جگہ اللہ تعالیٰ اور مال دے دیتا ہے۔ بعض اوقات اس مال کو بڑھا دیتا ہے۔ 2۔....اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی کو معاف کردینے کی وجہ سے انسان کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اضافہ دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے: ((وَمَا زَادَ اللّٰهُ عَبْدً بِعَفْوٍ اِلَّا عِزًّا۔))( صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۶۵۹۲۔) ’’اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے کی بدولت بندے کی عزت بڑھا دیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات مبارک کی بابت کسی سے انتقام نہیں لیا۔ جنگ احد میں کافروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید کیے، سر پھوڑا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک غار میں بھی گر گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ان پر بددعا فرمائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نبی نہیں بنایا گیا۔ اللہ نے مجھے لوگوں کو اپنی بارگاہ میں بلانے کے لیے بھیجا ہے، اس کے بعد یہ دعا فرمائی: اے اللہ! میری قوم کو ہدایت فرما، وہ مجھے نہیں جانتے ہیں۔( الشفاء للقاضي عیاض، ص : ۴۷۔) 3۔....اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دین اسلام نے بھیک مانگنے کی مذمت کی ہے۔ بھیک مانگنے سے انسان غنی نہیں بن سکتا۔ اصل غنی تو دل کی غنی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: اے لوگو! سمجھ لو لالچ فقیری ہے اور لوگوں سے ناامید رہنا غنا ہے اور (یہ حقیقت ہے) جب کوئی شخص لوگوں سے امیدیں وابستہ نہیں رکھتا تو وہ ان سے مستغنی ہوجاتا ہے۔( المشکاة، کتاب الزکاة، رقم : ۱۸۵۶۔) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَا یَزَالُ الرَّجُلُ یَسْأَلُ النَّاسَ حَتَّی یَأْتِیَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ لَیْسَ فِی وَجْهِهِ مُزْغَةُ لَحْمٍ)) (صحیح بخاري، کتاب الزکاة، رقم : ۱۴۷۴، صحیح مسلم، رقم : ۱۰۴؍ ۱۰۴۰، سنن النسائي، رقم : ۲۵۸۵، مسند أحمد : ۲؍۱۵۔) ’’ایک شخص (باوجود غنا کے) لوگوں سے سوال کرتا رہتا ہے قیامت کے دن وہ شخص اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت بالکل نہیں ہوگا۔‘‘