كِتَابُ حَدِيثُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَصَرَخُوا عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَيَّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّهُ أَتَانِي رَجُلَانِ أَوْ مَلَكَانِ فِيهِمَا فَظَاظَةٌ وَغِلْظَةٌ، فَانْطَلَقَا بِي فَلَقِيَهُمَا رَجُلَانِ أَوْ مَلَكَانِ هُمَا أَرْأَفُ مِنْهُمَا وَأَرْحَمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدَانِ؟ قَالَا: نُرِيدُ الْعَزِيزَ الْأَمِينَ أَوِ الْأَمِيرَ - شَكَّ الْقَاضِي - قَالَا: خَلِّيَا عَنْهُ، فَإِنَّهُ مِمَّنْ كُتِبَتْ لَهُ السَّعَادَةُ وَهُوَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ
کتاب
جناب ابراہیم کی اپنے باپ عبد الرحمن سے حدیث
جناب ابراہیم نے اپنے باپ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی۔ کہا: عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر غشی طاری ہوگئی تو لوگ ان پر چیخنے لگے، جب انہیں افاقہ ہوا تو پوچھا: کیا مجھ پر غشی طاری ہوگئی تھی؟ تو لوگوں نے کہا جی ہاں، انہوں نے فرمایا: میرے پاس دو سخت دل اور بدمزاج آدمی یا دو فرشتے آئے، وہ مجھے لے کر جارہے تھے تو انہیں دو اور آدمی یا فرشتے ملے جو نرم اور رحم دل تھے، انہوں نے کہا کہ اسے کہا لے کر جارہے ہو؟ تو انہوں نے کہا: عزیز الامین یا امیر کے پاس قاضی کو شک پڑا ہے (کہ عزیز الامین کے الفاظ ہیں امیر کا لفظ بولا ہے) انہوں نے کہا کہ اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ اُن لوگوں میں سے ہے جن کے لیے شکم مادر سے ہی سعادت لکھ دی گئی۔
تشریح :
اس حدیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں :
1۔....’’فَصَرَخُوْا عَلَیْهِ‘‘ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر غشی طاری ہوئی تو آپ کے رشتہ داروں نے گمان کیا کہ شاید آپ فوت ہوگئے ہیں، لہٰذا وہ رونے لگے یاد رہے کہ یہ محض رونا تھا نہ کہ نوحہ۔ اور میّت پر رونے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ نوحہ ممنوع ہے۔ یا اگر مرنے والا رونے کی وصیت کرجائے تو بھی میت پر رونا حرام ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا( کے جنازہ میں حاضر تھے۔ (وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا ۵ھ میں انتقال ہوا) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔( صحیح بخاري، کتاب الجنائز، رقم : ۱۲۸۵۔)
مریض کے مرض کی شدت دیکھ کر بھی رونے میں ممانعت نہیں اور ممکن ہے کہ آپ کے گھر والے شدت مرض سے روئے ہوں گے۔ چنانچہ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے: ’’باب البکاء عند المریض‘‘ ’’مریض کے پاس رونا کیسا ہے؟‘‘ اور اس کے تحت حدیث لائے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا وفات ہوگئی؟ لوگوں نے عرض کیا، نہیں یارسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا (اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ اس کی رحمت کا باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے، پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔( صحیح بخاري، کتاب الجنائز، رقم : ۱۳۰۴۔)
2۔....’’فَإِنَّهٗ مِمَّنْ کُتِبَتْ لَهُ السَّعَادَةُ وَهُوَ فِيْ بَطْنِ أُمِّهِ‘‘ شکم مادر میں سعادت کا لکھا جانا، درحقیقت اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کے سچے اور مصدوق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں ہر شخص کی تخلیق اس کی والدہ کے رحم میں چالیس دن ایک نطفہ کی صورت میں ہوتی ہے، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر چالیس دن گوشت کے ٹکڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو چار باتوں کے ساتھ بھیجتا ہے، وہ لکھتا ہے: ’’عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْهِ الرُّوْحُ‘‘ ’’اس کا کردار، اس کی موت، اس کا رزق، اس کا بد یا نیک ہونا پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب القدر، رقم : ۶۵۹۴۔)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دوزخ اور جنت کی جو تقدیر شکم مادر میں لکھ دی جاتی ہے علم الٰہی میں وہ بھی کسی ضابطہ کے تحت ہوتی ہے اور اس کا ضابطہ اسی کو معلوم ہے، کہیں اس کا مدار ظاہری عمل پر ہوتا ہے اور کہیں صرف اس استعداد پر ہوتا ہے جو اچھے برے عمل کا اصلی سبب ہوتی ہے۔
تقدیر کے اس پہلو کو قدرت نے صیغہ راز میں رکھا ہے اور جس طرح قیامت کے وقت کا اخفاء کیا گیا (کیونکہ نظام عالم اسی میں مضمر ہے) اسی طرح محشر سے قبل جنتی اور دوزخی ہونے کا آخری فیصلہ بھی مستور رکھا گیا ہے، ہاں اجمالی طور پر اتنا پتہ دے دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنتی ہے اور کفار و مشرکین کی دوزخی، تقدیر کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد یہ سوال بالکل بے معنی رہ جاتا ہے کہ جب بچے نے کوئی برا عمل ہی نہیں کیا تو پھر اس کے لیے دوزخ کیوں ہے؟ اوّل تو یہ اعتراض اسی وقت درست ہوسکتا ہے جبکہ جزاء و سزا کا ضابطہ صرف ایک عمل ہی ہو، پھر یہ تو بتائیے کہ جس نے عمل کرلیے ہیں اسی کے لیے دوزخ کیوں ہو کیونکہ دوزخ کے عمل کراکے دوزخ میں ڈالنا بھی قابل اعتراض ہونا چاہیے، اگر یہ کہا جائے کہ عمل اس بات کی شہادت ہوتا ہے کہ اسی میں استعداد ناقص تھی، تو پھر مدار استعداد پر ہوا اور بچوں میں بھی قدرت نے مختلف نوع کی استعدادیں رکھی ہیں، بری استعداد کا بچہ اسی طرح قابل رحم نہیں ہوتا جیسے سانپ اور بچھو کا بچہ، یہاں کوئی رحم کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ڈسے بغیر بھی ان کو مار ڈالنا دنیا کے حق میں بڑی رحم دلی ہوتا ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کا حال اس حد تک تباہ دیکھا تو آخر یہ دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو ہی گئے اور اس کا یہی عذر بیان فرمایا:
﴿ إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا﴾(نوح : ۷۱؍۲۷) یعنی اب یہ تخم ہی خراب ہوچکا ہے، اگر یہی باقی رہا تو اس سے جو پیدا وار ہوگی وہ ایسی ہی بدبخت قوم ہوگی، پس جس کو دوزخ میں ڈالنا منظور ہوگا اور اس کی استعداد بھی اسی کے مناسب ہوگی اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ کافر و مشرک کے یہاں پیدا ہوگا، یہ بھی صرف ایک علامت کے طور پر ہے، پوری بات یہاں بھی ہم کو بتانا منظور نہیں، کیونکہ یہ بھی تقدیر کا ایک شعبہ ہے اور اس کو بھی محشر سے پہلے کھول دینا پسندیدہ نہیں ہے۔( ترجمان السنة : ۳؍۷۶۔)
تخریج :
مستدرك حاکم : ۳؍۳۰۷، معرفة الصحابة : ۱؍۴۸۳، ۴۸۱۔ ذہبی نے کہا کہ یہ بخاری اور مسلم کی شرط پر ہے۔
اس حدیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں :
1۔....’’فَصَرَخُوْا عَلَیْهِ‘‘ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ پر غشی طاری ہوئی تو آپ کے رشتہ داروں نے گمان کیا کہ شاید آپ فوت ہوگئے ہیں، لہٰذا وہ رونے لگے یاد رہے کہ یہ محض رونا تھا نہ کہ نوحہ۔ اور میّت پر رونے میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ نوحہ ممنوع ہے۔ یا اگر مرنے والا رونے کی وصیت کرجائے تو بھی میت پر رونا حرام ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (حضرت اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا( کے جنازہ میں حاضر تھے۔ (وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا ۵ھ میں انتقال ہوا) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔( صحیح بخاري، کتاب الجنائز، رقم : ۱۲۸۵۔)
مریض کے مرض کی شدت دیکھ کر بھی رونے میں ممانعت نہیں اور ممکن ہے کہ آپ کے گھر والے شدت مرض سے روئے ہوں گے۔ چنانچہ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے: ’’باب البکاء عند المریض‘‘ ’’مریض کے پاس رونا کیسا ہے؟‘‘ اور اس کے تحت حدیث لائے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آگئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا وفات ہوگئی؟ لوگوں نے عرض کیا، نہیں یارسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا (اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو) یہ اس کی رحمت کا باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے، پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔( صحیح بخاري، کتاب الجنائز، رقم : ۱۳۰۴۔)
2۔....’’فَإِنَّهٗ مِمَّنْ کُتِبَتْ لَهُ السَّعَادَةُ وَهُوَ فِيْ بَطْنِ أُمِّهِ‘‘ شکم مادر میں سعادت کا لکھا جانا، درحقیقت اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں اللہ کے سچے اور مصدوق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں ہر شخص کی تخلیق اس کی والدہ کے رحم میں چالیس دن ایک نطفہ کی صورت میں ہوتی ہے، پھر چالیس دن جمے ہوئے خون کی شکل میں رہتا ہے، پھر چالیس دن گوشت کے ٹکڑے کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو چار باتوں کے ساتھ بھیجتا ہے، وہ لکھتا ہے: ’’عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَشَقِیٌّ أَوْ سَعِیْدٌ ثُمَّ یُنْفَخُ فِیْهِ الرُّوْحُ‘‘ ’’اس کا کردار، اس کی موت، اس کا رزق، اس کا بد یا نیک ہونا پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب القدر، رقم : ۶۵۹۴۔)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دوزخ اور جنت کی جو تقدیر شکم مادر میں لکھ دی جاتی ہے علم الٰہی میں وہ بھی کسی ضابطہ کے تحت ہوتی ہے اور اس کا ضابطہ اسی کو معلوم ہے، کہیں اس کا مدار ظاہری عمل پر ہوتا ہے اور کہیں صرف اس استعداد پر ہوتا ہے جو اچھے برے عمل کا اصلی سبب ہوتی ہے۔
تقدیر کے اس پہلو کو قدرت نے صیغہ راز میں رکھا ہے اور جس طرح قیامت کے وقت کا اخفاء کیا گیا (کیونکہ نظام عالم اسی میں مضمر ہے) اسی طرح محشر سے قبل جنتی اور دوزخی ہونے کا آخری فیصلہ بھی مستور رکھا گیا ہے، ہاں اجمالی طور پر اتنا پتہ دے دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنتی ہے اور کفار و مشرکین کی دوزخی، تقدیر کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد یہ سوال بالکل بے معنی رہ جاتا ہے کہ جب بچے نے کوئی برا عمل ہی نہیں کیا تو پھر اس کے لیے دوزخ کیوں ہے؟ اوّل تو یہ اعتراض اسی وقت درست ہوسکتا ہے جبکہ جزاء و سزا کا ضابطہ صرف ایک عمل ہی ہو، پھر یہ تو بتائیے کہ جس نے عمل کرلیے ہیں اسی کے لیے دوزخ کیوں ہو کیونکہ دوزخ کے عمل کراکے دوزخ میں ڈالنا بھی قابل اعتراض ہونا چاہیے، اگر یہ کہا جائے کہ عمل اس بات کی شہادت ہوتا ہے کہ اسی میں استعداد ناقص تھی، تو پھر مدار استعداد پر ہوا اور بچوں میں بھی قدرت نے مختلف نوع کی استعدادیں رکھی ہیں، بری استعداد کا بچہ اسی طرح قابل رحم نہیں ہوتا جیسے سانپ اور بچھو کا بچہ، یہاں کوئی رحم کا سوال پیدا نہیں ہوتا بلکہ ان کے ڈسے بغیر بھی ان کو مار ڈالنا دنیا کے حق میں بڑی رحم دلی ہوتا ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے جب اپنی قوم کا حال اس حد تک تباہ دیکھا تو آخر یہ دعاء کے لیے ہاتھ اٹھانے پر مجبور ہو ہی گئے اور اس کا یہی عذر بیان فرمایا:
﴿ إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا﴾(نوح : ۷۱؍۲۷) یعنی اب یہ تخم ہی خراب ہوچکا ہے، اگر یہی باقی رہا تو اس سے جو پیدا وار ہوگی وہ ایسی ہی بدبخت قوم ہوگی، پس جس کو دوزخ میں ڈالنا منظور ہوگا اور اس کی استعداد بھی اسی کے مناسب ہوگی اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ کافر و مشرک کے یہاں پیدا ہوگا، یہ بھی صرف ایک علامت کے طور پر ہے، پوری بات یہاں بھی ہم کو بتانا منظور نہیں، کیونکہ یہ بھی تقدیر کا ایک شعبہ ہے اور اس کو بھی محشر سے پہلے کھول دینا پسندیدہ نہیں ہے۔( ترجمان السنة : ۳؍۷۶۔)