مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 25

كِتَابُ حَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، مَنِ الرَّجُلُ مِنْكُمُ الْمُعَلَّمُ بِرِيشَةٍ فِي صَدْرِهِ؟ قَالَ: قُلْتُ ((ذَاكَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ))، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي فَعَلَ بِنَا الْأَفَاعِيلُ

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 25

کتاب جناب ابراہیم کی اپنے باپ عبد الرحمن سے حدیث سعد نے اپنے باپ ابراہیم سے روایت کیا، انہوں نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، کہا: امیہ بن خلف نے کہا: اے عبد الالہ! تم میں سے کون ہے؟ جس کے سینے پر شترمرغ کے پر کا نشان ہے؟ میں نے کہا: حمزہ بن عبد المطلب، اس نے کہا: یہ تو وہ شخص ہے جس نے ہمارا یہ برا حال کیا ہے۔
تشریح : جنگ بدر میں لڑتے ہوئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بہادری کے بڑے جوہر دکھائے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے اسود بن عبد الاسد مخزومی دشمن کے لشکر سے نکلا اور کہنے لگا: ’’میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ میں ضرور ان (مسلمانوں ) کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے توڑ دوں گا یا پھر وہاں تک پہنچتے پہنچتے مرجاؤں گا۔‘‘ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا۔ وہ اپنے خون میں لت پت گھسٹتا ہوا حوض کی طرف چلا تاکہ اپنی قسم پوری کرسکے۔ حضرت حمزہ اس کے پیچھے پیچھے لپکے اور تلوار ماری جس سے وہ ہلاک ہوکر حوض میں جاگرا۔( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام : ۲؍۳۱۸۔) اس کے بعد قریش کے تین شہسوار نکلے اور اپنا اپنا مقابل طلب کرنے لگے۔ یہ تینوں عتبہ بن ربیعہ، اس کا بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ تھے۔ ان کے مقابل تین انصاری جوان نکلے۔ عوف بن حارث، معوذ بن حارث، یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے اور عبد اللہ بن رواحہ لیکن قریشی شہسواروں نے اپنے رشتہ دار مہاجرین کے علاوہ کسی اور کے ساتھ مقابلہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن حارث، حمزہ اور علی رضی اللہ عنہم کو ان کے مقابل جانے کا حکم فرمایا۔ حضرت حمزہ عتبہ کے، حضرت علی شیبہ کے اور حضرت عبیدہ ولید کے مقابل جاپہنچے۔ علی اور حمزہ نے تو اپنے حریفوں کو آنِ واحد میں قتل کردیا مگر عبیدہ اور ولید دونوں زخمی ہوگئے۔ ان دونوں نے عبیدہ کی مدد کرتے ہوئے ولید کو جہنم رسید کیا اور حضرت عبیدہ کو زخمی حالت میں اٹھا کر لے آئے۔( سنن أبی داؤد، کتاب الجہاد، رقم : ۲۶۶۵۔) ان چھ افراد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا: ﴿ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ﴾ (الحج : ۲۲؍۱۹) ’’یہ دو (جھگڑنے والے) گروہ ہیں جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے، چنانچہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے، ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’مجھے کنکریوں کی ایک مٹھی پکڑاؤ۔‘‘ انھوں نے پکڑائی تو آپ نے دشمن کے لشکر کی طرف اچھال دی۔ اُن میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں۔ یہ آیت کریمہ اسی بارے میں نازل ہوئی: ﴿ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى ﴾ (الانفال : ۸؍۱۷) ’’(اے نبی!) جب آپ نے (مٹھی بھر خاک ان کی طرف) پھینکی تو درحقیقت وہ آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔‘‘ امیہ بن خلف کا اسی طرف اشارہ تھا جو بات اس نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہی۔
تخریج : مستدرك حاکم : ۲؍۱۲۸، مجمع الزوائد : ۶؍۸۴، سنن الکبریٰ للبیهقي : ۳؍۲۷۶۔ ذہبی نے کہا کہ یہ حدیث شرط مسلم پر ہے۔ جنگ بدر میں لڑتے ہوئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بہادری کے بڑے جوہر دکھائے۔ لڑائی شروع ہونے سے پہلے اسود بن عبد الاسد مخزومی دشمن کے لشکر سے نکلا اور کہنے لگا: ’’میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ میں ضرور ان (مسلمانوں ) کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے توڑ دوں گا یا پھر وہاں تک پہنچتے پہنچتے مرجاؤں گا۔‘‘ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور ایسی تلوار ماری کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑ گیا۔ وہ اپنے خون میں لت پت گھسٹتا ہوا حوض کی طرف چلا تاکہ اپنی قسم پوری کرسکے۔ حضرت حمزہ اس کے پیچھے پیچھے لپکے اور تلوار ماری جس سے وہ ہلاک ہوکر حوض میں جاگرا۔( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام : ۲؍۳۱۸۔) اس کے بعد قریش کے تین شہسوار نکلے اور اپنا اپنا مقابل طلب کرنے لگے۔ یہ تینوں عتبہ بن ربیعہ، اس کا بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اس کا بیٹا ولید بن عتبہ تھے۔ ان کے مقابل تین انصاری جوان نکلے۔ عوف بن حارث، معوذ بن حارث، یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے اور عبد اللہ بن رواحہ لیکن قریشی شہسواروں نے اپنے رشتہ دار مہاجرین کے علاوہ کسی اور کے ساتھ مقابلہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن حارث، حمزہ اور علی رضی اللہ عنہم کو ان کے مقابل جانے کا حکم فرمایا۔ حضرت حمزہ عتبہ کے، حضرت علی شیبہ کے اور حضرت عبیدہ ولید کے مقابل جاپہنچے۔ علی اور حمزہ نے تو اپنے حریفوں کو آنِ واحد میں قتل کردیا مگر عبیدہ اور ولید دونوں زخمی ہوگئے۔ ان دونوں نے عبیدہ کی مدد کرتے ہوئے ولید کو جہنم رسید کیا اور حضرت عبیدہ کو زخمی حالت میں اٹھا کر لے آئے۔( سنن أبی داؤد، کتاب الجہاد، رقم : ۲۶۶۵۔) ان چھ افراد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نازل ہوا: ﴿ هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ﴾ (الحج : ۲۲؍۱۹) ’’یہ دو (جھگڑنے والے) گروہ ہیں جنھوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے، چنانچہ وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے جائیں گے، ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’مجھے کنکریوں کی ایک مٹھی پکڑاؤ۔‘‘ انھوں نے پکڑائی تو آپ نے دشمن کے لشکر کی طرف اچھال دی۔ اُن میں سے کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کی آنکھوں میں وہ کنکریاں نہ پڑی ہوں۔ یہ آیت کریمہ اسی بارے میں نازل ہوئی: ﴿ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى ﴾ (الانفال : ۸؍۱۷) ’’(اے نبی!) جب آپ نے (مٹھی بھر خاک ان کی طرف) پھینکی تو درحقیقت وہ آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔‘‘ امیہ بن خلف کا اسی طرف اشارہ تھا جو بات اس نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہی۔