مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 24

كِتَابُ حَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا وَاقِفٌ، فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ، نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي، وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمَّاهُ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيَتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَزُ مِنَّا، فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، وَقَالَ لِي: مِثْلَهَا، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ لَهُمَا: أَلَا إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهِ فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟ فَقَالَ كُلُ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟ قَالَا: لَا، قَالَ: فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ فَقَضَى بِسَلْبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَكَانَا مُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ وَمُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 24

کتاب جناب ابراہیم کی اپنے باپ عبد الرحمن سے حدیث جناب ابراہیم نے اپنے باپ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں جنگ بدر کے دن صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو دو نوعمر انصاری لڑکے کھڑے تھے، حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں کڑیل جوانوں کے درمیان ہوں گا (انہیں دیکھ کر میں مطمئن نہ ہوا) اچانک ان دونوں میں سے ایک نے مجھے کہنی کی ضرب لگائی اور کہا: چچا جان! آپ ابوجہل کو جانتے ہیں ؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے! تو اسے دیکھ کر کیا کرے گا؟ اس نے کہا مجھے پتا چلا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا جسم اس کے وجود سے جدا نہیں ہوگا حتیٰ کہ ہم میں سے ایک مرجائے۔ اس کی بات کو سن کر متعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے نے بھی مجھے متوجہ کیا اور اسی طرح کہا: اُسی لمحے اچانک میں نے ابوجہل کو دیکھا۔ وہ اپنے لشکروں میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ میں نے ان دونوں سے کہا: یہ ہے وہ آپ کا شکار جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کر رہے تھے۔ وہ دونوں اپنی تلواریں لے کر ہوا ہوگئے، جاتے ہی اس کا تیا پانچہ کردیا۔ پھر بھاگتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور (اس کے قتل) کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ ہر ایک نے کہا: میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اپنی تلواریں صاف کرلی ہیں ؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں تو فرمایا: تم دونوں نے قتل کیا ہے۔ لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا سازو سامان عمرو بن جموح کے بیٹے معاذ کو دیا۔ یہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن الجموح تھے۔
تشریح : 1۔ ....ابن اسحاق نے یہ واقعہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموح کی زبانی یوں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ’’ابوجہل اپنے ساتھیوں کے جھرمٹ میں تھا۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ ابوجہل تک کسی صورت پہنچا نہیں جاسکتا۔ میں نے یہ بات سنی تو میں نے اسے قتل کرنے کا تہیہ کرلیا۔ میں تاک لگا کر اس کی طرف گیا۔ جونہی موقع ملا میں نے اس پر تابڑ توڑ حملہ کردیا۔ میں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑا دیا۔ اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار ماری اور میرا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ صرف تھوڑی سی کھال رہ گئی۔ بازو لٹکنے لگا۔ میں نے پروا نہیں کی اسی طرح لڑتا رہا۔ دن گزر گیا۔ میرا بازو اُسی طرح لٹکتا رہا۔ جب تکلیف کا احساس ہوا تو میں نے اپنے اس بازو پر پاؤں رکھ کر انگڑائی لی اور اسے کاٹ پھینکا۔ میرے ضرب لگانے کے بعد وہاں معوذ بن عفراء بھی پہنچ گیا۔ ابوجہل زخمی پڑا تھا۔ اس نے بھی اسے تلوار ماری حتیٰ کہ وہ حرکت کے قابل نہ رہا، تاہم اس کا سانس چل رہا تھا۔ اس کے بعد معوذ بے جگری سے لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔‘‘( السیرة النبویة لابن هشام : ۲؍۳۳۳۔) صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جنگ ختم ہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کا کیا بنا؟‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھاگے گئے۔ دیکھا تو وہ عفراء کے بیٹوں کی ضربوں سے نڈھال ہوکر آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ وہ کہنے لگے: ’’ارے! تو ابوجہل ہے؟‘‘ ساتھ ہی اس کی ڈاڑھی کو پکڑلیا۔ وہ کہنے لگا: ’’کیا اس سے بڑا بھی کوئی ہے جسے تم نے قتل کیا ہے؟!‘‘( صحیح بخاري، کتاب المغازي، رقم : ۳۹۶۲، ۳۹۶۳۔) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت ابن مسعود کے ساتھ گئے تاکہ ابوجہل کی لاش دیکھیں، پھر فرمایا: ’’یہ اس امت کا فرعون تھا۔‘‘( مسند احمد : ۵؍۳۱۶، رقم : ۳۸۲۴۔) ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ابوجہل کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے تو ابوجہل چلایا: ’’او بکریوں کے ذلیل چرواہے! تو بڑی دشوار گزار جگہ پر چڑھا ہے۔‘‘( السیرة النبویة لابن هشام : ۲؍۱۳۵۔) 2۔....غور فرمائیں اللہ کی قدرت پر کہ ابوجہل بہت بڑا منکر تھا، اللہ ذوالجلال نے متکبر کو کم عمر نوجوانوں سے مروا کر ذلیل و رسوا کر دیا۔ 3۔....اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو قتل کرے اسی کو مقتول کا سامان دینا چاہیے۔ ابوجہل کو قتل تو دونوں نے کیا تھا لیکن سامان سیّدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو دیا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابوجہل کو مارنے میں تو دونوں برابر کے شریک ہے لیکن ممکن ہے سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے پہلے حملہ کیا ہو جس سے وہ پہلے زخمی ہوا اور اس زخم کی وجہ سے گر کر مرا ہو۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساز و سامان سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو دیا۔
تخریج : صحیح بخاري، کتاب الخمس، باب من لم یخمس الاسلاب، رقم : ۳۱۴۱، صحیح مسلم، کتاب الجهاد والسیر، باب استحقاق القاتل سلب القتیل، رقم : ۱۷۵۲، مسند احمد : ۱؍۱۹۲، صحیح ابن حبان، رقم : ۴۸۴۰، مستدرك حاکم : ۳؍۴۸۰، مسند ابي یعلی، رقم : ۸۶۶۔ 1۔ ....ابن اسحاق نے یہ واقعہ حضرت معاذ بن عمرو بن جموح کی زبانی یوں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں : ’’ابوجہل اپنے ساتھیوں کے جھرمٹ میں تھا۔ میں نے لوگوں کو کہتے سنا کہ ابوجہل تک کسی صورت پہنچا نہیں جاسکتا۔ میں نے یہ بات سنی تو میں نے اسے قتل کرنے کا تہیہ کرلیا۔ میں تاک لگا کر اس کی طرف گیا۔ جونہی موقع ملا میں نے اس پر تابڑ توڑ حملہ کردیا۔ میں نے اسے ایسی ضرب لگائی کہ اس کا پاؤں نصف پنڈلی سے اڑا دیا۔ اس کے بیٹے عکرمہ نے میرے کندھے پر تلوار ماری اور میرا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ صرف تھوڑی سی کھال رہ گئی۔ بازو لٹکنے لگا۔ میں نے پروا نہیں کی اسی طرح لڑتا رہا۔ دن گزر گیا۔ میرا بازو اُسی طرح لٹکتا رہا۔ جب تکلیف کا احساس ہوا تو میں نے اپنے اس بازو پر پاؤں رکھ کر انگڑائی لی اور اسے کاٹ پھینکا۔ میرے ضرب لگانے کے بعد وہاں معوذ بن عفراء بھی پہنچ گیا۔ ابوجہل زخمی پڑا تھا۔ اس نے بھی اسے تلوار ماری حتیٰ کہ وہ حرکت کے قابل نہ رہا، تاہم اس کا سانس چل رہا تھا۔ اس کے بعد معوذ بے جگری سے لڑتا رہا حتیٰ کہ شہید ہوگیا۔‘‘( السیرة النبویة لابن هشام : ۲؍۳۳۳۔) صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جنگ ختم ہوگئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کون دیکھ کر آئے گا کہ ابوجہل کا کیا بنا؟‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھاگے گئے۔ دیکھا تو وہ عفراء کے بیٹوں کی ضربوں سے نڈھال ہوکر آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ وہ کہنے لگے: ’’ارے! تو ابوجہل ہے؟‘‘ ساتھ ہی اس کی ڈاڑھی کو پکڑلیا۔ وہ کہنے لگا: ’’کیا اس سے بڑا بھی کوئی ہے جسے تم نے قتل کیا ہے؟!‘‘( صحیح بخاري، کتاب المغازي، رقم : ۳۹۶۲، ۳۹۶۳۔) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود حضرت ابن مسعود کے ساتھ گئے تاکہ ابوجہل کی لاش دیکھیں، پھر فرمایا: ’’یہ اس امت کا فرعون تھا۔‘‘( مسند احمد : ۵؍۳۱۶، رقم : ۳۸۲۴۔) ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ابوجہل کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر چڑھ بیٹھے تو ابوجہل چلایا: ’’او بکریوں کے ذلیل چرواہے! تو بڑی دشوار گزار جگہ پر چڑھا ہے۔‘‘( السیرة النبویة لابن هشام : ۲؍۱۳۵۔) 2۔....غور فرمائیں اللہ کی قدرت پر کہ ابوجہل بہت بڑا منکر تھا، اللہ ذوالجلال نے متکبر کو کم عمر نوجوانوں سے مروا کر ذلیل و رسوا کر دیا۔ 3۔....اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو قتل کرے اسی کو مقتول کا سامان دینا چاہیے۔ ابوجہل کو قتل تو دونوں نے کیا تھا لیکن سامان سیّدنا معاذ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو دیا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابوجہل کو مارنے میں تو دونوں برابر کے شریک ہے لیکن ممکن ہے سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے پہلے حملہ کیا ہو جس سے وہ پہلے زخمی ہوا اور اس زخم کی وجہ سے گر کر مرا ہو۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساز و سامان سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو دیا۔