مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 21

كِتَابُ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((تَصَدَّقُوا فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَ بِهَا))، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِي أَرْبَعَةُ آلَافٍ، فَأَلْفَيْنِ أُقْرِضُهَا رَبِّي جَلَّ وَعَزَّ وَأَلْفَيْنِ لِعِيَالِي، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَبَارَكَ لَكَ فِيمَا أَمْسَكْتَ، قَالَ: وَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهَ إِنِّي بِتُّ أَجُرُّ الْجَرِيرَ فَأَصَبْتُ صَاعَيْنِ مِنْ تَمْرٍ، فَصَاعًا أُقْرِضُهُ رَبِّي جَلَّ وَعَزَّ وَصَاعًا لِعِيَالِي، قَالَ: فَلَمِزَهُ الْمُنَافِقُونَ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَعْطَى ابْنُ عَوْفٍ الَّذِي أَعْطَى إِلَا رِيَاءً، وَقَالُوا: أَوَلَمْ يَكُنِ اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ عَلَيْهِ السَّلَامِ غَنِيَّيْنِ عَنْ صَاعِ هَذَا؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ﴾ [التوبة: 79]

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 21

کتاب ابوسلمہ کی اپنے باپ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت جناب ابوسلمہ نے اپنے باپ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدقہ کیا کرو پس بلاشبہ میں اسے آگے بھیجنا چاہتا ہوں تو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول میرے پاس چار ہزار ہیں۔ دو ہزار میں اللہ عزوجل کو قرض دیتا ہوں اور دو ہزار اپنے اہل و عیال کے لیے (چھوڑتا ہوں )، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو تو نے دیا ہے اللہ تعالیٰ اس میں بھی برکت ڈالے اور جو تو نے اپنے بال بچوں کے لیے روک رکھا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈالے۔ (عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے کہا: انصار میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک صاع میں اپنے رب عزوجل کو قرض دیتا ہوں اور ایک صاع اپنے اہل و عیال کے لیے رکھتا ہوں۔ پس اس میں منافقوں نے عیب جوئی کی اور مزید کہا: اللہ کی قسم! ابن عوف نے محض ریا کاری کے لیے دیا ہے اور انہوں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اس صاع سے بے پرواہ نہیں ؟ تو اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل کیں : ﴿ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (التوبۃ : ۹؍۷۹) ’’جو لوگ ان مومنین کی عیب جوئی کرتے ہیں جو اپنی خوشی سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ان مومنوں کے صدقے کا بھی مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس اپنی محنت کی کمائی کے علاوہ صدقہ کرنے کے لیے اور کچھ نہیں ہوتا، اللہ ان کا مذاق اڑائے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
تشریح : منافق ہر حال میں مسلمانوں میں عیب لگاتے، اگر کوئی زیادہ مال اللہ کی راہ میں دیتا تو کہتے کہ یہ ریاکار ہے، اور اگر کوئی مزدور اپنی مزدوری لاکر صدقہ کے مال میں جمع کردیتا تو کہتے کہ اللہ کو اتنے تھوڑے مال کی کیا ضرورت تھی۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی ترغیب دلائی تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چار ہزار صدقہ کیا اور عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجور صدقہ کیا، تو منافقین نے طنز کیا کہ یہ محض ریاکاری ہے، اور ابوعقیل نے اپنی مزدوری ایک صاع کھجور لاکر صدقہ کے کھجوروں میں ڈال دیا تو منافقین نے ان کی خوب ہنسی اڑائی اور کہا کہ اللہ ابوعقیل کے ایک صاع کھجور کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے منافقین کا یہ انجام بتایا کہ وہ اپنے مومن بندوں کے استہزاء کا انتقام ضرور لے گا، منافقین کو رسوا کرے گا، اور اپنے مومن بندوں کو اونچا کردکھائے گا اور آخرت میں ان منافقین کو دردناک عذاب ملے گا۔ منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز: منافقوں کی ایک بدخصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل۔ یہ عیب جو بدگو لوگ بہت برے ہیں، اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں، لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا۔ چنانچہ صدقات دینے کی آیت اترتی ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اپنے صدقات لیے ہوئے حاضر ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا۔ بیچارے ایک صاحب مسکین آدمی تھے۔ صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے۔( صحیح بخاري، کتاب الزکاة، رقم : ۱۴۱۶، صحیح مسلم، کتاب الزکاة، رقم : ۱۰۱۸۔) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع میں فرمایا کہ جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا۔ اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا۔ اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے، ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی۔ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت اچھا۔ اس نے کہا: لیجیے سنبھال لیجیے۔ اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے۔ آپ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے۔ افسوس! سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس، تین مرتبہ یہی فرمایا۔ پھر فرمایا: مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کر اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔ یعنی فی سبیل اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے۔ پھر فرمایا، انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں۔( مسند احمد : ۵؍۳۴۔) بنوعجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابوعقیل تھے۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے۔ ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لیے جمع کیا تھا۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے دو ہزار دیے تھے اور دو ہزار رکھے تھے۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صاع کھجوریں حاصل کرکے ایک صاع رکھ لیں اور ایک صاع دے دیں۔ یہ حضرت ابوعقیل رضی اللہ عنہ تھے۔ رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے۔ ان کا نام حباب تھا اور قول ہے کہ عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ثعلبہ تھا۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے بھی ان سے یہی بدلہ لیا۔ ان منافقوں کے لیے آخرت میں المناک عذاب ہیں اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے۔( تفسیر ابن کثیر، ۲؍۵۹۰، ۵۹۱، طبع مکتبہ قدوسیہ۔)
تخریج : تفسیر طبري : ۶؍۱۹۵۔ ۱۹۶، تفسیر ابن کثیر : ۲؍۴۹۳، مجمع الزوائد، باب سورة برائة، ۷؍۱۰۸۔ منافق ہر حال میں مسلمانوں میں عیب لگاتے، اگر کوئی زیادہ مال اللہ کی راہ میں دیتا تو کہتے کہ یہ ریاکار ہے، اور اگر کوئی مزدور اپنی مزدوری لاکر صدقہ کے مال میں جمع کردیتا تو کہتے کہ اللہ کو اتنے تھوڑے مال کی کیا ضرورت تھی۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کی ترغیب دلائی تو حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چار ہزار صدقہ کیا اور عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجور صدقہ کیا، تو منافقین نے طنز کیا کہ یہ محض ریاکاری ہے، اور ابوعقیل نے اپنی مزدوری ایک صاع کھجور لاکر صدقہ کے کھجوروں میں ڈال دیا تو منافقین نے ان کی خوب ہنسی اڑائی اور کہا کہ اللہ ابوعقیل کے ایک صاع کھجور کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے منافقین کا یہ انجام بتایا کہ وہ اپنے مومن بندوں کے استہزاء کا انتقام ضرور لے گا، منافقین کو رسوا کرے گا، اور اپنے مومن بندوں کو اونچا کردکھائے گا اور آخرت میں ان منافقین کو دردناک عذاب ملے گا۔ منافقوں کا مومنوں کی حوصلہ شکنی کا ایک انداز: منافقوں کی ایک بدخصلت یہ بھی ہے کہ ان کی زبانوں سے کوئی بچ نہیں سکتا نہ سخی نہ بخیل۔ یہ عیب جو بدگو لوگ بہت برے ہیں، اگر کوئی شخص بڑی رقم اللہ کی راہ میں دے تو یہ اسے ریاکار کہنے لگتے ہیں اور اگر کوئی مسکین اپنی مالی کمزوری کی بنا پر تھوڑا بہت دے تو یہ ناک بھوں چڑھا کر کہتے ہیں، لو ان کی اس حقیر چیز کا بھی اللہ بھوکا تھا۔ چنانچہ صدقات دینے کی آیت اترتی ہے تو صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے اپنے صدقات لیے ہوئے حاضر ہوتے ہیں۔ ایک صاحب نے دل کھول کر بہت بڑی رقم دی تو اسے منافقوں نے ریاکار کا خطاب دیا۔ بیچارے ایک صاحب مسکین آدمی تھے۔ صرف ایک صاع اناج لائے تھے انہیں کہا کہ اس کے اس صدقے کی اللہ کو کیا ضرورت پڑی تھی؟ اس کا بیان اس آیت میں ہے۔( صحیح بخاري، کتاب الزکاة، رقم : ۱۴۱۶، صحیح مسلم، کتاب الزکاة، رقم : ۱۰۱۸۔) ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع میں فرمایا کہ جو صدقہ دے گا میں اس کی بابت قیامت کے دن اللہ کے سامنے گواہی دوں گا۔ اس وقت ایک صحابی نے اپنے عمامے میں سے کچھ دینا چاہا لیکن پھر لپیٹ لیا۔ اتنے میں ایک صاحب جو سیاہ رنگ اور چھوٹے قد کے تھے، ایک اونٹنی لے کر آگے بڑھے جن سے زیادہ اچھی اونٹنی بقیع بھر میں نہ تھی۔ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ اللہ کے نام پر خیرات ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہت اچھا۔ اس نے کہا: لیجیے سنبھال لیجیے۔ اس پر کسی نے کہا اس سے تو اونٹنی ہی اچھی ہے۔ آپ نے سن لیا اور فرمایا تو جھوٹا ہے یہ تجھ سے اور اس سے تین گنا اچھا ہے۔ افسوس! سینکڑوں اونٹ رکھنے والے تجھ جیسوں پر افسوس، تین مرتبہ یہی فرمایا۔ پھر فرمایا: مگر وہ جو اپنے مال کو اس طرح اس طرح کر اور ہاتھ بھر بھر کر آپ نے ہاتھوں سے دائیں بائیں اشارہ کیا۔ یعنی فی سبیل اللہ ہر نیک کام میں خرچ کرے۔ پھر فرمایا، انہوں نے فلاح پالی جو کم مال والے اور زیادہ عبادت والے ہوں۔( مسند احمد : ۵؍۳۴۔) بنوعجلان کے عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ نے بھی اس وقت بڑی رقم خیرات میں دی تھی جو ایک سو وسق پر مشتمل تھی۔ منافقوں نے اسے ریاکاری پر محمول کیا تھا۔ اپنی محنت مزدوری کی تھوڑی سی خیرات دینے والے ابوعقیل تھے۔ یہ قبیلہ بنو انیف کے شخص تھے۔ ان کے ایک صاع خیرات پر منافقوں نے ہنسی اور ہجو کی تھی اور روایت میں ہے کہ یہ چندہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی ایک جماعت کو جہاد پر روانہ کرنے کے لیے جمع کیا تھا۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے دو ہزار دیے تھے اور دو ہزار رکھے تھے۔ دوسرے بزرگ نے رات بھر کی محنت میں دو صاع کھجوریں حاصل کرکے ایک صاع رکھ لیں اور ایک صاع دے دیں۔ یہ حضرت ابوعقیل رضی اللہ عنہ تھے۔ رات بھر اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتے رہے۔ ان کا نام حباب تھا اور قول ہے کہ عبد الرحمن بن عبد اللہ بن ثعلبہ تھا۔ پس منافقوں کے اس تمسخر کی سزا میں اللہ نے بھی ان سے یہی بدلہ لیا۔ ان منافقوں کے لیے آخرت میں المناک عذاب ہیں اور ان کے اعمال کا ان عملوں جیسا ہی برا بدلہ ہے۔( تفسیر ابن کثیر، ۲؍۵۹۰، ۵۹۱، طبع مکتبہ قدوسیہ۔)