كِتَابُ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ الْحُدَّانِيُّ، قَالَ: قُلْنَا لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدِّثْنَا أَفْضَلَ شَيْءٍ سَمِعْتَ مِنْ أَبِيكَ فِي رَمَضَانَ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُورِ بِمَا فَضَّلَهُ اللَّهُ، قَالَ: " إِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ شَهْرٌ افْتَرَضَ اللَّهُ صِيَامَهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَسَنَنْتُ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنَ الذُّنُوبِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ
کتاب
ابوسلمہ کی اپنے باپ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت
نضر بن شیبان الحدانی نے بیان کیا، کہا، ہم نے ابوسلمہ بن عبد الرحمن سے کہا جو کچھ آپ نے اپنے باپ سے سنا ہے اس میں سے رمضان کے بارے میں سب سے افضل حدیث ہمیں بتائیں، ابوسلمہ نے کہا: ہمیں عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر فرمایا تو اسے دوسرے مہینوں پر فضیلت دی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فضیلت دی ہے۔ ارشاد فرمایا: بلاشبہ رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض قرار دیے ہیں اور اس کا قیام میں نے سنت قرار دیا ہے تو جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور نیکی حاصل کرنے کی غرض سے اس کے روزے رکھے اور اس کا قیام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔
تشریح :
ان احادیث میں رمضان المبارک سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے۔
1۔....ماہ رمضان کی فضیلت اور روزہ کی فرضیت کا بیان ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرة : ۲؍۱۸۳)
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔‘‘
اور مزید ارشاد فرمایا:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ (البقرة : ۲؍۱۸۵)
’’وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کو راہِ راست دکھاتا ہے اور جس میں ہدایت کے لیے اور حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے کے لیے نشانیاں ہیں، پس جو کوئی اس مہینہ کو پائے روزہ رکھے اور جو کوئی مریض ہو، سفر میں تو اتنے دن گن کر بعد میں روزے رکھ لے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے تمہارے لیے تنگی کو اللہ پسند نہیں کرتا اور تاکہ تم روزے کی گنتی پوری کرلو، اور روزے پورے کرلینے کی توفیق و ہدایت پر تکبیر کہو، اور اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض کردیے ہیں جیسے گزشتہ قوموں پر فرض تھے۔ اس لیے کہ روزہ رکھنے میں انسان کے لیے بھلائی ہے اور اس لیے کہ آدمی جب اللہ کے لیے کھانے پینے اور مباشرت سے رک جاتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں مشغول کردیتا ہے تو اللہ اسے تقویٰ کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
اور ماہ رمضان کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا۔
2۔....اور قیام اللیل کی سنیت اور فضیلت کا بیان ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے گئے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب صلاة التراویح، رقم : ۲۰۰۹۔)
نماز تراویح کو قیام رمضان، صلوٰۃ فی رمضان، قیام اللیل اور صلوٰۃ اللیل وغیرہ کہا جاتا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء سے لے کر نماز فجر تک ہے۔ یہ رات کے کسی بھی حصہ میں پڑھی جاسکتی ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، رقم : ۱۲۲، ۱۷۳۶۔)
رمضان سے متعلقہ مزید احکام:
رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے، اسلامی مہینہ کبھی ۲۹ دن کا ہوتا ہے اور کبھی ۳۰ دن کا۔ شعبان المعظم کی ۲۹ تاریخ کو اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان المعظم کے ۳۰ دن پورے کرلیے جائیں، اگر شعبان کی آخری تاریخ اور رمضان المبارک کی یکم تاریخ میں شک ہو تو روزہ نہ رکھے، بلکہ شعبان کے ۳۰ دن پورے شمار کرکے اس شک کا ازالہ کرلے، کیونکہ اسلامی مہینہ ۳۰ دن سے زائد کا نہیں۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرلو۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۰۹۔)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اتنی دیر تک روزہ نہ رکھو جب تک تم چاند نہ دیکھ لو اور اتنی دیر تک روزہ افطار نہ کرو جب تک تم چاند نہ دیکھ لو، اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو چاند کا اندازہ کرو۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۰۶۔)
سیّدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب رمضان المبارک کی آمد ہوجائے تو تیس روزے رکھو، سوائے اس کے کہ تم اس سے پہلے چاند دیکھ لو۔‘‘( مسند أحمد ۴؍۳۷۷، طبراني کبیر ۱۱؍۴۸۶، رقم : ۱۳۴۳۵۔)
٭ سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے مشکوک دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی۔‘‘( صحیح بخاري، قبل الحدیث، رقم : ۱۹۰۶، سنن ابي داود، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۳۴۔)
سیّدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو کہتے:
((اَللّٰهُمَّ اَهِلَّهُ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللّٰهُ۔))( سنن ترمذي، ابواب الدعوات، رقم : ۳۴۵۱، مسند أحمد : ۱؍۱۲۶، رقم : ۱۳۹۷۔)
’’اے اللہ! یہ چاند ہم پر امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ نکال، (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے۔‘‘
٭ سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان حد فاصل سحری کھانا ہے۔‘‘( صحیح مسلم، رقم : ۱۰۹۶۔)
سیّدنا سلیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین چیزوں میں برکت ہے، جماعت، ثرید اور سحری۔‘‘ (معجم کبیر، طبراني : ۶؍۶۳، رقم : ۶۰۰۴۔)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سحری کھانا، کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۲۳، صحیح مسلم، رقم : ۱۰۹۵۔)
٭ سحری تاخیر سے کھانا مستحب ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سحری کھائی، جب سحری سے فارغ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سحری سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز کی ادائیگی میں اتنا فاصلہ تھا کہ آدمی تقریباً پچاس آیتیں تلاوت کرلیتا ہے۔ سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔‘‘ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اذان اور سحری میں کتنا فاصلہ تھا؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’تقریباً پچاس آیات کا۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۲۱، صحیح مسلم، رقم : ۱۰۹۷۔
نوٹ:....یاد رہے سحری کی کوئی مخصوص دعا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
٭ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز (مغرب) سے قبل کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے اور اگر تر کھجوریں میسر نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں (چھوہاروں ) سے روزہ افطار کرتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ بھرلیتے۔‘‘( مسند احمد : ۳؍۱۶۴، رقم : ۱۲۷۰۵، سنن ابی داؤد، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۵۶۔)
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’روزہ دار کی افطاری کے وقت کی ہوئی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الصیام، رقم : ۱۷۵۲۔)
لہٰذا روزہ دار کو روزہ افطار کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہئیں، جو دین و دنیا کی بہتری کے متعلق ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا کرتے تھے:
((ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰهَ۔)) (سنن ابي داؤد، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۵۷۔)
’’پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا، اگر اللہ نے چاہا۔‘‘
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے روزہ دار کو روزہ افطار کروایا، اس کا اجر روزے دار کی طرح ہے اور اللہ تعالیٰ روزے دار کے اجر سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔‘‘( مسند احمد : ۴؍۱۱۴، ۱۱۵، رقم : ۱۷۱۵۸، سنن ترمذي، ابواب الصوم، رقم : ۸۰۷۔)
٭ اب ذیل میں وہ چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
1۔ جان بوجھ کر کھانا پینا۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۸۹۴، ۱۹۳۳۔)
2۔ جان بوجھ کر قے کرنا۔( سنن ابي داؤد، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۸۰۔)
3۔ حیض و نفاس۔ (صحیح بخاري، کتاب الحیض، رقم ۳۰۴۔)
4۔ جماع کرنا۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۳۵۔)
5۔ جھوٹ اور اعمال بد۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۰۳۔)
6۔ لڑائی اور گالی گلوچ کرنا۔( صحیح ابن خزیمة، رقم : ۱۹۹۴۔)
7۔ ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ کرنا۔( سنن ترمذي، ابواب الصوم، رقم : ۷۸۸۔)
اور جو لوگ روزے سے مستثنیٰ ہیں وہ حسب ذیل ہیں :
1۔ مسافر۔ (البقرة : ۲؍۱۸۴)
2۔ مریض۔ (البقرۃ : ۲؍۱۸۴)
3۔ حائضہ اور نفاس والی۔ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۱۔)
4۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی۔ (سنن ترمذي، ابواب الصوم، رقم : ۷۱۵۔)
5۔ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت۔ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۴۵۰۵۔)
٭ اگر رمضان المبارک میں کسی وجہ سے روزے رہ جائیں تو بعد میں ان کی قضا ضروری ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۰۔)
٭ روزوں کی قضا مسلسل یا متفرق دونوں طرح جائز ہے۔( صحیح بخاري، قبل الحدیث، رقم : ۱۹۵۰۔)
٭ جو آدمی اس حال میں مرجائے کہ اس کے ذمے روزوں کی قضا تھی تو اس کی طرف سے اس کا وارث یہ روزے رکھے۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۲۔)
تخریج :
سنن نسائي، کتاب الصیام، باب ثواب من قام رمضان، رقم : ۲۲۰۸، سنن ابن ماجة، کتاب اقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء فی قیام شهر رمضان، رقم : ۱۳۲۸، الترغیب والترهیب : ۶۰۲، مسند ابي یعلی : ۸۶۵، مسند عبد بن حمید، رقم : ۱۵۸، صحیح ابن خزیمة : ۳؍۳۳۵، رقم : ۲۲۰۱، الأحادیث المختارة للمقدسي : ۳؍۱۰۶، رقم : ۹۰۸۔
ان احادیث میں رمضان المبارک سے متعلقہ احکام و مسائل کا بیان ہے۔
1۔....ماہ رمضان کی فضیلت اور روزہ کی فرضیت کا بیان ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرة : ۲؍۱۸۳)
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ویسے ہی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ کی راہ اختیار کرو۔‘‘
اور مزید ارشاد فرمایا:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴾ (البقرة : ۲؍۱۸۵)
’’وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل ہوا، جو لوگوں کو راہِ راست دکھاتا ہے اور جس میں ہدایت کے لیے اور حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے کے لیے نشانیاں ہیں، پس جو کوئی اس مہینہ کو پائے روزہ رکھے اور جو کوئی مریض ہو، سفر میں تو اتنے دن گن کر بعد میں روزے رکھ لے، اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے تمہارے لیے تنگی کو اللہ پسند نہیں کرتا اور تاکہ تم روزے کی گنتی پوری کرلو، اور روزے پورے کرلینے کی توفیق و ہدایت پر تکبیر کہو، اور اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
ان آیات کریمہ میں بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض کردیے ہیں جیسے گزشتہ قوموں پر فرض تھے۔ اس لیے کہ روزہ رکھنے میں انسان کے لیے بھلائی ہے اور اس لیے کہ آدمی جب اللہ کے لیے کھانے پینے اور مباشرت سے رک جاتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں مشغول کردیتا ہے تو اللہ اسے تقویٰ کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
اور ماہ رمضان کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا۔
2۔....اور قیام اللیل کی سنیت اور فضیلت کا بیان ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جس نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے گئے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب صلاة التراویح، رقم : ۲۰۰۹۔)
نماز تراویح کو قیام رمضان، صلوٰۃ فی رمضان، قیام اللیل اور صلوٰۃ اللیل وغیرہ کہا جاتا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء سے لے کر نماز فجر تک ہے۔ یہ رات کے کسی بھی حصہ میں پڑھی جاسکتی ہیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے۔‘‘( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، رقم : ۱۲۲، ۱۷۳۶۔)
رمضان سے متعلقہ مزید احکام:
رمضان المبارک کا چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے، اسلامی مہینہ کبھی ۲۹ دن کا ہوتا ہے اور کبھی ۳۰ دن کا۔ شعبان المعظم کی ۲۹ تاریخ کو اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان المعظم کے ۳۰ دن پورے کرلیے جائیں، اگر شعبان کی آخری تاریخ اور رمضان المبارک کی یکم تاریخ میں شک ہو تو روزہ نہ رکھے، بلکہ شعبان کے ۳۰ دن پورے شمار کرکے اس شک کا ازالہ کرلے، کیونکہ اسلامی مہینہ ۳۰ دن سے زائد کا نہیں۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو، اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کرلو۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۰۹۔)
سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اتنی دیر تک روزہ نہ رکھو جب تک تم چاند نہ دیکھ لو اور اتنی دیر تک روزہ افطار نہ کرو جب تک تم چاند نہ دیکھ لو، اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو چاند کا اندازہ کرو۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۰۶۔)
سیّدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب رمضان المبارک کی آمد ہوجائے تو تیس روزے رکھو، سوائے اس کے کہ تم اس سے پہلے چاند دیکھ لو۔‘‘( مسند أحمد ۴؍۳۷۷، طبراني کبیر ۱۱؍۴۸۶، رقم : ۱۳۴۳۵۔)
٭ سیّدنا عمار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے مشکوک دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی۔‘‘( صحیح بخاري، قبل الحدیث، رقم : ۱۹۰۶، سنن ابي داود، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۳۴۔)
سیّدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو کہتے:
((اَللّٰهُمَّ اَهِلَّهُ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللّٰهُ۔))( سنن ترمذي، ابواب الدعوات، رقم : ۳۴۵۱، مسند أحمد : ۱؍۱۲۶، رقم : ۱۳۹۷۔)
’’اے اللہ! یہ چاند ہم پر امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کے ساتھ نکال، (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے۔‘‘
٭ سیّدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان حد فاصل سحری کھانا ہے۔‘‘( صحیح مسلم، رقم : ۱۰۹۶۔)
سیّدنا سلیمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین چیزوں میں برکت ہے، جماعت، ثرید اور سحری۔‘‘ (معجم کبیر، طبراني : ۶؍۶۳، رقم : ۶۰۰۴۔)
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سحری کھانا، کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہے۔‘‘( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۲۳، صحیح مسلم، رقم : ۱۰۹۵۔)
٭ سحری تاخیر سے کھانا مستحب ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سحری کھائی، جب سحری سے فارغ ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سحری سے فارغ ہونے اور فجر کی نماز کی ادائیگی میں اتنا فاصلہ تھا کہ آدمی تقریباً پچاس آیتیں تلاوت کرلیتا ہے۔ سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔‘‘ سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’اذان اور سحری میں کتنا فاصلہ تھا؟‘‘ تو انھوں نے کہا: ’’تقریباً پچاس آیات کا۔‘‘ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۲۱، صحیح مسلم، رقم : ۱۰۹۷۔
نوٹ:....یاد رہے سحری کی کوئی مخصوص دعا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
٭ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز (مغرب) سے قبل کھجوروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے اور اگر تر کھجوریں میسر نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں (چھوہاروں ) سے روزہ افطار کرتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ بھرلیتے۔‘‘( مسند احمد : ۳؍۱۶۴، رقم : ۱۲۷۰۵، سنن ابی داؤد، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۵۶۔)
سیّدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’روزہ دار کی افطاری کے وقت کی ہوئی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘( سنن ابن ماجة، کتاب الصیام، رقم : ۱۷۵۲۔)
لہٰذا روزہ دار کو روزہ افطار کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنی چاہئیں، جو دین و دنیا کی بہتری کے متعلق ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا کرتے تھے:
((ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّٰهَ۔)) (سنن ابي داؤد، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۵۷۔)
’’پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں اور اجر ثابت ہوگیا، اگر اللہ نے چاہا۔‘‘
٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے روزہ دار کو روزہ افطار کروایا، اس کا اجر روزے دار کی طرح ہے اور اللہ تعالیٰ روزے دار کے اجر سے کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔‘‘( مسند احمد : ۴؍۱۱۴، ۱۱۵، رقم : ۱۷۱۵۸، سنن ترمذي، ابواب الصوم، رقم : ۸۰۷۔)
٭ اب ذیل میں وہ چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں جن کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
1۔ جان بوجھ کر کھانا پینا۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۸۹۴، ۱۹۳۳۔)
2۔ جان بوجھ کر قے کرنا۔( سنن ابي داؤد، کتاب الصیام، رقم : ۲۳۸۰۔)
3۔ حیض و نفاس۔ (صحیح بخاري، کتاب الحیض، رقم ۳۰۴۔)
4۔ جماع کرنا۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۳۵۔)
5۔ جھوٹ اور اعمال بد۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۰۳۔)
6۔ لڑائی اور گالی گلوچ کرنا۔( صحیح ابن خزیمة، رقم : ۱۹۹۴۔)
7۔ ناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ کرنا۔( سنن ترمذي، ابواب الصوم، رقم : ۷۸۸۔)
اور جو لوگ روزے سے مستثنیٰ ہیں وہ حسب ذیل ہیں :
1۔ مسافر۔ (البقرة : ۲؍۱۸۴)
2۔ مریض۔ (البقرۃ : ۲؍۱۸۴)
3۔ حائضہ اور نفاس والی۔ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۱۔)
4۔ حاملہ اور دودھ پلانے والی۔ (سنن ترمذي، ابواب الصوم، رقم : ۷۱۵۔)
5۔ بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت۔ (صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۴۵۰۵۔)
٭ اگر رمضان المبارک میں کسی وجہ سے روزے رہ جائیں تو بعد میں ان کی قضا ضروری ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۰۔)
٭ روزوں کی قضا مسلسل یا متفرق دونوں طرح جائز ہے۔( صحیح بخاري، قبل الحدیث، رقم : ۱۹۵۰۔)
٭ جو آدمی اس حال میں مرجائے کہ اس کے ذمے روزوں کی قضا تھی تو اس کی طرف سے اس کا وارث یہ روزے رکھے۔( صحیح بخاري، کتاب الصوم، رقم : ۱۹۵۲۔)