كِتَابُ حَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرْكَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي: ابْنَ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِطَعَامٍ، فَقَالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ - وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي - فَلَمْ نَجِدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ بِهِ إِلَا بُرْدَةً، وَقُتِلَ حَمْزَةُ فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ بِهِ إِلَا بُرْدَةً، أَوْ رَجُلٍ آخِرَ - شَكَّ فِي حَمْزَةَ أَوْ رَجُلٍ آخِرَ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ نَجِدْ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَا بُرْدَةً، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي
کتاب
جناب ابراہیم کی اپنے باپ عبد الرحمن سے حدیث
ابراہیم ابن سعد نے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے دادا سے۔ انہوں نے کہا کہ: عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دن کھانا رکھا گیا، انہوں نے کہا: مصعب بن عمیر شہید ہوئے۔ وہ مجھ سے بہتر تھے اور ہمارے پاس ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی جس سے انہیں کفن دیا جاتا۔ اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تو کفن کے لیے ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ (راوی کو) شک لاحق ہوا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا یا کسی اور آدمی کے بارے میں کہا کہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ ہمارے پاس کفن کے لیے ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی۔ فرمایا: میں (اللہ تعالیٰ سے) ڈرتا ہوں کہیں ہمیں پاکیزہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ہی نہ دے دی جائیں (اور آخرت میں ہمارے لیے کچھ بھی نہ ہو) پھر وہ رونے لگے۔
تشریح :
1۔ ....جنگ احد میں مسلمانوں کا شِعار (حرف رمز؍ Code Word )اَمِتْ، اَمِتْ (موت کے گھاٹ اتار دو) تھا۔( سنن ابی داؤد، کتاب الجهاد، رقم : ۲۵۹۶، مسند أحمد : ۴؍۴۶، سنن الدارمي : ۲؍۲۱۹، مستدرك حاکم : ۲؍۱۰۷، ۱۰۸، السیرة النبویة لابن هشام : ۳؍۹۹۔) مسلمان اس شعار کے مفہوم کے مطابق موت سے بے خوف ہوکر لڑے۔
تاریخ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بے خوفی اور شجاعت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ انہوں نے سباع بن عبز العزی سے دو بدو مقابلہ کیا(صحیح بخاري، کتاب المغازی، رقم : ۴۰۷۲۔) اور اسے عثمان بن ابی طلحہ، ابوشیبہ جو اس دن مشرکین کے علمبرداروں میں سے تھا اور دیگر مشرکین کے ساتھ واصل جہنم کیا۔( المغازي للواقدي : ۱؍۳۰۷۔)
جبیر بن مطعم نے اپنے حبشی غلام وحشی سے کہہ رکھا تھا کہ اگر تو میرے چچا طعیمہ بن عدی (جسے جنگ بدر میں حضرت حمزہ نے قتل کیا تھا) کے بدلے حمزہ کو قتل کردے تو تو آزاد ہے۔ وحشی صرف اسی مقصد کے لیے احد میں آیا تھا۔ وہ ایک پتھرکے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ جونہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ قریب سے گزرے اس نے اچانک ایک برچھا دور ہی سے تاک کر ان کی طرف پھینکا۔ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بدن کے آر پار ہوگیا۔ یوں وحشی نے انہیں دھوکے سے قتل کردیا۔( السیرة النبویة لابن هشام : ۳؍۱۰۲۔ ۱۰۵، الفتح الربانی : ۲۱؍۵۹، ۶۰۔)
واقدی کی روایت ہے کہ جب وحشی کو حضرت حمزہ کی موت کا یقین ہوگیا تو وہ چھپ چھپا کر ان کی لاش کے پاس گیا اور ان کا جگر نکال لیا تاکہ وہ ہند سے اس کی قیمت وصول کرسکے۔ اسے علم تھا کہ ہند کو بدر کی جنگ میں اپنے باپ، چچا اور بھائی کے قتل کا سخت صدمہ ہے۔ وہ جگر لے کر ہند کے پاس گیا اور کہا کہ یہ حمزہ کا جگر ہے۔ ہند نے یہ جگر چبایا، پھر اگل دیا۔ اس نے اپنے قیمتی کپڑے اور زیورات اتار کر وحشی کو انعام میں دے دیے اور وعدہ کیا کہ مکہ جاکر وہ اسے بہت سے دینار دے گی، پھر وحشی نے اسے حضرت حمزہ کی لاش دکھائی تو اس نے ان کا مثلہ کیا۔( المغازی للواقدي : ۱؍۲۸۹۔)
حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ بے جگری سے لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اٹھالیا۔( تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص : ۶۷۔) مسلمان خوب ڈٹ کر لڑے۔ مشرکین کو بڑھ چڑھ کر قتل کیا اور ان کے تمام علمبردار ہلاک کرڈالے۔ مشرکین نے اپنے جھنڈے کو یونہی پڑا رہنے دیا، پھر ان میں سے کوئی اس کے قریب نہیں آتا تھا۔( السیرة النبویة لابن هشام : ۳؍۱۱۲۔)
اس مرحلے میں تو مسلمان ہی فتح یاب ہوئے۔ اسی کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:
﴿ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ (آل عمران : ۳؍۱۵۲)
’’اور یقینا اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب تم (احد میں ) ان (مشرکین) کو اس کے اذن سے (گاجر مولی کی طرح) کاٹ رہے تھے۔‘‘
2۔....رئیس المحدثین امام بخاری نے اپنی صحیح کتاب الجنائز میں اس حدیث پر دو باب قائم کیے ہیں، پہلا باب ہے ’’بَابُ الْکَفَنِ مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ‘‘ ’’کفن کی تیاری میّت کے سارے مال میں سے کرنا چاہیے۔‘‘ امام صاحب نے یہاں ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کل مال اتنا ہی تھا۔ بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں اختلاف ہے کہ میّت قرض دار ہو تو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ ستر پوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے، ایسا کفن دینا چاہیے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ قریش کے جلیل القدر صحابی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن و مبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔ ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جبکہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔ اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش و آرام میں زیب و زینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔ قرآن پاک کی آیت ﴿ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ﴾ (الاحزاب : ۳۳؍۲۳) ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ جنگ احد میں یہ شہید ہوئے۔
اور دوسرا باب قائم کیا ’’بَابُ إِذَا لَمْ یُوْجَدْ اِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ‘‘ ’’باب میّت کے پاس ایک ہی کپڑا نکلے‘‘ اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ، وہی ان کے کفن میں دے دی گئی اور دوسری روایات کے مطابق ان کے پیروں میں اذخر نامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا۔
3۔....حالانکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزہ دار تھے۔ دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مال دار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاء کو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے تقسیم کردیا۔ (رضی اللّٰه عنه وارضاه)
تخریج :
صحیح بخاري، کتاب الجنائز، باب الکفن من جمیع المال، رقم : ۱۲۷۴، صحیح ابن حبان، رقم : ۷۰۱۸۔
1۔ ....جنگ احد میں مسلمانوں کا شِعار (حرف رمز؍ Code Word )اَمِتْ، اَمِتْ (موت کے گھاٹ اتار دو) تھا۔( سنن ابی داؤد، کتاب الجهاد، رقم : ۲۵۹۶، مسند أحمد : ۴؍۴۶، سنن الدارمي : ۲؍۲۱۹، مستدرك حاکم : ۲؍۱۰۷، ۱۰۸، السیرة النبویة لابن هشام : ۳؍۹۹۔) مسلمان اس شعار کے مفہوم کے مطابق موت سے بے خوف ہوکر لڑے۔
تاریخ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی بے خوفی اور شجاعت کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ انہوں نے سباع بن عبز العزی سے دو بدو مقابلہ کیا(صحیح بخاري، کتاب المغازی، رقم : ۴۰۷۲۔) اور اسے عثمان بن ابی طلحہ، ابوشیبہ جو اس دن مشرکین کے علمبرداروں میں سے تھا اور دیگر مشرکین کے ساتھ واصل جہنم کیا۔( المغازي للواقدي : ۱؍۳۰۷۔)
جبیر بن مطعم نے اپنے حبشی غلام وحشی سے کہہ رکھا تھا کہ اگر تو میرے چچا طعیمہ بن عدی (جسے جنگ بدر میں حضرت حمزہ نے قتل کیا تھا) کے بدلے حمزہ کو قتل کردے تو تو آزاد ہے۔ وحشی صرف اسی مقصد کے لیے احد میں آیا تھا۔ وہ ایک پتھرکے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ جونہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ قریب سے گزرے اس نے اچانک ایک برچھا دور ہی سے تاک کر ان کی طرف پھینکا۔ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے بدن کے آر پار ہوگیا۔ یوں وحشی نے انہیں دھوکے سے قتل کردیا۔( السیرة النبویة لابن هشام : ۳؍۱۰۲۔ ۱۰۵، الفتح الربانی : ۲۱؍۵۹، ۶۰۔)
واقدی کی روایت ہے کہ جب وحشی کو حضرت حمزہ کی موت کا یقین ہوگیا تو وہ چھپ چھپا کر ان کی لاش کے پاس گیا اور ان کا جگر نکال لیا تاکہ وہ ہند سے اس کی قیمت وصول کرسکے۔ اسے علم تھا کہ ہند کو بدر کی جنگ میں اپنے باپ، چچا اور بھائی کے قتل کا سخت صدمہ ہے۔ وہ جگر لے کر ہند کے پاس گیا اور کہا کہ یہ حمزہ کا جگر ہے۔ ہند نے یہ جگر چبایا، پھر اگل دیا۔ اس نے اپنے قیمتی کپڑے اور زیورات اتار کر وحشی کو انعام میں دے دیے اور وعدہ کیا کہ مکہ جاکر وہ اسے بہت سے دینار دے گی، پھر وحشی نے اسے حضرت حمزہ کی لاش دکھائی تو اس نے ان کا مثلہ کیا۔( المغازی للواقدي : ۱؍۲۸۹۔)
حضرت معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ بے جگری سے لڑتے لڑتے شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اٹھالیا۔( تاریخ خلیفۃ بن خیاط، ص : ۶۷۔) مسلمان خوب ڈٹ کر لڑے۔ مشرکین کو بڑھ چڑھ کر قتل کیا اور ان کے تمام علمبردار ہلاک کرڈالے۔ مشرکین نے اپنے جھنڈے کو یونہی پڑا رہنے دیا، پھر ان میں سے کوئی اس کے قریب نہیں آتا تھا۔( السیرة النبویة لابن هشام : ۳؍۱۱۲۔)
اس مرحلے میں تو مسلمان ہی فتح یاب ہوئے۔ اسی کے بارے میں قرآن مجید فرماتا ہے:
﴿ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ﴾ (آل عمران : ۳؍۱۵۲)
’’اور یقینا اللہ نے تم سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب تم (احد میں ) ان (مشرکین) کو اس کے اذن سے (گاجر مولی کی طرح) کاٹ رہے تھے۔‘‘
2۔....رئیس المحدثین امام بخاری نے اپنی صحیح کتاب الجنائز میں اس حدیث پر دو باب قائم کیے ہیں، پہلا باب ہے ’’بَابُ الْکَفَنِ مِنْ جَمِیْعِ الْمَالِ‘‘ ’’کفن کی تیاری میّت کے سارے مال میں سے کرنا چاہیے۔‘‘ امام صاحب نے یہاں ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کل مال اتنا ہی تھا۔ بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں اختلاف ہے کہ میّت قرض دار ہو تو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ ستر پوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے، ایسا کفن دینا چاہیے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ قریش کے جلیل القدر صحابی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن و مبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔ ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جبکہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔ اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش و آرام میں زیب و زینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔ قرآن پاک کی آیت ﴿ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ﴾ (الاحزاب : ۳۳؍۲۳) ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ جنگ احد میں یہ شہید ہوئے۔
اور دوسرا باب قائم کیا ’’بَابُ إِذَا لَمْ یُوْجَدْ اِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ‘‘ ’’باب میّت کے پاس ایک ہی کپڑا نکلے‘‘ اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ، وہی ان کے کفن میں دے دی گئی اور دوسری روایات کے مطابق ان کے پیروں میں اذخر نامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا۔
3۔....حالانکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ روزہ دار تھے۔ دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مال دار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاء کو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے تقسیم کردیا۔ (رضی اللّٰه عنه وارضاه)