كِتَابُ مَا رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ الْمَكِّيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أُذَاكِرُ عُمَرَ الصَّلَاةَ، فَأَتَى عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَشَكَّ فِي النُّقْصَانِ فَلْيُصَلِّ حَتَّى يَشُكَّ فِي الزِّيَادَةِ))
کتاب
وہ حدیث جسے عبد اللہ بن عباس نے عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے
سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے بارے میں مذاکرہ کر رہا تھا، اچانک ہمارے پاس عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم نے کہا، کیونکہ نہیں، انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اسے رکعات کم پڑھنے کا شک پڑجائے تو وہ نماز پڑھتا رہے حتیٰ کہ اسے زیادتی کا یقین ہوجائے۔ یعنی اسے یقین ہوجائے کہ زیادہ رکعات ہوگئی ہیں۔
تشریح :
اس حدیث شریف کی تکمیل و تتمہ اور مفہوم واضح کرنے کے لیے صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی۔ اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی چیز رونما ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیوں پوچھتے ہو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ نے اتنی اتنی نماز ادا فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنے پاؤں پھیرلیے اور قبلہ رو ہوگئے اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیر دیا۔ پھر ہماری جانب رخ زیبا متوجہ کرکے فرمایا:
((إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِيْ الصَّلَاةِ شَيْئٌ لَنَبَّأْتُکُمْ بِهِ وَلَکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ أَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي وَإِذَا شَكَّ أَحَدُکُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْیَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْیُتِمَّ عَلَیْهِ ثُمَّ لِیُسَلِّمْ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ))( صحیح بخاري، کتاب الصلاة، رقم : ۴۰۱، صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۱۲۷۴۔)
’’اگر نماز میں کوئی نئی چیز پیدا ہوتی تو میں تمھیں بتا دیتا، ایسی کوئی بات نہیں، لیکن یہ یاد رکھیں میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ میں بھی اسی طرح بھول جاتا ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد دہانی کروادیا کرو اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کا شکار ہوجائے تو درست صورت حال تک پہنچنے کی کوشش کرے، اس کے مطابق نماز مکمل کرلے، پھر دو سجدے کرے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں جو درستگی تلاش کرنے کا حکم ہوا ہے، اس سے مراد وہی بات ہے جسے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ نماز کو اگر ایک اور دو میں شبہ ہو تو ایک کو یقین سمجھے، اور دو اور تین میں شک ہو تو دو رکعت کو درست قرار دے، تین اور چار میں اگر اشتباہ پڑجائے تو تین کو یقین تصور کرے۔ اور نماز سے فارغ ہوکر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے سہو کے کرلے، اور یہ بھی اختیار ہے، سلام پھیر کر دو سجدے سہو کرلے، اور دوسری مرتبہ پھر سلام پھیرلے۔
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ نماز کی تکمیل کرے، پھر سلام پھیرے، پھر سجدے کرے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے اور کلام کرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے تھے۔
احمد، ابوداؤد اور نسائی نے حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے، جو کہ مرفوع ہے، ’’جسے اپنی نماز میں شک واقع ہوجائے وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرلے۔‘‘ (مسند أحمد : ۱۰؍۱۹۰، ۲۰۴، ۲۰۵، ۲۰۶، سنن ابي داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ۱۰۳۳، سنن نسائي، کتاب الإفتتاح، رقم : ۱۲۴۷، صحیح ابن خزیمة، رقم : ۱۰۲۲۔)
مسلم نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک لاحق ہوجائے، اسے یہ پتہ نہ رہے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں، چار، تو ایسی صورت میں شک کو نظر انداز کردے اور جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنا رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے، اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے انہیں (طاق رکعات کو) جفت بنا دیں گے، یعنی چھ رکعات بنادیں گے، اگر اس نے پوری پڑھی ہوگی تو یہ دو سجدے شیطان کے لیے ذلت و رسوائی ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۱۲۷۲۔)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جب نمازی کو رکعات کی تعداد میں اشتباہ پڑ جائے تو اسے کم پر بنا رکھنی چاہیے۔ اس میں یقین کا امکان ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نماز میں شک واقع ہونے کی صورت میں اسے تحرّی کرنی چاہیے۔ یعنی یاد کرنے کی انتہائی کوشش کرے۔ اگر گمانِ غالب کسی طرف ہوجائے تو اسی پر عمل کرے، اگر تحری کے باوجود دونوں اطراف مساوی نظر آئیں تو پھر کم پر بنا رکھے۔ دونوں باتوں میں وزن ہے تو کوئی بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔
تخریج :
مسند احمد : ۱؍۱۹۵، رقم : ۱۶۸۹، مصنف عبد الرزاق : ۲؍۳۰۷، رقم : ۳۴۷۶، مسند بزار، رقم : ۹۹۷، سنن دارقطني : ۱؍۳۶۹، سنن الکبریٰ للبیهقي : ۲؍۳۳۲۔
اس حدیث شریف کی تکمیل و تتمہ اور مفہوم واضح کرنے کے لیے صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، جب سلام پھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی گئی۔ اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نئی چیز رونما ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیوں پوچھتے ہو کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا: آپ نے اتنی اتنی نماز ادا فرمائی ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں اپنے پاؤں پھیرلیے اور قبلہ رو ہوگئے اور دو سجدے کیے، پھر سلام پھیر دیا۔ پھر ہماری جانب رخ زیبا متوجہ کرکے فرمایا:
((إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِيْ الصَّلَاةِ شَيْئٌ لَنَبَّأْتُکُمْ بِهِ وَلَکِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُکُمْ أَنْسَی کَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِیتُ فَذَکِّرُونِي وَإِذَا شَكَّ أَحَدُکُمْ فِي صَلَاتِهِ فَلْیَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْیُتِمَّ عَلَیْهِ ثُمَّ لِیُسَلِّمْ ثُمَّ یَسْجُدُ سَجْدَتَیْنِ))( صحیح بخاري، کتاب الصلاة، رقم : ۴۰۱، صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۱۲۷۴۔)
’’اگر نماز میں کوئی نئی چیز پیدا ہوتی تو میں تمھیں بتا دیتا، ایسی کوئی بات نہیں، لیکن یہ یاد رکھیں میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ میں بھی اسی طرح بھول جاتا ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، جب میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد دہانی کروادیا کرو اور جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں شک کا شکار ہوجائے تو درست صورت حال تک پہنچنے کی کوشش کرے، اس کے مطابق نماز مکمل کرلے، پھر دو سجدے کرے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں جو درستگی تلاش کرنے کا حکم ہوا ہے، اس سے مراد وہی بات ہے جسے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ نماز کو اگر ایک اور دو میں شبہ ہو تو ایک کو یقین سمجھے، اور دو اور تین میں شک ہو تو دو رکعت کو درست قرار دے، تین اور چار میں اگر اشتباہ پڑجائے تو تین کو یقین تصور کرے۔ اور نماز سے فارغ ہوکر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے سہو کے کرلے، اور یہ بھی اختیار ہے، سلام پھیر کر دو سجدے سہو کرلے، اور دوسری مرتبہ پھر سلام پھیرلے۔
بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ نماز کی تکمیل کرے، پھر سلام پھیرے، پھر سجدے کرے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرنے اور کلام کرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کیے تھے۔
احمد، ابوداؤد اور نسائی نے حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے، جو کہ مرفوع ہے، ’’جسے اپنی نماز میں شک واقع ہوجائے وہ سلام پھیرنے کے بعد دو سجدے کرلے۔‘‘ (مسند أحمد : ۱۰؍۱۹۰، ۲۰۴، ۲۰۵، ۲۰۶، سنن ابي داؤد، کتاب الصلاة، رقم : ۱۰۳۳، سنن نسائي، کتاب الإفتتاح، رقم : ۱۲۴۷، صحیح ابن خزیمة، رقم : ۱۰۲۲۔)
مسلم نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک لاحق ہوجائے، اسے یہ پتہ نہ رہے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں، چار، تو ایسی صورت میں شک کو نظر انداز کردے اور جس پر یقین ہو اس پر نماز کی بنا رکھے۔ پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے، اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہوں گی تو یہ سجدے انہیں (طاق رکعات کو) جفت بنا دیں گے، یعنی چھ رکعات بنادیں گے، اگر اس نے پوری پڑھی ہوگی تو یہ دو سجدے شیطان کے لیے ذلت و رسوائی ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : ۱۲۷۲۔)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جب نمازی کو رکعات کی تعداد میں اشتباہ پڑ جائے تو اسے کم پر بنا رکھنی چاہیے۔ اس میں یقین کا امکان ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی مذہب ہے۔ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نماز میں شک واقع ہونے کی صورت میں اسے تحرّی کرنی چاہیے۔ یعنی یاد کرنے کی انتہائی کوشش کرے۔ اگر گمانِ غالب کسی طرف ہوجائے تو اسی پر عمل کرے، اگر تحری کے باوجود دونوں اطراف مساوی نظر آئیں تو پھر کم پر بنا رکھے۔ دونوں باتوں میں وزن ہے تو کوئی بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔