مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 36

كِتَابُ الْمَشَايِخُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ بَجَالَةَ، يُحَدِّثُ أَبَا الشَّعْثَاءِ وَعَمْرَو بْنَ أَوْسٍ الثَّقَفِيَّ عَامَ حَجِّ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ وَهُوَ جَالِسٌ إِلَى دَرَجِ زَمْزَمَ سَنَةَ سَبْعِينَ قَالَ: كُنْتُ كَاتِبًا لِجَزْءِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَمِّ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، فَأَتَانَا كِتَابُ عُمَرَ قَبْلَ مَوْتِهِ بِسَنَةٍ اقْتُلُوا كُلَّ سَاحِرٍ وَكَاهِنٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَ كُلِّ ذِي مُحْرِمٍ مِنَ الْمَجُوسِ، وَامْنَعُوهُمْ مِنَ الزَّمْزَمَةِ، قَالَ: فَقَتَلْنَا ثَلَاثَةَ سَوَاحِرَ، وَفَرَّقْنَا بَيْنَ كُلِّ رَجُلٍ مِنَ الْمَجُوسِ وَحُرْمَتِهِ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَصَنَعَ طَعَامًا كَثِيرًا فَدَعَا مَجُوسَ وَعَرَضَ السَّيْفَ عَلَى فَخِذِهِ فَأَكَلُوا بِغَيْرِ زَمْزَمَةٍ وَأَلْقُوا وَقْرَ بَغْلٍ أَوْ بَغْلَيْنِ مِنْ وَرِقٍ وَلَمْ يَكُنْ عُمَرُ يَأْخُذُ مِنَ الْمَجُوسِ الْجِزْيَةِ حَتَّى شَهِدَ عِنْدَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم أَخَذَهَا مِنْ مَجُوسِ هَجَرَ

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 36

کتاب مشائخ کی عبد الرحمن سے روایت بجالۃ نے ابوشعثاء اور عمرو بن اوس ثقفی کو بیان کرتے ہوئے سنا اور یہ اس سال کا واقعہ ہے جس سال مصعب بن عمیر نے بصرہ والوں کے ساتھ حج کیا یعنی سن ۷۰ ہجری میں آپ رضی اللہ عنہ زمزم کی سیڑھی پر بیٹھے ہوئے تھے، کہتے ہیں ان دنوں میں جزء بن معاویہ احنف بن قیس کے چچا کا کاتب تھا تو عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے ایک سال قبل اُن کا خط آیا کہ ہر جادوگر اور کاہن کو قتل کردو اور جس مجوسی نے اپنی محرم عورت کو بیوی بنایا ہو تو ان کے درمیان جدائی ڈال دو اور زمزم سے انہیں روکو، کہتے ہیں کہ کہا: ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا اور ہر مجوسی آدمی اور کتاب اللہ کے مطابق اس کی ذی محرم بیوی کے درمیان جدائی ڈالی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجوسیوں سے جزیہ نہیں لیا تھا، لیکن جب عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے پارسیوں سے جزیہ لیا تھا۔ (تو وہ بھی لینے لگے تھے)
تشریح : 1۔....حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جادو کفر ہے اور اس کا سیکھنے والا کافر ہے۔( فتح الباری : ۱۰؍۲۲۴۔) 2۔....ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ قتل کردیا جائے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وہ جادوگر جو جھاڑو پر سوار ہوجائے اور ہوا میں لہرائے اس طرح کرتب دکھانے کے سبب وہ کافر ہے اسے قتل کردیا جائے۔ (المغنی ابن قدامة : ۳؍۵۲۳۔) 3۔....مجوسیوں میں محرم سے نکاح کرنا جائز تھا۔ مثلاً وہ بہن بیٹی سے نکاح کرلیتے تھے، تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس قبیح فعل کو اپنے زمانے میں ختم کروادیا۔( دیکھئے تفصیل کے لیے: احکام ابن حزم : ۱؍۱۵۵، تنقیح الرواة : ۳؍۱۷۸۔) 4۔....معلوم ہوا کہ پارسیوں کو بھی حکم اہل کتاب کا سا ہے۔ امام شافعی اور عبد الرزاق نے نکالا کہ پارسی اہل کتاب تھے، پھر ان کے سردار نے بدتمیزی کی، اپنی بہن سے صحبت کی اور دوسروں کو بھی سمجھایا کہ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ آدم علیہ السلام اپنی لڑکیوں کا نکاح اپنے لڑکوں سے کردیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا کہنا مانا اور جنہوں نے انکار کیا، ان کو اس نے مار ڈالا۔ آخر ان کی کتاب مٹ گئی اور حدیث میں واضح آیا ہے کہ پارسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا سلوک کرو۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الخمس، باب الجزیة والموادعة، رقم : ۳۱۵۶، سنن ابي داود، کتاب الخراج، باب فی اخذ الجزیة من المجوس، رقم : ۳۰۴۳، مسند احمد : ۱؍۱۹۰، مسند ابي یعلی، رقم : ۸۶۰۔ 1۔....حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۰۲ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جادو کفر ہے اور اس کا سیکھنے والا کافر ہے۔( فتح الباری : ۱۰؍۲۲۴۔) 2۔....ایسے لوگوں کی سزا یہ ہے کہ قتل کردیا جائے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں وہ جادوگر جو جھاڑو پر سوار ہوجائے اور ہوا میں لہرائے اس طرح کرتب دکھانے کے سبب وہ کافر ہے اسے قتل کردیا جائے۔ (المغنی ابن قدامة : ۳؍۵۲۳۔) 3۔....مجوسیوں میں محرم سے نکاح کرنا جائز تھا۔ مثلاً وہ بہن بیٹی سے نکاح کرلیتے تھے، تو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس قبیح فعل کو اپنے زمانے میں ختم کروادیا۔( دیکھئے تفصیل کے لیے: احکام ابن حزم : ۱؍۱۵۵، تنقیح الرواة : ۳؍۱۷۸۔) 4۔....معلوم ہوا کہ پارسیوں کو بھی حکم اہل کتاب کا سا ہے۔ امام شافعی اور عبد الرزاق نے نکالا کہ پارسی اہل کتاب تھے، پھر ان کے سردار نے بدتمیزی کی، اپنی بہن سے صحبت کی اور دوسروں کو بھی سمجھایا کہ اس میں کوئی ممانعت نہیں۔ آدم علیہ السلام اپنی لڑکیوں کا نکاح اپنے لڑکوں سے کردیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا کہنا مانا اور جنہوں نے انکار کیا، ان کو اس نے مار ڈالا۔ آخر ان کی کتاب مٹ گئی اور حدیث میں واضح آیا ہے کہ پارسیوں کے ساتھ اہل کتاب کا سا سلوک کرو۔