كِتَابُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: كَانَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ لِي صَدِيقًا بِمَكَّةَ، وَكَانَ اسْمِي عَبْدُ عَمْرٍو، وَتَسَمَّيْتُ حِينَ أَسْلَمْتُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ يَلْقَانِي بِمَكَّةَ فَيَقُولُ: أَرَغِبْتَ عَنِ اسْمٍ سَمَّاكَهُ أَبَوَاكَ، فَأَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَاجْعَلْ بَيْنِي وَبَينَكَ شَيْئًا أَدْعُوكَ بِهِ، أَمَّا أَنْتَ فَلَا تُجِبْنِي بِاسْمِكَ الْأُوَّلَ، وَأَمَّا أَنَا فَلَا أَدْعُوكَ بِمَا لَا أَعْرِفُ، قَالَ: قُلْتُ فَاجْعَلْ يَا أَبَا عَلِيٍّ مَا شِئْتَ، قَالَ: فَأَنْتَ عَبْدُ الْإِلَهِ حَتَّى إِذَا كَانَ يَومُ بَدْرٍ مَرَرْتُ بِهِ وَهُوَ وَاقِفٌ مَعَهُ ابْنُهُ عَلِيٌّ آخِذٌ بِيَدِهِ قَالَ: وَمَعِي أَدْرَاعٌ قَدِ اسْتَلَبْتُهَا فَأَنَا أَحْمِلُهَا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: يَا عَبْدَ عَمْرٍو، فَلَمْ أُجِبْهُ، قَالَ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ لَكَ، فَإِنَّكُمْ خَيْرٌ لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأَدْرَاعِ الَّتِي مَعَكَ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ هَؤُلَاءِ خَيْرٌ، إِذَنْ فَقَالَ: فَطَرَحَتُ الْأَدْرَاعَ مِنْ يَدِي فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَبِيَدِ ابْنِهِ وَهُوَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَومِ أَمَا لَكُمْ حَاجَةٌ فِي اللَّبَنِ؟ قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ أَمْشِي بِهِمَا
کتاب
عبد الرحمن بن ابی بکر کی حدیث
عبد الرحمن بن ابی بکر وغیرہ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ: امیہ بن خلف مکہ میں میرا دوست تھا اور دور جاہلیت میں میرا نام عبد عمرو تھا، جب میں مسلمان ہوا تو اپنا نام تبدیل کرکے عبد الرحمن رکھ لیا، وہ مجھے مکہ میں ملتا تو مجھے کہتا: کیا تو اس نام کو اچھا نہیں جانتا جو تیرے والدین نے تیرا نام رکھا تھا، میں کہتا: جی ہاں، تو وہ کہتا: پس میں عبد الرحمن کو نہیں جانتا۔ بس مجھے کوئی خاص نام بتادو جس سے میں تجھے پکارا کروں۔ پتا نہیں کہ تجھے کیا ہے کہ اگر تیرا نام عبد عمرو پکاروں تو تُو مجھے جواب ہی نہیں دیتا، اور مجھے بھی کوئی مصیبت نہیں آن پڑی کہ میں تجھے ایسے نام سے پکاروں جسے میں پہچانتا ہی نہیں ؟ فرماتے ہیں : میں نے کہا: اے ابوعلی! جو تو چاہتا ہے وہ رکھ لے، اس نے کہا: میں تجھے ’’عبد الالہ‘‘ کہہ کے پکارا کروں گا (یعنی اس نے آپ کا نام عبد الالہ رکھ دیا) غزوہ بدر کے دن میں اس کے قریب سے گزرا اس وقت وہ اپنے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ اور میرے پاس کچھ زرہیں تھیں جنہیں میں نے کافروں سے چھینا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو کہا: اے عبد عمرو، میں نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے کہا: اے عبدالالہ، میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: میں تمہارے لیے ان زرہوں سے زیادہ بہتر ہوں، میں نے کہا: ہاں، تو میں نے اپنے ہاتھ سے زرہیں پھینک دیں اور اس کا اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑلیا۔
تشریح :
اس حدیث سے درج ذیل مسائل مستفاد ہیں :
1۔....اچھا نام رکھا جائے۔ ایک ایسا نام جس میں شکر الٰہی کا اظہار ہو اور مسمٰی کی شخصیت کا آئینہ ہو۔ اس کے دین و مذہب کا پرتو ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم روز قیامت اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ لہٰذا اپنے نام اچھے رکھو۔( سنن ابي داود، کتاب الادب : ۴؍۴۴۳۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے اچھے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں اور سب سے سچے نام حارث و ہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب (جنگ) اور مُرہ (کڑوا) ہیں۔( سنن ابي داود، کتاب الادب : ۴؍۴۴۳۔)
انبیاء و رسل اللہ تعالیٰ کی عظیم اور برگزیدہ ہستیاں تھیں۔ ان کے نام رکھنا بھی ان کی یاد کو تازہ کرتا ہے اور باعث خیر و برکت ہے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تَسَمُّوْا بِاَسْمَائِ الْأَنْبِیَاءِ))( سنن ابي داود، کتاب الادب : ۴؍۴۴۳۔)
’’تم انبیاء والے نام رکھو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا ہے۔( صحیح مسلم : ۲؍۲۵۴۔)
جس طرح اچھا نام رکھنے کی تلقین و تاکید ہے اسی طرح شرکیہ کفریہ اور ناپسند معانی رکھنے والے کلمات کے ساتھ نام رکھنے سے سخت منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایسی متعدد روایات ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بُرے اور ناپسندیدہ نام فوراً تبدیل کردیے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے عبد عمرو سے عبد الرحمن رکھ دیا۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ: ’’فَسَمَّانِيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام عبد الرحمن رکھ دیا تھا۔‘‘ (مستدرك حاکم : ۳؍۳۰۶، وقال: صحیح علی شرط الشیخین ولم یُخرجاه ووافقه الذهبي۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دریافت فرمایا: اس بکری کا دودھ کون دوہے گا؟ ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ ’’میں ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس شخص نے کہا: ’’مرہ (کڑوا)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جا۔ پھر دریافت فرمایا۔ اس بکری کو کون دوہے گا۔ ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام پوچھا تو جواب ملا ’’حرب (جنگ)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی فرمایا کہ بیٹھ جا۔ پھر پوچھا اس بکری کو کون دوہے گا؟ ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا ’’میں ‘‘ آپ نے اس سے بھی اس کا نا پوچھا تو اس نے کہا: ’’یعیش (زندگی گزارنے والا)‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ تم بکرو دوہو۔( موطا امام مالك، ما یکره من الاسماء، ص ۷۲۸۔)
شخصیت کا اپنے نام کے ساتھ ایک خاص اور گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اچھے ناموں کے اچھے اثرات ہوتے ہیں جب کہ برے ناموں کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھا نام رکھنے کی تلقین فرماتے اور اچھا نام سنتے تو خوش ہوتے جب کہ برا نام رکھنے سے منع کرتے اور برا نام سنتے تو کراہت فرماتے اور اسے تبدیل کردیتے تاکہ اس شخص کی زندگی پر برے اثرات مترتب نہ ہوں۔
حضرت سعید بن مسیب بن حزن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا نا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ’’حزن‘‘ (سخت زمین، غمگین) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو سہل (آسان، نرم) ہے۔ انہوں نے کہا جو نام میرے والد نے رکھ دیا ہے۔ میں اسے نہیں بدلوں گا۔ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ (اس نام کے سبب) پھر ہمارے خاندان پر مسلسل سختی اور مشکل چھائی رہی۔( صحیح بخاري مع فتح الباري : ۱۰؍۵۷۴۔)
2۔....مشرکین مکہ ’’رحمن‘‘ کا معنی نہیں جانتے تھے، اور نہ جانتے تھے کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسی لیے امیۃ نے کہا تھا کہ میں ’’عبد الرحمن‘‘ نہیں بلکہ ’’عبد الالٰہ‘‘ کہہ کے تجھے پکارا کروں گا، ’’رحمن‘‘ کو میں نہیں جانتا۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے کہا کہ تم لوگ بتوں کے بجائے ’’رحمن‘‘ کو سجدہ کرو، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم کسی ’’رحمن‘‘ کو نہیں جانتے ہیں، صرف ’’رحمن الیمامۃ، یعنی مسیلمہ کذاب کو جانتے ہیں، جس نے اپنا لقب ’’رحمن‘‘ رکھ لیا تھا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ہمیں جس کی عبادت کا حکم دو اسی کی عبادت کریں، یعنی چاہتے ہو کہ بس ہم تمہاری ہر بات مانتے رہیں تو ایسا نہیں ہوگا اور ہم ’’رحمن‘‘ کو سجدہ نہیں کریں گے۔ یعنی تکبر کی وجہ سے دین و ایمان سے ان کی نفرت اور بڑھ گئی۔
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ﴾(الفرقان : ۲۵؍۶۰)
3۔....امیہ بن بن خلف غزوۂ بدر میں ہلاک ہوا۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم! میں ان دونوں کو کھینچنے کے لیے آرہا تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ لیا۔ امیہ مکہ میں انہیں سخت عذاب دیتا تھا، تاکہ وہ اسلام چھوڑ دیں، انہیں وہ مکہ کے ریتیلے علاقے میں لے جاتا جب ریت تیز گرم ہوتی تو انہیں پیٹھ کے بل ڈال دیتا، پھر ایک بھاری چٹان ان کے سینے پر رکھ دی جاتی اور کہتا: تم اسی حال میں رہو گے، حتیٰ کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین چھوڑ دو، بلال رضی اللہ عنہ کہتے: اَحد، اَحد۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ نے جب اسے دیکھا تو کہنے لگے: اے کفر کے سرغنہ! امیہ بن خلف، اگر تم نجات پاگئے تو میری نجات نہیں، عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا: اے بلال! کیا تم میرے دونوں قیدیوں کو ایسی بات کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اگر وہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، میں نے کہا: اے حبشی غلام! کیا تم میری بات سن رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اگر یہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، پھر اپنی اونچی آواز سے پکار کر کہا: اے اللہ کے انصار! یہ ہے کفر کا سرغنہ امیہ بن خلف، اگر یہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، پھر بہت سے فوجیوں نے مجھے گھیر لیا، یہاں تک کہ انہوں نے میرے گرد گھیرے کو تنگ کردیا اور میں اسے بچا رہا تھا، پھر ایک آدمی نے اس کے بیٹے پر ضرب لگائی اور وہ گرگیا اور امیہ نے ایسی چیخ ماری جیسی میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے اس سے کہا: جلد اپنی جان بچاؤ، (حالانکہ اب وہ کہاں بچ سکتا تھا) اللہ کی قسم! میں آج تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ پھر مجاہدین نے ان دونوں کو اپنی تلواروں کی اَنی پر لے لیا، یہاں تک کہ ان دونوں سے فارغ ہوگئے۔ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اللہ رحم کرے بلال پر، میری زرہیں بھی گئیں، اور میرے دونوں قیدیوں کو مروا کر مجھے پریشان کردیا۔( سیرة ابن هشام : ۱؍۶۳۱، ۶۳۲۔)
جب جنگ ختم ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار مقتولین کے پاس آئے جن کی تعداد ستر تھی اور کہا: تم لوگ اپنے نبی کے بڑے ہی بُرے رشتہ دار تھے، تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا، جبکہ دوسروں نے میری تصدیق کی اور تم لوگوں نے مجھے اکیلے چھوڑ دیا، دوسرے لوگوں نے میری مدد کی اور تم لوگوں نے مجھے میرے گھر اور میرے شہر سے نکال دیا، جب کہ لوگوں نے مجھے پناہ دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کفار مقتولین کو کنویں میں پھینک دینے کا حکم دیا، چنانچہ وہ سب کے سب اس میں پھینک دیے گئے، سوائے امیہ بن خلف کے جس کا جسم زرہ میں پھول گیا تھا، جب مجاہدین نے اسے ہلانا چاہا تو اس کے ٹکڑے ہونے لگے، اس لیے اسے وہیں چھوڑ دیا گیا اور اس پر مٹی اور پتھر ڈال دیے گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے کنارے کھڑے ہوکر کہا: اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ، اے فلاں اور اے فلاں ! کیا تمہارے رب نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، اسے سچ پایا؟ مجھ سے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا، اسے میں نے سچ پایا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ! کیا آپ ایسے لوگوں سے مخاطب ہیں جو مرچکے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگ ان سے زیادہ میری بات نہیں سن رہے ہو۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، رقم : ۳۹۷۹، السیرة النبویة، ابن کثیر، ۲؍۴۴۹۔۴۵۳۔)
تخریج :
تاریخ الطبري : ۲؍۳۵، سیرة ابن هشام : ۳؍۱۷۹، البدایةوالنهایة : ۳؍۲۸۶۔
اس حدیث سے درج ذیل مسائل مستفاد ہیں :
1۔....اچھا نام رکھا جائے۔ ایک ایسا نام جس میں شکر الٰہی کا اظہار ہو اور مسمٰی کی شخصیت کا آئینہ ہو۔ اس کے دین و مذہب کا پرتو ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تم روز قیامت اپنے ناموں اور اپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ لہٰذا اپنے نام اچھے رکھو۔( سنن ابي داود، کتاب الادب : ۴؍۴۴۳۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے اچھے نام عبد اللہ اور عبد الرحمن ہیں اور سب سے سچے نام حارث و ہمام ہیں اور سب سے برے نام حرب (جنگ) اور مُرہ (کڑوا) ہیں۔( سنن ابي داود، کتاب الادب : ۴؍۴۴۳۔)
انبیاء و رسل اللہ تعالیٰ کی عظیم اور برگزیدہ ہستیاں تھیں۔ ان کے نام رکھنا بھی ان کی یاد کو تازہ کرتا ہے اور باعث خیر و برکت ہے اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((تَسَمُّوْا بِاَسْمَائِ الْأَنْبِیَاءِ))( سنن ابي داود، کتاب الادب : ۴؍۴۴۳۔)
’’تم انبیاء والے نام رکھو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج رات میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا۔ میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا ہے۔( صحیح مسلم : ۲؍۲۵۴۔)
جس طرح اچھا نام رکھنے کی تلقین و تاکید ہے اسی طرح شرکیہ کفریہ اور ناپسند معانی رکھنے والے کلمات کے ساتھ نام رکھنے سے سخت منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایسی متعدد روایات ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بُرے اور ناپسندیدہ نام فوراً تبدیل کردیے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے عبد عمرو سے عبد الرحمن رکھ دیا۔ حاکم کی روایت میں ہے کہ: ’’فَسَمَّانِيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ‘‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام عبد الرحمن رکھ دیا تھا۔‘‘ (مستدرك حاکم : ۳؍۳۰۶، وقال: صحیح علی شرط الشیخین ولم یُخرجاه ووافقه الذهبي۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دریافت فرمایا: اس بکری کا دودھ کون دوہے گا؟ ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ ’’میں ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس شخص نے کہا: ’’مرہ (کڑوا)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جا۔ پھر دریافت فرمایا۔ اس بکری کو کون دوہے گا۔ ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام پوچھا تو جواب ملا ’’حرب (جنگ)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی فرمایا کہ بیٹھ جا۔ پھر پوچھا اس بکری کو کون دوہے گا؟ ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہا ’’میں ‘‘ آپ نے اس سے بھی اس کا نا پوچھا تو اس نے کہا: ’’یعیش (زندگی گزارنے والا)‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ تم بکرو دوہو۔( موطا امام مالك، ما یکره من الاسماء، ص ۷۲۸۔)
شخصیت کا اپنے نام کے ساتھ ایک خاص اور گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اچھے ناموں کے اچھے اثرات ہوتے ہیں جب کہ برے ناموں کے برے اثرات ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچھا نام رکھنے کی تلقین فرماتے اور اچھا نام سنتے تو خوش ہوتے جب کہ برا نام رکھنے سے منع کرتے اور برا نام سنتے تو کراہت فرماتے اور اسے تبدیل کردیتے تاکہ اس شخص کی زندگی پر برے اثرات مترتب نہ ہوں۔
حضرت سعید بن مسیب بن حزن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا نا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ’’حزن‘‘ (سخت زمین، غمگین) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو سہل (آسان، نرم) ہے۔ انہوں نے کہا جو نام میرے والد نے رکھ دیا ہے۔ میں اسے نہیں بدلوں گا۔ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ (اس نام کے سبب) پھر ہمارے خاندان پر مسلسل سختی اور مشکل چھائی رہی۔( صحیح بخاري مع فتح الباري : ۱۰؍۵۷۴۔)
2۔....مشرکین مکہ ’’رحمن‘‘ کا معنی نہیں جانتے تھے، اور نہ جانتے تھے کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اسی لیے امیۃ نے کہا تھا کہ میں ’’عبد الرحمن‘‘ نہیں بلکہ ’’عبد الالٰہ‘‘ کہہ کے تجھے پکارا کروں گا، ’’رحمن‘‘ کو میں نہیں جانتا۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے کہا کہ تم لوگ بتوں کے بجائے ’’رحمن‘‘ کو سجدہ کرو، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم کسی ’’رحمن‘‘ کو نہیں جانتے ہیں، صرف ’’رحمن الیمامۃ، یعنی مسیلمہ کذاب کو جانتے ہیں، جس نے اپنا لقب ’’رحمن‘‘ رکھ لیا تھا۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم ہمیں جس کی عبادت کا حکم دو اسی کی عبادت کریں، یعنی چاہتے ہو کہ بس ہم تمہاری ہر بات مانتے رہیں تو ایسا نہیں ہوگا اور ہم ’’رحمن‘‘ کو سجدہ نہیں کریں گے۔ یعنی تکبر کی وجہ سے دین و ایمان سے ان کی نفرت اور بڑھ گئی۔
﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ﴾(الفرقان : ۲۵؍۶۰)
3۔....امیہ بن بن خلف غزوۂ بدر میں ہلاک ہوا۔ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم! میں ان دونوں کو کھینچنے کے لیے آرہا تھا کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھ لیا۔ امیہ مکہ میں انہیں سخت عذاب دیتا تھا، تاکہ وہ اسلام چھوڑ دیں، انہیں وہ مکہ کے ریتیلے علاقے میں لے جاتا جب ریت تیز گرم ہوتی تو انہیں پیٹھ کے بل ڈال دیتا، پھر ایک بھاری چٹان ان کے سینے پر رکھ دی جاتی اور کہتا: تم اسی حال میں رہو گے، حتیٰ کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین چھوڑ دو، بلال رضی اللہ عنہ کہتے: اَحد، اَحد۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ نے جب اسے دیکھا تو کہنے لگے: اے کفر کے سرغنہ! امیہ بن خلف، اگر تم نجات پاگئے تو میری نجات نہیں، عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، میں نے کہا: اے بلال! کیا تم میرے دونوں قیدیوں کو ایسی بات کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اگر وہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، میں نے کہا: اے حبشی غلام! کیا تم میری بات سن رہے ہو؟ انہوں نے کہا: اگر یہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، پھر اپنی اونچی آواز سے پکار کر کہا: اے اللہ کے انصار! یہ ہے کفر کا سرغنہ امیہ بن خلف، اگر یہ نجات پاگیا تو میں نجات نہیں پاؤں گا، پھر بہت سے فوجیوں نے مجھے گھیر لیا، یہاں تک کہ انہوں نے میرے گرد گھیرے کو تنگ کردیا اور میں اسے بچا رہا تھا، پھر ایک آدمی نے اس کے بیٹے پر ضرب لگائی اور وہ گرگیا اور امیہ نے ایسی چیخ ماری جیسی میں نے کبھی نہیں سنی تھی۔ میں نے اس سے کہا: جلد اپنی جان بچاؤ، (حالانکہ اب وہ کہاں بچ سکتا تھا) اللہ کی قسم! میں آج تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ پھر مجاہدین نے ان دونوں کو اپنی تلواروں کی اَنی پر لے لیا، یہاں تک کہ ان دونوں سے فارغ ہوگئے۔ حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: اللہ رحم کرے بلال پر، میری زرہیں بھی گئیں، اور میرے دونوں قیدیوں کو مروا کر مجھے پریشان کردیا۔( سیرة ابن هشام : ۱؍۶۳۱، ۶۳۲۔)
جب جنگ ختم ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفار مقتولین کے پاس آئے جن کی تعداد ستر تھی اور کہا: تم لوگ اپنے نبی کے بڑے ہی بُرے رشتہ دار تھے، تم لوگوں نے مجھے جھٹلایا، جبکہ دوسروں نے میری تصدیق کی اور تم لوگوں نے مجھے اکیلے چھوڑ دیا، دوسرے لوگوں نے میری مدد کی اور تم لوگوں نے مجھے میرے گھر اور میرے شہر سے نکال دیا، جب کہ لوگوں نے مجھے پناہ دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کفار مقتولین کو کنویں میں پھینک دینے کا حکم دیا، چنانچہ وہ سب کے سب اس میں پھینک دیے گئے، سوائے امیہ بن خلف کے جس کا جسم زرہ میں پھول گیا تھا، جب مجاہدین نے اسے ہلانا چاہا تو اس کے ٹکڑے ہونے لگے، اس لیے اسے وہیں چھوڑ دیا گیا اور اس پر مٹی اور پتھر ڈال دیے گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے کنارے کھڑے ہوکر کہا: اے عتبہ بن ربیعہ، اے شیبہ بن ربیعہ، اے فلاں اور اے فلاں ! کیا تمہارے رب نے جو تم سے وعدہ کیا تھا، اسے سچ پایا؟ مجھ سے تو میرے رب نے جو وعدہ کیا تھا، اسے میں نے سچ پایا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: یارسول اللہ! کیا آپ ایسے لوگوں سے مخاطب ہیں جو مرچکے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگ ان سے زیادہ میری بات نہیں سن رہے ہو۔( صحیح بخاري، کتاب المغازي، رقم : ۳۹۷۹، السیرة النبویة، ابن کثیر، ۲؍۴۴۹۔۴۵۳۔)