كِتَابُ حَدِيثُ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنِ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ: كَيْفَ صَنَعْتَ فِي اسْتِلَامِكَ الْحَجَرَ؟ قَالَ: اسْتَلَمْتُ وَتَرَكَتُ قَالَ: أَصَبْتَ
کتاب
عروہ بن زبیر کی عبد الرحمن سے روایت کردہ حدیث
جناب عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت عبد الرحمن سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: تم نے حجر اسود کے چھونے کے بارے میں کیسے کیا؟ میں نے عرض کیا: میں نے کبھی چھو لیا اور کبھی چھوڑ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے ٹھیک کیا۔
تشریح :
امام ابن حبان نے اس حدیث کو کتاب الحج میں بیان کیا ہے اور اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
’’ذِکْرُ الْاِبَاحَةِ لِلطَّائِفِ حَوْلَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ اسْتِلَامَ الْحَجَرِ وَتَرْکَهُ مَعًا‘‘
’’بیت عتیق کے گرد طواف کرنے والے کے لیے ایک ہی وقت میں حجر (اسود) کو چھونے اور نہ چھونے کے جواز کا ذکر۔‘‘
تفصیل: حج و عمرہ کی ایک آسانی یہ ہے کہ طواف کرنے والے کو حجر اسود کو بوسہ دینے، چھونے اور اشارہ کرنے میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ صورتیں اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ کسی ایک کیفیت پر عمل کرنے کی پابندی نہیں۔ ذیل میں اس بارے میں مزید چھ روایات ملاحظہ فرمائیے:
1۔....امام ابوداؤد طیالسی نے جعفر بن عثمان قرشی سے، جو کہ اہل مکہ میں سے تھے، روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں نے محمد بن عباد بن جعفر کو دیکھا کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس پر سجدہ کیا۔‘‘
پھر انہوں نے کہا: ’’میں نے تمہارے ماموں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اسے بوسے دیتے اور اس پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ’’میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اسے بوسہ دیتے اور اس پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
((لَوْ لَمْ أَرَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهُ مَا قَبَّلْتُهُ))( مسند أبي داؤد الطیالسي، ۱؍۳۲، رقم : ۲۸۔)
’’اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چومتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی اسے نہ چومتا۔‘‘
معلوم ہوا کہ حجرے اسود پر سجدہ کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
2۔....امام بخاری نے زبیر بن عربی سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر (اسود) کو چھونے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
((رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَلِمُهُ وَیُقَبِّلُهُ۔))( صحیح بخاري، کتاب الحج، رقم : ۱۶۱۱۔)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور چومتے ہوئے دیکھا۔‘‘
3۔....امام بخاری نے اسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجر (اسود) کو چومتے ہوئے دیکھا۔‘‘
اور (پھر) انہوں نے فرمایا:
((لَوْلَا أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ۔))( أیضًا، رقم الحدیث : ۱۶۱۰۔)
’’اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
امام بخاری نے اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:
[بَابُ تَقْبِیْلِ الْحَجَرِ]( أیضًا، ۳؍۴۷۵۔)
’’حجر (اسود) کو بوسہ دینے کا بیان۔‘‘
4۔....امام ابن حبان نے نافع سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت نقل کی ہے:
((اَنَّهُ اِسْتَلَمَ الْحَجَرَ، ثُمَّ قَبَّلَ یَدَهُ))
’’بے شک انہوں نے حجر (اسود) کو (اپنے ہاتھ سے) چھوا، پھر اپنے ہاتھ کو چوما۔‘‘
اور فرمایا:
((مَا تَرَکْتُهُ مُنْذُ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُهُ۔))( الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، رقم : ۳۸۲۴۔)
’’جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے (حجر اسود کو چھونے والے ہاتھ کو) چومتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے (حجر اسود کو چھونے والے اپنے ہاتھ کا بوسہ) نہیں چھوڑا۔‘‘
امام ابن حبان نے اس پر درج ذیل عنوان قلم بند کیا ہے:
((ذِکْرُ الْاِبَاحَةِ لِمُسْتَلِمِ الْحَجَرِ فِيْ الطَّوَافِ أَنْ یُقَبِّلَ یَدَهُ بَعْدَ اسْتِلَامِهِ إِیَّاهُ۔))( أیضًا، ۹؍۱۳۲۔)
’’طواف میں حجر (اسود) کو چھونے والے کے لیے اسے چھونے کے بعد اپنے ہاتھ کو بوسہ دینے کے جواز کا ذکر۔‘‘
5۔....امام مسلم نے حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں :
((رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ، وَیَسْتَلِمُ الرُّکْنَ بِمِحْجَنٍ مَعَهُ، وَیُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ۔))( صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۲۵۷۔)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت (اللہ) کا طواف کرتے ہوئے حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھوتے اور چھڑی کو چومتے ہوئے دیکھا۔‘‘
امام نووی نے دیگر احادیث کے ساتھ اس حدیث پر درجِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
((بَابُ جَوَازِ الطَّوَافِ عَلٰی بَعِیْرٍ وَغَیْرِہٖ وَاسْتِلَامِ الْحَجَرِ بِمِحْجَنٍ وَغَیْرِہِ لِلرَّاکِبِ۔))
’’اونٹ وغیرہ پر سوار ہوکر طواف کرنے اور سوار کے لیے حجر (اسود) کو چھڑی وغیرہ سے چھونے کے جواز کا بیان۔‘‘
6۔....امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
((طَافَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ عَلٰی بَعِیْرٍ، کُلُّمَا أَتَی عَلَی الرُّکْنِ أَشَارَ إِلَیْهِ۔))( صحیح بخاري، کتاب الحج، رقم : ۱۶۱۷۔)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت (اللہ) کا طواف اونٹ پر کیا، جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس آتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے۔‘‘
امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:
((بَابُ مَنْ أَشَارَ اِلَی الرُّکْنِ إِذَا أَتَی عَلَیْهِ۔))( أیضًا۔)
’’حجر اسود کے پاس آکر اشارہ کرنے والے شخص کا بیان۔‘‘
خلاصۃ البحث:
مذکورہ بالا روایات سے حجر اسود کے متعلق درج ذیل سات باتیں معلوم ہوتی ہیں :
1۔ اس پر سجدہ کرنا اور اسے بوسہ دینا۔
2۔ اسے ہاتھ سے چھونا اور بوسہ دینا۔
3۔ اسے بوسہ دینا۔
4۔ اسے ہاتھ سے چھو کر چھونے والے ہاتھ کو چومنا۔
5۔ اسے چھڑی سے چھو کر چھڑی کو چومنا۔
6۔ اس کی طرف دور سے اشارہ کرنا۔
7۔ ایک ہی طواف کے بعض چکروں میں ہاتھ سے چھونا اور بعض سے نہ چھونا۔
اللہ کریم کی جانب سے طواف کرنے والوں کے لیے آسانی اور عنایت ہے کہ ان سب ساتوں صورتوں میں سے ہر ایک جائز اور درست ہے۔
تخریج :
صحیح ابن حبان، رقم : ۳۸۲۳، قال شعیب الارنووط: اسنادہ صححیح۔
امام ابن حبان نے اس حدیث کو کتاب الحج میں بیان کیا ہے اور اس پر درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
’’ذِکْرُ الْاِبَاحَةِ لِلطَّائِفِ حَوْلَ الْبَیْتِ الْعَتِیْقِ اسْتِلَامَ الْحَجَرِ وَتَرْکَهُ مَعًا‘‘
’’بیت عتیق کے گرد طواف کرنے والے کے لیے ایک ہی وقت میں حجر (اسود) کو چھونے اور نہ چھونے کے جواز کا ذکر۔‘‘
تفصیل: حج و عمرہ کی ایک آسانی یہ ہے کہ طواف کرنے والے کو حجر اسود کو بوسہ دینے، چھونے اور اشارہ کرنے میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ صورتیں اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ کسی ایک کیفیت پر عمل کرنے کی پابندی نہیں۔ ذیل میں اس بارے میں مزید چھ روایات ملاحظہ فرمائیے:
1۔....امام ابوداؤد طیالسی نے جعفر بن عثمان قرشی سے، جو کہ اہل مکہ میں سے تھے، روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
’’میں نے محمد بن عباد بن جعفر کو دیکھا کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس پر سجدہ کیا۔‘‘
پھر انہوں نے کہا: ’’میں نے تمہارے ماموں ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اسے بوسے دیتے اور اس پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ’’میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اسے بوسہ دیتے اور اس پر سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
((لَوْ لَمْ أَرَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَهُ مَا قَبَّلْتُهُ))( مسند أبي داؤد الطیالسي، ۱؍۳۲، رقم : ۲۸۔)
’’اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چومتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی اسے نہ چومتا۔‘‘
معلوم ہوا کہ حجرے اسود پر سجدہ کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
2۔....امام بخاری نے زبیر بن عربی سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر (اسود) کو چھونے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
((رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَلِمُهُ وَیُقَبِّلُهُ۔))( صحیح بخاري، کتاب الحج، رقم : ۱۶۱۱۔)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور چومتے ہوئے دیکھا۔‘‘
3۔....امام بخاری نے اسلم سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حجر (اسود) کو چومتے ہوئے دیکھا۔‘‘
اور (پھر) انہوں نے فرمایا:
((لَوْلَا أَنِّیْ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ۔))( أیضًا، رقم الحدیث : ۱۶۱۰۔)
’’اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں بھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘
امام بخاری نے اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:
[بَابُ تَقْبِیْلِ الْحَجَرِ]( أیضًا، ۳؍۴۷۵۔)
’’حجر (اسود) کو بوسہ دینے کا بیان۔‘‘
4۔....امام ابن حبان نے نافع سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت نقل کی ہے:
((اَنَّهُ اِسْتَلَمَ الْحَجَرَ، ثُمَّ قَبَّلَ یَدَهُ))
’’بے شک انہوں نے حجر (اسود) کو (اپنے ہاتھ سے) چھوا، پھر اپنے ہاتھ کو چوما۔‘‘
اور فرمایا:
((مَا تَرَکْتُهُ مُنْذُ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُهُ۔))( الإحسان فی تقریب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، رقم : ۳۸۲۴۔)
’’جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے (حجر اسود کو چھونے والے ہاتھ کو) چومتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے اسے (حجر اسود کو چھونے والے اپنے ہاتھ کا بوسہ) نہیں چھوڑا۔‘‘
امام ابن حبان نے اس پر درج ذیل عنوان قلم بند کیا ہے:
((ذِکْرُ الْاِبَاحَةِ لِمُسْتَلِمِ الْحَجَرِ فِيْ الطَّوَافِ أَنْ یُقَبِّلَ یَدَهُ بَعْدَ اسْتِلَامِهِ إِیَّاهُ۔))( أیضًا، ۹؍۱۳۲۔)
’’طواف میں حجر (اسود) کو چھونے والے کے لیے اسے چھونے کے بعد اپنے ہاتھ کو بوسہ دینے کے جواز کا ذکر۔‘‘
5۔....امام مسلم نے حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں :
((رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ، وَیَسْتَلِمُ الرُّکْنَ بِمِحْجَنٍ مَعَهُ، وَیُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ۔))( صحیح مسلم، کتاب الحج، رقم : ۲۵۷۔)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت (اللہ) کا طواف کرتے ہوئے حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھوتے اور چھڑی کو چومتے ہوئے دیکھا۔‘‘
امام نووی نے دیگر احادیث کے ساتھ اس حدیث پر درجِ ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
((بَابُ جَوَازِ الطَّوَافِ عَلٰی بَعِیْرٍ وَغَیْرِہٖ وَاسْتِلَامِ الْحَجَرِ بِمِحْجَنٍ وَغَیْرِہِ لِلرَّاکِبِ۔))
’’اونٹ وغیرہ پر سوار ہوکر طواف کرنے اور سوار کے لیے حجر (اسود) کو چھڑی وغیرہ سے چھونے کے جواز کا بیان۔‘‘
6۔....امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
((طَافَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَیْتِ عَلٰی بَعِیْرٍ، کُلُّمَا أَتَی عَلَی الرُّکْنِ أَشَارَ إِلَیْهِ۔))( صحیح بخاري، کتاب الحج، رقم : ۱۶۱۷۔)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت (اللہ) کا طواف اونٹ پر کیا، جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس آتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے۔‘‘
امام بخاری نے اس پر درج ذیل عنوان قائم کیا ہے:
((بَابُ مَنْ أَشَارَ اِلَی الرُّکْنِ إِذَا أَتَی عَلَیْهِ۔))( أیضًا۔)
’’حجر اسود کے پاس آکر اشارہ کرنے والے شخص کا بیان۔‘‘
خلاصۃ البحث:
مذکورہ بالا روایات سے حجر اسود کے متعلق درج ذیل سات باتیں معلوم ہوتی ہیں :
1۔ اس پر سجدہ کرنا اور اسے بوسہ دینا۔
2۔ اسے ہاتھ سے چھونا اور بوسہ دینا۔
3۔ اسے بوسہ دینا۔
4۔ اسے ہاتھ سے چھو کر چھونے والے ہاتھ کو چومنا۔
5۔ اسے چھڑی سے چھو کر چھڑی کو چومنا۔
6۔ اس کی طرف دور سے اشارہ کرنا۔
7۔ ایک ہی طواف کے بعض چکروں میں ہاتھ سے چھونا اور بعض سے نہ چھونا۔
اللہ کریم کی جانب سے طواف کرنے والوں کے لیے آسانی اور عنایت ہے کہ ان سب ساتوں صورتوں میں سے ہر ایک جائز اور درست ہے۔