كِتَابُ الْمَشَايِخُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَ عُمَرُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ عَنِ الْمَجُوسِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يَقُولُ: سُنُّوا بِهِمْ سُنَّةَ أَهْلِ الْكِتَابِ
کتاب
مشائخ کی عبد الرحمن سے روایت
جناب جعفر نے اپنے باپ محمد سے بیان کیا، انہوں نے کہا: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مجوسیوں کے بارے میں پوچھا (کہ اُن کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟) تو انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا: ان سے اہل کتاب والا معاملہ کرو۔
تشریح :
اس حدیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں :
1۔....مجوسیوں سے جزیہ وصول کرنے کی دلیل ملتی ہے۔ ’’جزیہ‘‘ اس مال کو کہتے ہیں جو اہل کتاب اور دیگر کفار سالانہ مسلمانوں کو اس عوض میں دیتے ہیں کہ مسلمان ان سے قتال نہیں کریں گے، اور مسلمانوں کے درمیان انہیں رہنے کی اجازت دی جائے گی، ان کی جانیں اور ان کا مال محفوظ رہے گا اور اس کی مقدار مالدار، متوسط اور فقیر کے اعتبار سے گھٹتی بڑھتی ہے، جس کی تعیین مسلمان حاکم یا اس کا نمائندہ کرے گا۔
علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے گا یا دوسرے کافروں سے بھی، ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور سفیان ثوری کا خیال ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا، یہ لوگ مجوس کو بھی اہل کتاب میں شمار کرتے ہیں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا اور مالک اور اوزاعی کی رائے ہے کہ تمام کافروں سے جزیہ لیا جائے گا۔
2۔....ابوعبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل کتاب سے جزیہ لینا نص قرآنی سے ثابت ہے جبکہ مجوسیوں سے جزیہ لینا سنت سے ثابت ہے۔( نیل الأوطار : ۸؍۶۵۔)
3۔....حضرت عمر رضی اللہ عنہ جزیہ وصول نہیں کرتے تھے مگر جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی تو جزیہ لینا شروع کردیا۔ معلوم ہوا کہ خبر واحد حجت ہے، یقین کا فائدہ دیتی ہے۔
جزیہ کے بارے میں ایک غیر مسلم کا تجزیہ:
جان بیگٹ المعروف ’’جنرل گلپ پاشا‘‘ ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے طویل عرصہ تک عرب ممالک میں رہے۔ اس دوران انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح حقائق جاننے کا موقع فراہم ہوا۔ تب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب "The life and times of Muhammad" لکھی، چنانچہ اس کتاب میں موصوف آخری باب میں دین اسلام کی اشاعت اور حیرت انگیز ترقی پر تفصیلی تبصرہ اور اسلام کی اشاعت کے حقائق و اسباب بیان کرتے ہوئے ’’اسلام کا پھیلاؤ بحیثیت مذہب‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
مختلف دور میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے جزیے وصول کیے گئے جزیے کی متعینہ رقم میں حالات کے لحاظ سے کمی بیشی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے ہمارے واسطے یہ مشکل ہے کہ جزیہ کی شرح کو یہاں پاؤنڈ اور پنس کے حساب سے پیش کریں۔ عام طور پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر آدمی کو دو پاؤنڈ یا ۵ ڈالر جزیہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اگر اس کا پانچ یا دس گنا بھی انہیں دینا پڑتا تو یہ اتنی بڑی رقم نہیں تھی کہ وہ ادا نہ کرسکتے ہوں۔ یہ جزیہ صرف مردوں سے وصول کیا جاتا تھا۔ محتاجوں، راہبوں اور چرچ میں رہنے والوں سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ جزیے سے مستثنیٰ قرار دیے گئے تھے اس معمولی اور حقیر رقم کو جزیے کے طور پر ادا کردینے کے بعد عیسائی اور یہودی فوجی خدمات کی ادائیگی سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرلیتے تھے صرف مسلمانوں کے فرائض میں فوجی خدمات شامل تھیں۔
جزیے کے طور پر ایک معمولی رقم ادا کردینے کے بعد فوجی خدمات سے چھٹی پاجانا یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے واقعی ایک سستا سودا تھا۔ جزیہ وصول کرنے کے بعد مسلمانوں کا یہ فرض بن جاتا تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے جان و مال کی حفاظت کریں۔ مسلمانوں کے ذمے فوجی فرائض کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی تھا۔ یہودی اور عیسائی زکوٰۃ سے مستثنیٰ تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہودیوں اور نصرانیوں کے ساتھ خاصی رعایت کی جاتی تھی۔ مالی اعتبار سے بھی ان کا جزیہ مسلمانوں کی زکوٰۃ کے مقابلے میں انفرادی طور پر بہت ہی کم ہوتا تھا۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے شہریوں کے ہتھیار ڈال دینے کو قبول کرلینے کے بعد ان کو اپنے خط میں لکھا کہ اگر ہم تمہاری حفاظت کریں تو تمہارے لیے جزیہ واجب الادا ہوگا۔ اگر ہم تمہاری حفاظت نہ کرسکیں تو تم کو جزیہ دینے کی ضرورت نہیں۔
واقعہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے حفاظت کرنے کے فرض کو انتہائی خوش اسلوبی اور دیانتداری کے ساتھ نبھایا۔ ۶۳۵ء میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کیا۔ شام کے ایک بڑے حصے کو بغیر لڑائی کے اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہاں کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کیا۔ مسلمانوں کے اس قبضہ کرنے کے دوسرے ہی سال بیزنطینیوں کی ایک تازہ دم فوج نے عربوں کو شام چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ شام چھوڑنے سے پہلے مسلمانوں کے کمانڈر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جن ذمیوں سے جزیہ وصول کیا ہے وہ سب کا سب ان کو لوٹا دیا جائے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عربوں نے یہ جزیہ ذمیوں کی جان و مال کی حفاظت کے بدلے میں وصول کیا تھا۔ اب چونکہ مسلمان شام کے ذمیوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اس لیے جمع کیا ہوا جزیہ واپس کردیا جائے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی واقعہ اس نوعیت کا ہو کہ کسی حکومت نے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہ ہوسکنے کی وجہ سے عوام سے وصول کیے ہوئے ٹیکس کو عوام میں پھر سے لوٹا دیا ہو۔
آغاز اسلام سے قبل صحرائے شام کے بہت سے بدوی قبائل عیسائیت کو اپنا مذہب بنائے ہوئے تھے۔ جب مسلمانوں نے شام اور عراق پر حملہ کیا تو شام کے یہ عیسائی عرب مسلمانوں کی طرف سے لڑنے لگے اس لیے کہ ان کا طرز زندگی عربوں سے ملتا جلتا تھا۔ ان کی زبان عربی تھی۔ جب مسلمانوں کی طرف سے اہل کتاب بھی جنگ میں حصہ لیتے تو ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ ان کو اپنا مذہب بدلنے کے لیے بھی نہیں کہا جاتا تھا۔( تلخیص: محمد رسول اللہ، ترجمہ The life and times of Muhammad، ص : ۵۱۸، ۵۵۱۔)
تخریج :
مسند شافعي : ۱؍۲۰۹: ۱۰۰۸، مصنف ابن ابی شیبة : ۶؍۴۳۰: ۳۲۶۵۱، مصنف عبد الرزاق : ۶؍۶۸۔ ۶۹؍ ۱۰۰۲۵، مسند أبي یعلی : ۲؍۱۶۸؍۸۶۲۔
اس حدیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں :
1۔....مجوسیوں سے جزیہ وصول کرنے کی دلیل ملتی ہے۔ ’’جزیہ‘‘ اس مال کو کہتے ہیں جو اہل کتاب اور دیگر کفار سالانہ مسلمانوں کو اس عوض میں دیتے ہیں کہ مسلمان ان سے قتال نہیں کریں گے، اور مسلمانوں کے درمیان انہیں رہنے کی اجازت دی جائے گی، ان کی جانیں اور ان کا مال محفوظ رہے گا اور اس کی مقدار مالدار، متوسط اور فقیر کے اعتبار سے گھٹتی بڑھتی ہے، جس کی تعیین مسلمان حاکم یا اس کا نمائندہ کرے گا۔
علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے گا یا دوسرے کافروں سے بھی، ابوحنیفہ، شافعی، احمد اور سفیان ثوری کا خیال ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا، یہ لوگ مجوس کو بھی اہل کتاب میں شمار کرتے ہیں، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ہجر‘‘ کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا اور مالک اور اوزاعی کی رائے ہے کہ تمام کافروں سے جزیہ لیا جائے گا۔
2۔....ابوعبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اہل کتاب سے جزیہ لینا نص قرآنی سے ثابت ہے جبکہ مجوسیوں سے جزیہ لینا سنت سے ثابت ہے۔( نیل الأوطار : ۸؍۶۵۔)
3۔....حضرت عمر رضی اللہ عنہ جزیہ وصول نہیں کرتے تھے مگر جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی تو جزیہ لینا شروع کردیا۔ معلوم ہوا کہ خبر واحد حجت ہے، یقین کا فائدہ دیتی ہے۔
جزیہ کے بارے میں ایک غیر مسلم کا تجزیہ:
جان بیگٹ المعروف ’’جنرل گلپ پاشا‘‘ ایک فوجی جنرل کی حیثیت سے طویل عرصہ تک عرب ممالک میں رہے۔ اس دوران انہیں اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں واضح حقائق جاننے کا موقع فراہم ہوا۔ تب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر ایک کتاب "The life and times of Muhammad" لکھی، چنانچہ اس کتاب میں موصوف آخری باب میں دین اسلام کی اشاعت اور حیرت انگیز ترقی پر تفصیلی تبصرہ اور اسلام کی اشاعت کے حقائق و اسباب بیان کرتے ہوئے ’’اسلام کا پھیلاؤ بحیثیت مذہب‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
مختلف دور میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے جزیے وصول کیے گئے جزیے کی متعینہ رقم میں حالات کے لحاظ سے کمی بیشی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے ہمارے واسطے یہ مشکل ہے کہ جزیہ کی شرح کو یہاں پاؤنڈ اور پنس کے حساب سے پیش کریں۔ عام طور پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر آدمی کو دو پاؤنڈ یا ۵ ڈالر جزیہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اگر اس کا پانچ یا دس گنا بھی انہیں دینا پڑتا تو یہ اتنی بڑی رقم نہیں تھی کہ وہ ادا نہ کرسکتے ہوں۔ یہ جزیہ صرف مردوں سے وصول کیا جاتا تھا۔ محتاجوں، راہبوں اور چرچ میں رہنے والوں سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ جزیے سے مستثنیٰ قرار دیے گئے تھے اس معمولی اور حقیر رقم کو جزیے کے طور پر ادا کردینے کے بعد عیسائی اور یہودی فوجی خدمات کی ادائیگی سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرلیتے تھے صرف مسلمانوں کے فرائض میں فوجی خدمات شامل تھیں۔
جزیے کے طور پر ایک معمولی رقم ادا کردینے کے بعد فوجی خدمات سے چھٹی پاجانا یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے واقعی ایک سستا سودا تھا۔ جزیہ وصول کرنے کے بعد مسلمانوں کا یہ فرض بن جاتا تھا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے جان و مال کی حفاظت کریں۔ مسلمانوں کے ذمے فوجی فرائض کے علاوہ زکوٰۃ کی ادائیگی بھی تھا۔ یہودی اور عیسائی زکوٰۃ سے مستثنیٰ تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہودیوں اور نصرانیوں کے ساتھ خاصی رعایت کی جاتی تھی۔ مالی اعتبار سے بھی ان کا جزیہ مسلمانوں کی زکوٰۃ کے مقابلے میں انفرادی طور پر بہت ہی کم ہوتا تھا۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے شہریوں کے ہتھیار ڈال دینے کو قبول کرلینے کے بعد ان کو اپنے خط میں لکھا کہ اگر ہم تمہاری حفاظت کریں تو تمہارے لیے جزیہ واجب الادا ہوگا۔ اگر ہم تمہاری حفاظت نہ کرسکیں تو تم کو جزیہ دینے کی ضرورت نہیں۔
واقعہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے حفاظت کرنے کے فرض کو انتہائی خوش اسلوبی اور دیانتداری کے ساتھ نبھایا۔ ۶۳۵ء میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کیا۔ شام کے ایک بڑے حصے کو بغیر لڑائی کے اپنے قبضے میں لے لیا۔ وہاں کے عیسائیوں سے جزیہ وصول کیا۔ مسلمانوں کے اس قبضہ کرنے کے دوسرے ہی سال بیزنطینیوں کی ایک تازہ دم فوج نے عربوں کو شام چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ شام چھوڑنے سے پہلے مسلمانوں کے کمانڈر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جن ذمیوں سے جزیہ وصول کیا ہے وہ سب کا سب ان کو لوٹا دیا جائے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عربوں نے یہ جزیہ ذمیوں کی جان و مال کی حفاظت کے بدلے میں وصول کیا تھا۔ اب چونکہ مسلمان شام کے ذمیوں کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اس لیے جمع کیا ہوا جزیہ واپس کردیا جائے۔
مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی واقعہ اس نوعیت کا ہو کہ کسی حکومت نے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے عہدہ برا نہ ہوسکنے کی وجہ سے عوام سے وصول کیے ہوئے ٹیکس کو عوام میں پھر سے لوٹا دیا ہو۔
آغاز اسلام سے قبل صحرائے شام کے بہت سے بدوی قبائل عیسائیت کو اپنا مذہب بنائے ہوئے تھے۔ جب مسلمانوں نے شام اور عراق پر حملہ کیا تو شام کے یہ عیسائی عرب مسلمانوں کی طرف سے لڑنے لگے اس لیے کہ ان کا طرز زندگی عربوں سے ملتا جلتا تھا۔ ان کی زبان عربی تھی۔ جب مسلمانوں کی طرف سے اہل کتاب بھی جنگ میں حصہ لیتے تو ان سے جزیہ نہیں لیا جاتا تھا۔ ان کو اپنا مذہب بدلنے کے لیے بھی نہیں کہا جاتا تھا۔( تلخیص: محمد رسول اللہ، ترجمہ The life and times of Muhammad، ص : ۵۱۸، ۵۵۱۔)