مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 28

كِتَابُ حَدِيثُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، يَرْفَعْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((ثَلَاثٌ تَحْتَ الْعَرْشِ يَومَ الْقِيَامَةِ، الْقُرْآنُ يُحَاجُّ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، وَالرَّحِمُ تُنَادِي أَلَا مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ، وَالْأَمَانَةُ))

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 28

کتاب حسن بن عبد الرحمن کی اپنے باپ سے بیان کردہ حدیث حسن نے اپنے والد عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی، وہ اس روایت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں قیامت کے دن عرش کے نیچے ہوں گی۔ (۱)۔۔۔۔ قرآن قیامت کے دن بندوں کی خاطر جھگڑا کرے گا، اس کا پیٹ بھی ہوگا اور پشت بھی۔ (۲)۔۔۔۔ اور صلہ رحمی آواز لگائے گی۔ خبردار! جس نے مجھے ملایا اسے اللہ تعالیٰ ملائے گا اور جس نے مجھے کاٹا اللہ تعالیٰ اسے کاٹے گا۔ (۳)۔۔۔۔ اور امانت۔
تشریح : اس حدیث سے کئی مسائل مستنبط ہوتے ہیں : 1۔ ’’یرْفَعُهُ‘‘....’’اس کو مرفوع بیان کرتے ہیں ‘‘ یہ حدیث مرفوع ہے اور ’’مرفوع‘‘ اس قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہو۔ خواہ اس کی نسبت آپ کی طرف صحابی نے کی ہو یا تابعی نے یا کسی اور نے اور خواہ اس کی سند متصل ہو یا نہ ہو: ’’هوهو ما أضیف إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم خاصة، من قول أو فعل أو تقریر سواء کان متصلا أو منقطعًا۔‘‘ (الخلاصة فی علم اصول الحدیث، ص : ۴۴۔) 2۔ ’’تَحْتَ الْعَرْشِ‘‘....عرش کا اثبات اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ ارشاد فرمایا: ﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ﴾(الاعراف : ۷؍۵۴) ’’بے شک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا پھر عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ 3۔ تعلق بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور دنیا و آخرت دونوں میں اس کی رحمت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرآن ہے۔ ((عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَلَیْسَ تَشْهَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ؟ قَالُوْا بَلٰی۔ قَالَ اِنَّ هٰذَا الْقُرْآنَ طَرْفُهٗ بِیَدِ اللّٰهِ، وَطَرَفُهٗ بِاَیْدِیْکُمْ فَتَمَسَّکُوْا بِهٖ فَاِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوْا وَلَنْ تَهْلِکُوْا بَعْدَہٗ اَبَدًا۔))( معجم کبیر للطبراني: ۳؍۲۰۱، الترغیب والترهیب، للمنذري : ۱؍۷۹۔) ’’ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں ہم لوگ ان دونوں باتوں کی شہادت دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اس قرآن کا ایک سرا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس قرآن کو مضبوطی سے تھامو تو تم سیدھی راہ سے کبھی نہیں بھٹکو گے اور نہ اس کے بعد ہلاکت سے دوچار ہوگے۔‘‘ 4۔ صلہ رحمی: اس کے بارے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ 5۔ امانت داری: امانت خیانت کی ضد ہے، امانت کی صفت جس شخص کے اندر ہوتی ہے وہ کسی صاحب حق کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا، چاہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہو چاہے ماں باپ، اعزا اور رشتہ داروں وغیرہ کا ہو اور ایمان اور امانت دونوں کی اصل ایک ہے، مومن کو لازماً امانت دار ہونا چاہیے۔ ((عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِىَ اللّٰه عَنْهُ قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَةَ لَهٗ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا طَهُوْرَ لَهٗ، وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ اِنَّمَا مَوْضِعُ الصَّلَاةِ مِنَ الدِّیْنِ کَمَوْضِعِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ۔)) (معجم کبیر للطبراني : ۱؍۶۰، الترغیب والترهیب، للمنذري : ۱؍۲۴۶، ۳۸۹۔) ’’جس شخص کے اندر امانت کی صفت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں۔ اور اس شخص کے لیے نماز نہیں جس نے طہارت نہیں حاصل کی (وضو نہیں کیا) اور اس شخص کے پاس دین نہیں جو نماز نہیں پڑھتا۔ دین اسلام میں نماز کی حیثیت وہی ہے جو جسم انسانی میں سر کی حیثیت ہے۔‘‘
تخریج : قیام اللیل للمروزي، ص : ۷۵، کتاب العلو للذهبي، ص : ۵۱، سلسلة الضعیفة، رقم : ۱۳۳۷، ضعیف الجامع الصغیر، رقم : ۲۵۷۷، الضعفاء للعقیلي : ۴؍۵۔ اس حدیث سے کئی مسائل مستنبط ہوتے ہیں : 1۔ ’’یرْفَعُهُ‘‘....’’اس کو مرفوع بیان کرتے ہیں ‘‘ یہ حدیث مرفوع ہے اور ’’مرفوع‘‘ اس قول، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب ہو۔ خواہ اس کی نسبت آپ کی طرف صحابی نے کی ہو یا تابعی نے یا کسی اور نے اور خواہ اس کی سند متصل ہو یا نہ ہو: ’’هوهو ما أضیف إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم خاصة، من قول أو فعل أو تقریر سواء کان متصلا أو منقطعًا۔‘‘ (الخلاصة فی علم اصول الحدیث، ص : ۴۴۔) 2۔ ’’تَحْتَ الْعَرْشِ‘‘....عرش کا اثبات اور اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے۔ ارشاد فرمایا: ﴿ إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ﴾(الاعراف : ۷؍۵۴) ’’بے شک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا پھر عرش پر مستوی ہوا۔‘‘ 3۔ تعلق بالقرآن: اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور دنیا و آخرت دونوں میں اس کی رحمت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ قرآن ہے۔ ((عَنْ أَبِیْ شُرَیْحٍ الْخُزَاعِیِّ قَالَ: خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَلَیْسَ تَشْهَدُوْنَ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ؟ قَالُوْا بَلٰی۔ قَالَ اِنَّ هٰذَا الْقُرْآنَ طَرْفُهٗ بِیَدِ اللّٰهِ، وَطَرَفُهٗ بِاَیْدِیْکُمْ فَتَمَسَّکُوْا بِهٖ فَاِنَّکُمْ لَنْ تَضِلُّوْا وَلَنْ تَهْلِکُوْا بَعْدَہٗ اَبَدًا۔))( معجم کبیر للطبراني: ۳؍۲۰۱، الترغیب والترهیب، للمنذري : ۱؍۷۹۔) ’’ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ لوگوں نے جواب دیا: ہاں ہم لوگ ان دونوں باتوں کی شہادت دیتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اس قرآن کا ایک سرا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے پس قرآن کو مضبوطی سے تھامو تو تم سیدھی راہ سے کبھی نہیں بھٹکو گے اور نہ اس کے بعد ہلاکت سے دوچار ہوگے۔‘‘ 4۔ صلہ رحمی: اس کے بارے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ 5۔ امانت داری: امانت خیانت کی ضد ہے، امانت کی صفت جس شخص کے اندر ہوتی ہے وہ کسی صاحب حق کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا، چاہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہو چاہے ماں باپ، اعزا اور رشتہ داروں وغیرہ کا ہو اور ایمان اور امانت دونوں کی اصل ایک ہے، مومن کو لازماً امانت دار ہونا چاہیے۔ ((عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِىَ اللّٰه عَنْهُ قَالَ، قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ : لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَةَ لَهٗ، وَلَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا طَهُوْرَ لَهٗ، وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا صَلَاةَ لَهُ اِنَّمَا مَوْضِعُ الصَّلَاةِ مِنَ الدِّیْنِ کَمَوْضِعِ الرَّأْسِ مِنَ الْجَسَدِ۔)) (معجم کبیر للطبراني : ۱؍۶۰، الترغیب والترهیب، للمنذري : ۱؍۲۴۶، ۳۸۹۔) ’’جس شخص کے اندر امانت کی صفت نہیں، اس کے اندر ایمان نہیں۔ اور اس شخص کے لیے نماز نہیں جس نے طہارت نہیں حاصل کی (وضو نہیں کیا) اور اس شخص کے پاس دین نہیں جو نماز نہیں پڑھتا۔ دین اسلام میں نماز کی حیثیت وہی ہے جو جسم انسانی میں سر کی حیثیت ہے۔‘‘