كِتَابُ الْمَشَايِخُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مَولَى أَبِي مَرَّةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ كَانَ قَاعِدًا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَمَرَّ بِلَالٌ، فَدَعُوهُ فَسَأَلُوهُ عَنْ وُضُوءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فَقَالَ: ((كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يأَتِي الْحَاجَةَ فَيَدْعُونِي فَآتِيهِ بِالْمَاءِ، فَيَمْسَحُ عَلَى مُوقَيْهِ وَعِمَامَتِهِ))
کتاب
مشائخ کی عبد الرحمن سے روایت
جناب ابوعبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اچانک سیّدنا بلال رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا، انہوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کے بارے میں استفسار کیا، انہوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے آتے تو مجھے بلاتے، میں اُن کے پاس پانی لاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمامہ اور اپنے موزوں پر مسح کرتے۔
تشریح :
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ موزوں اور پگڑی پر مسح کرنا جائز ہے، تفصیل آئندہ کی سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔
پگڑی پر مسح کرنا:
سر پر پگڑی باندھی ہو تو اس پر مسح کر لیں، اس حالت میں مسح پیشانی سے شروع کریں، حدیث پاک میں ہے:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تو اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح کیا۔‘‘ (قرآن و سنت کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل، ص : ۵۱۔)
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ’’ اگر زخم پر پٹی بندھی ہو تو دورانِ وضو میں پٹی پر مسح کر لیں اور اس کے ارد گرد کو دھو لیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: ۸۳؍۲۷۴۔)
موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا:
سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ فَاَهْوَیْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّیْهِ، فَقَالَ: ’’دَعْهُمَا، فَإِنِّيْ أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَیْنِ ‘‘ فَمَسَحَ عَلَیْهِمَا۔)) (صحیح بخاري، کتاب الوضوء، رقم: ۲۰۶۔)
’’ایک سفر میں، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے بوقت وضو چاہا کہ آپ کے دونوں موزے اُتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں رہنے دو، میں نے انہیں حالت طہارت میں پہنا تھا۔ پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔‘‘
چنانچہ ارزق بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کرتے ہوئے اپنی اون کی جرابوں پر مسح کیا۔ میں نے کہا: آپ ان پر بھی مسح کرتے ہیں ؟ تو سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ بھی خفاف یعنی موزے ہیں لیکن اُون کے ہیں۔‘‘( الکنیٰ والاسماء للدولابي : ۱؍۱۸، السنن الکبریٰ للبیهقي : ۱؍۲۸۵۔)
پس ثابت ہوا کہ ’’جراب‘‘ پاؤں پر چڑھانے والے لباس کو کہتے ہیں، وہ خواہ چمڑے کا ہو، سوتی ہو یا اونی، جیسا کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس کی وضاحت کر دی۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو جاننے والا کون ہو سکتا ہے؟لہٰذا جرابوں پر مسح کیا جا ئے گا۔
علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ حدیث انس رضی اللہ عنہ کے تحت رقمطراز ہیں :
’’یہ حدیث قولاً و فعلاً سیّدنا انس رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، مگر ہم نے اسے قابل حجت تصور کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے صرف فعل پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ صراحتاً جرابوں کو اون کے موزے قرار دیا ہے اور سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ صاحب لغت صحابی ہیں، اور زبانوں کے اختلاف اور ملاپ اور عجمیت کے اثرات داخل ہونے سے قبل کے لغت دان ہیں۔ جب وہ وضاحت فرما رہے ہیں۔ خُف سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بھی قدم کو ڈھانپ لے، چاہے چمڑے کی ہو یا غیر چمڑے کی۔ لوگوں میں جو یہ وہم گردش کرتا آرہا ہے کہ موزہ وہی ہوگا جو چمڑے کا ہوگا۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما کر اس کو دور کردیا۔ شارع علیہ السلام سے جس کی کوئی وضاحت نہیں آئی کہ چمڑے کا ہونا ہی موزے کی تعریف ہے۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کی بات ازروئے حجت ہزار دفعہ خلیل، ازہری، جوہری اور ابن سیّد الناس جیسے لغت دانوں سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے، کیونکہ یہ لوگ اکثر طور پر لغت کی بات کو بغیر سند نقل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود علماء ان کی بات کو قابل احتجاج تصور کرتے ہیں اور جو بات مصدر اوّل صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باسنادِ صحیح تفسیراً مروی ہے۔ وہ بات تو بالاولیٰ قابل اعتماد ہونی چاہیے۔‘‘( رسالہ جرابوں پر مسح، از جمال الدین القاسمی، ص : ۱۹ (مترجم)۔)
حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
’’ حضرت انس صحابی اور عربی الاصل ہیں، وہ ’’خُف‘‘کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپا لے، آپ کی یہ وضاحت معنی کے اعتبار سے نہایت دقیق ہے کیونکہ ان کے نزدیک لفظ’’ جوربین‘‘لغوی، وضعی معنی کے لحاظ سے’’ خُفّین‘‘کے مدلول میں داخل ہیں اور ’’خفین‘‘ پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا جرابوں پر مسح میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے۔‘‘( محلیٰ ابن حزم: ۲؍۸۵۔)
اور سیّدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہم کے لیے ایک فوجی دستہ بھیجا، جنھیں سردی سے تکلیف ہوئی، جب وہ واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انھوں نے سخت سردی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ :
((اَنْ یَّمْسَحُوْا عَلَی الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِیْن۔)) (مسند أحمد : ۵؍۲۷۵، سنن ابي داود، کتاب الطهارة، رقم: ۱۴۶۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
’’ وہ وضو کرتے وقت پگڑیوں اور جرابوں پر مسح کرلیا کریں۔‘‘
((التساخین)) کا لفظ ’’ س، خ، ن ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی گرم کرنے والی اشیاء ہے، جس میں جرابیں اور موزے داخل ہیں۔
سیّدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘ (سنن ترمذي، کتاب الطهارة، رقم : ۹۹۔ مسند أحمد : ۴؍۲۵۲۔ سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة، رقم: ۵۵۹۔ سنن ابي داؤد، رقم: ۱۵۹۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ علی بن ابی طالب،ابو مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث ( رضی اللہ عنہم )جرابوں پر مسح کرتے تھے اور اسی طرح کی روایات عمر بن خطاب اور ابن عباس( رضی اللہ عنہم ) سے بھی ہیں۔‘‘ (سنن ابي داؤد، کتاب الطهارة، تحت الحدیث: ۱۵۹۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ حسن صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
ابن حزم رحمہ اللہ نے بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جرابوں پر مسح کرنا ذکر کیا ہے۔جن میں عبداللہ بن مسعود، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمرو اور ابو وائل رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔( المحلی: ۱؍۶۱۳۔)
ابن المنذر نے کہا: اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: ’’صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (الأوسط لإبن المنذر: ۱؍۴۶۴، ۴۶۵۔)
یاد رہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی آخر عمر میں جرابوں پر مسح کے قائل ہو گئے تھے۔ یعنی انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔ (اللباب: ۱؍۱۶۰۔)
ملا مرغینانی لکھتے ہیں :
(( وَعَنْهُ أَنَّهُ رَجَعَ إِلَی قَوْلِهَا وَعَلَیْهِ الْفَتْوٰی۔)) (الهدایة: ۱؍۶۱۔)
’’ اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انہوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔‘‘
امام ترمذی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ صالح بن محمد ترمذی نے کہا کہ میں نے ابو مقاتل سمر قندی سے سنا، آپ فرماتے ہیں : ’’ میں امام ابو حنیفہ کے پاس ان کے مرض الموت میں موجود تھا، چنانچہ آپ نے پانی منگوایا اور وضو کیا، جب کہ آپ نے جرابیں پہن رکھی تھیں ‘ جوتا نہیں پہنا تھا، لیکن آپ نے جرابوں پر مسح کیا، پھر فرمانے لگے: آج میں نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا کرتا تھا کہ میں نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔( سنن ترمذي، ابواب الطهارة، باب فی المسح عل الجوربین والنعلین، تحت حدیث، رقم: ۹۹، طبع مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، الریاض۔)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جرابوں پر مسح کے جواز کے قائلین کئی اہل علم ہیں، ان میں سے سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق قابل ذکر ہیں۔ (حوالہ مذکورہ)
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ فتاویٰ ابن باز (۱؍۴۶) میں رقمطراز ہیں کہ موزوں اور جرابوں پر مسح جائزہے۔
جوتوں پر مسح کرنا:
اُن جوتوں پر جو پاک صاف ہوں، مسح کرنا جائز ہے۔چنانچہ سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘( سنن ابي داؤد، کتاب الطهارة، رقم: ۱۵۹۔ سنن ترمذي، کتاب الطهارة، رقم: ۹۹۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
اور سیّدنا ابو الاشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جوتوں اور جرابوں پر مسح کیا۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة، رقم: ۵۶۰۰۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
مسح کرنے کا طریقہ:
مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کر لیں۔ سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ موزوں کے اوپر ظاہر والے حصہ پر مسح کرتے تھے۔‘‘( سنن ترمذی، کتاب الطہارۃ، رقم: ۹۸۔ سنن ابي داود، کتاب الطہارۃ، رقم: ۱۶۱۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن‘‘ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ حسن صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ اگر دین محض انسانی رائے سے بنتا تو پھر مسح علی الخفین میں پاؤں کی نچلی جانب مسح کیا جاتااور یہ زیادہ درست تھا کہ پاؤں کے ظاہر والے حصے پر مسح کیا جائے۔ جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ موزو ں کے اوپر ظاہر والے حصہ پر مسح کرتے۔‘‘( سنن ابي داود، کتاب الطهارة، رقم: ۱۶۲۔ سنن دار قطني: ۱؍۲۷۶۔ بلوغ المرام، رقم : ۵۵۔ حافظ ابن حجر اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
مسح کی مدت:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ اَیَّامٍ وَلَیَالِیَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَیْوًماوَلَیْلَةً لِلْمُقِیْمِ۔)) (صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: ۲۷۶۔)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن رات مسح کی مدت مقرر کی۔‘‘
نوٹ:....مسح کی مدت پہلے مسح سے شمار ہوگی۔ اگر جورابیں اور موزے پہن کر سفر شروع کردیا تو مسافر والی مدت تک مسح کریں اور اگر سفر میں مسح شروع کیا ہے اور گھر آگئے ہیں تو مقیم کی مدت تک مسح کریں گے، یعنی اگر مسح کرتے ہوئے مقیم کی مدت سے اوپر وقت ہوگیا ہے تو مسح نہ کریں۔ (الکافی لابن قدامة: ۱؍ ۸۰۔)
حالت جنابت میں مسح کا حکم:
جنبی ہونا مسح کی مدت ختم کردیتا ہے۔ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا اِذَا کُنَّا سَفَرًا اَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَـلَاثَةَ اَیَّامٍ وَلَیَالِیَهُنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلٰکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ۔)) (سنن ترمذي، ابواب الطهارة، رقم: ۹۶۔ سنن نسائي، کتاب الطهارة، رقم: ۱۲۷۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۴۷۸۔ إرواء الغلیل، رقم: ۱۰۴۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سفر میں تین دن رات تک پائخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اپنے موزے نہ اتاریں، لیکن جنبی ہونے پر اتارنے ہوں گے۔‘‘
تخریج :
سنن ابي داود، کتاب الطهارة، باب المسح علی الخفین، رقم : ۱۵۳، سنن الکبریٰ للبیهقي : ۱؍۲۸۸، مصنف ابن ابی شیبة : ۱؍۱۶۷، ۱۹۲۹، مستدرك حاکم : ۱؍۱۷۰، معجم کبیر للطبراني: ۱؍۳۵۹، ۳۶۰؍ ۱۱۰۰ و ۱۱۰۱۔
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ موزوں اور پگڑی پر مسح کرنا جائز ہے، تفصیل آئندہ کی سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔
پگڑی پر مسح کرنا:
سر پر پگڑی باندھی ہو تو اس پر مسح کر لیں، اس حالت میں مسح پیشانی سے شروع کریں، حدیث پاک میں ہے:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تو اپنی پیشانی اور پگڑی پر مسح کیا۔‘‘ (قرآن و سنت کی روشنی میں فقہی احکام و مسائل، ص : ۵۱۔)
سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ’’ اگر زخم پر پٹی بندھی ہو تو دورانِ وضو میں پٹی پر مسح کر لیں اور اس کے ارد گرد کو دھو لیں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: ۸۳؍۲۷۴۔)
موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا:
سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( کُنْتُ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیْ سَفَرٍ فَاَهْوَیْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّیْهِ، فَقَالَ: ’’دَعْهُمَا، فَإِنِّيْ أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَیْنِ ‘‘ فَمَسَحَ عَلَیْهِمَا۔)) (صحیح بخاري، کتاب الوضوء، رقم: ۲۰۶۔)
’’ایک سفر میں، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میں نے بوقت وضو چاہا کہ آپ کے دونوں موزے اُتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انہیں رہنے دو، میں نے انہیں حالت طہارت میں پہنا تھا۔ پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔‘‘
چنانچہ ارزق بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کرتے ہوئے اپنی اون کی جرابوں پر مسح کیا۔ میں نے کہا: آپ ان پر بھی مسح کرتے ہیں ؟ تو سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’یہ بھی خفاف یعنی موزے ہیں لیکن اُون کے ہیں۔‘‘( الکنیٰ والاسماء للدولابي : ۱؍۱۸، السنن الکبریٰ للبیهقي : ۱؍۲۸۵۔)
پس ثابت ہوا کہ ’’جراب‘‘ پاؤں پر چڑھانے والے لباس کو کہتے ہیں، وہ خواہ چمڑے کا ہو، سوتی ہو یا اونی، جیسا کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس کی وضاحت کر دی۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو جاننے والا کون ہو سکتا ہے؟لہٰذا جرابوں پر مسح کیا جا ئے گا۔
علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ حدیث انس رضی اللہ عنہ کے تحت رقمطراز ہیں :
’’یہ حدیث قولاً و فعلاً سیّدنا انس رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے، مگر ہم نے اسے قابل حجت تصور کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے صرف فعل پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ صراحتاً جرابوں کو اون کے موزے قرار دیا ہے اور سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ صاحب لغت صحابی ہیں، اور زبانوں کے اختلاف اور ملاپ اور عجمیت کے اثرات داخل ہونے سے قبل کے لغت دان ہیں۔ جب وہ وضاحت فرما رہے ہیں۔ خُف سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بھی قدم کو ڈھانپ لے، چاہے چمڑے کی ہو یا غیر چمڑے کی۔ لوگوں میں جو یہ وہم گردش کرتا آرہا ہے کہ موزہ وہی ہوگا جو چمڑے کا ہوگا۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما کر اس کو دور کردیا۔ شارع علیہ السلام سے جس کی کوئی وضاحت نہیں آئی کہ چمڑے کا ہونا ہی موزے کی تعریف ہے۔ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کی بات ازروئے حجت ہزار دفعہ خلیل، ازہری، جوہری اور ابن سیّد الناس جیسے لغت دانوں سے زیادہ مضبوط اور قوی ہے، کیونکہ یہ لوگ اکثر طور پر لغت کی بات کو بغیر سند نقل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود علماء ان کی بات کو قابل احتجاج تصور کرتے ہیں اور جو بات مصدر اوّل صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے باسنادِ صحیح تفسیراً مروی ہے۔ وہ بات تو بالاولیٰ قابل اعتماد ہونی چاہیے۔‘‘( رسالہ جرابوں پر مسح، از جمال الدین القاسمی، ص : ۱۹ (مترجم)۔)
حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
’’ حضرت انس صحابی اور عربی الاصل ہیں، وہ ’’خُف‘‘کے معنی بیان کرتے ہیں کہ وہ صرف چمڑے کا ہی نہیں ہوتا بلکہ ہر اس چیز کو شامل ہے جو قدم کو چھپا لے، آپ کی یہ وضاحت معنی کے اعتبار سے نہایت دقیق ہے کیونکہ ان کے نزدیک لفظ’’ جوربین‘‘لغوی، وضعی معنی کے لحاظ سے’’ خُفّین‘‘کے مدلول میں داخل ہیں اور ’’خفین‘‘ پر مسح میں کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا جرابوں پر مسح میں کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت متعدد طرق سے مروی ہے۔‘‘( محلیٰ ابن حزم: ۲؍۸۵۔)
اور سیّدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہم کے لیے ایک فوجی دستہ بھیجا، جنھیں سردی سے تکلیف ہوئی، جب وہ واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور انھوں نے سخت سردی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا کہ :
((اَنْ یَّمْسَحُوْا عَلَی الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِیْن۔)) (مسند أحمد : ۵؍۲۷۵، سنن ابي داود، کتاب الطهارة، رقم: ۱۴۶۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
’’ وہ وضو کرتے وقت پگڑیوں اور جرابوں پر مسح کرلیا کریں۔‘‘
((التساخین)) کا لفظ ’’ س، خ، ن ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی گرم کرنے والی اشیاء ہے، جس میں جرابیں اور موزے داخل ہیں۔
سیّدنا ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘ (سنن ترمذي، کتاب الطهارة، رقم : ۹۹۔ مسند أحمد : ۴؍۲۵۲۔ سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة، رقم: ۵۵۹۔ سنن ابي داؤد، رقم: ۱۵۹۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ علی بن ابی طالب،ابو مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث ( رضی اللہ عنہم )جرابوں پر مسح کرتے تھے اور اسی طرح کی روایات عمر بن خطاب اور ابن عباس( رضی اللہ عنہم ) سے بھی ہیں۔‘‘ (سنن ابي داؤد، کتاب الطهارة، تحت الحدیث: ۱۵۹۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ حسن صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
ابن حزم رحمہ اللہ نے بارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جرابوں پر مسح کرنا ذکر کیا ہے۔جن میں عبداللہ بن مسعود، سعد بن ابی وقاص، عبداللہ بن عمرو اور ابو وائل رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں۔( المحلی: ۱؍۶۱۳۔)
ابن المنذر نے کہا: اسحاق بن راہویہ نے فرمایا: ’’صحابہ کا اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘‘ (الأوسط لإبن المنذر: ۱؍۴۶۴، ۴۶۵۔)
یاد رہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی آخر عمر میں جرابوں پر مسح کے قائل ہو گئے تھے۔ یعنی انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔ (اللباب: ۱؍۱۶۰۔)
ملا مرغینانی لکھتے ہیں :
(( وَعَنْهُ أَنَّهُ رَجَعَ إِلَی قَوْلِهَا وَعَلَیْهِ الْفَتْوٰی۔)) (الهدایة: ۱؍۶۱۔)
’’ اور امام صاحب سے مروی ہے کہ انہوں نے صاحبین کے قول پر رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتویٰ ہے۔‘‘
امام ترمذی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ صالح بن محمد ترمذی نے کہا کہ میں نے ابو مقاتل سمر قندی سے سنا، آپ فرماتے ہیں : ’’ میں امام ابو حنیفہ کے پاس ان کے مرض الموت میں موجود تھا، چنانچہ آپ نے پانی منگوایا اور وضو کیا، جب کہ آپ نے جرابیں پہن رکھی تھیں ‘ جوتا نہیں پہنا تھا، لیکن آپ نے جرابوں پر مسح کیا، پھر فرمانے لگے: آج میں نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا کرتا تھا کہ میں نے جرابوں پر مسح کیا ہے۔( سنن ترمذي، ابواب الطهارة، باب فی المسح عل الجوربین والنعلین، تحت حدیث، رقم: ۹۹، طبع مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، الریاض۔)
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جرابوں پر مسح کے جواز کے قائلین کئی اہل علم ہیں، ان میں سے سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی، امام احمد اور اسحاق قابل ذکر ہیں۔ (حوالہ مذکورہ)
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ فتاویٰ ابن باز (۱؍۴۶) میں رقمطراز ہیں کہ موزوں اور جرابوں پر مسح جائزہے۔
جوتوں پر مسح کرنا:
اُن جوتوں پر جو پاک صاف ہوں، مسح کرنا جائز ہے۔چنانچہ سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘( سنن ابي داؤد، کتاب الطهارة، رقم: ۱۵۹۔ سنن ترمذي، کتاب الطهارة، رقم: ۹۹۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
اور سیّدنا ابو الاشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
’’بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جوتوں اور جرابوں پر مسح کیا۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الطهارة، رقم: ۵۶۰۰۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے سے ’’ صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
مسح کرنے کا طریقہ:
مسح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہاتھ پانی سے تر کر کے پاؤں کے اوپر والے حصے پر مسح کر لیں۔ سیّدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ موزوں کے اوپر ظاہر والے حصہ پر مسح کرتے تھے۔‘‘( سنن ترمذی، کتاب الطہارۃ، رقم: ۹۸۔ سنن ابي داود، کتاب الطہارۃ، رقم: ۱۶۱۔ امام ترمذی نے اسے ’’حسن‘‘ اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’ حسن صحیح ‘‘ کہا ہے۔)
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ’’ اگر دین محض انسانی رائے سے بنتا تو پھر مسح علی الخفین میں پاؤں کی نچلی جانب مسح کیا جاتااور یہ زیادہ درست تھا کہ پاؤں کے ظاہر والے حصے پر مسح کیا جائے۔ جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ موزو ں کے اوپر ظاہر والے حصہ پر مسح کرتے۔‘‘( سنن ابي داود، کتاب الطهارة، رقم: ۱۶۲۔ سنن دار قطني: ۱؍۲۷۶۔ بلوغ المرام، رقم : ۵۵۔ حافظ ابن حجر اور محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔)
مسح کی مدت:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
(( جَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ اَیَّامٍ وَلَیَالِیَهُنَّ لِلْمُسَافِرِ، وَیْوًماوَلَیْلَةً لِلْمُقِیْمِ۔)) (صحیح مسلم، کتاب الطهارة، رقم: ۲۷۶۔)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسافر کے لیے تین دن اور مقیم کے لیے ایک دن رات مسح کی مدت مقرر کی۔‘‘
نوٹ:....مسح کی مدت پہلے مسح سے شمار ہوگی۔ اگر جورابیں اور موزے پہن کر سفر شروع کردیا تو مسافر والی مدت تک مسح کریں اور اگر سفر میں مسح شروع کیا ہے اور گھر آگئے ہیں تو مقیم کی مدت تک مسح کریں گے، یعنی اگر مسح کرتے ہوئے مقیم کی مدت سے اوپر وقت ہوگیا ہے تو مسح نہ کریں۔ (الکافی لابن قدامة: ۱؍ ۸۰۔)
حالت جنابت میں مسح کا حکم:
جنبی ہونا مسح کی مدت ختم کردیتا ہے۔ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُنَا اِذَا کُنَّا سَفَرًا اَنْ لَا نَنْزِعَ خِفَافَنَا ثَـلَاثَةَ اَیَّامٍ وَلَیَالِیَهُنَّ إِلَّا مِنْ جَنَابَةٍ، وَلٰکِنْ مِنْ غَائِطٍ وَبَوْلٍ وَنَوْمٍ۔)) (سنن ترمذي، ابواب الطهارة، رقم: ۹۶۔ سنن نسائي، کتاب الطهارة، رقم: ۱۲۷۔ سنن ابن ماجة، رقم: ۴۷۸۔ إرواء الغلیل، رقم: ۱۰۴۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سفر میں تین دن رات تک پائخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اپنے موزے نہ اتاریں، لیکن جنبی ہونے پر اتارنے ہوں گے۔‘‘