كِتَابُ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِيهِ حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَاهُ، عَادَ أَبَا الرَّدَّادِ فَقَالَ لَهُ أَبُو الرَّدَّادِ: مَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمَكِ أَوْصَلُ لِي مِنْكَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْكِي عَنْ رَبِّهِ جَلَّ وَعَزَّ " قَالَ: أَنَا الرَّحْمَنُ وَهِيَ الرَّحِمُ اشْتَقَقْتُ لَهَا مِنَ اسْمِي، فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ "
کتاب
ابوسلمہ کی اپنے باپ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ سے روایت
جناب ابوسلمہ نے بیان کیا ہے کہ اُن کے والد گرامی حضرت ابودرداء کی بیمار پرسی کرنے گئے تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا: تمہاری قوم میں سے تم سے بڑھ کر میرے ساتھ کوئی صلہ رحمی نہیں کرتا، تو حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ اپنے رب عزوجل سے بیان کرتے ہیں، کہ رب تعالیٰ نے فرمایا: میں ’’رحمن‘‘ ہوں، اور مادۂ ’’رحم‘‘ میں نے اپنے نام سے نکالا ہے، جس نے اسے ملایا میں اُسے ملاؤں گا اور جس نے اسے توڑا میں اُسے توڑوں گا۔
تشریح :
یہ حدیث قدسی ہے اور اس میں صلہ رحمی کا بیان ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ حدیث قدسی:
’’القدس‘‘ بمعنی پاکیزگی کی طرف منسوب ہے۔ اصطلاح میں وہ حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو:
’’وهو ما ورد من الاحادیث الا لهیة وتسمی: القدسیة۔‘‘ (قواعد التحدیث، القاسمي، ص : ۶۴۔)
علامہ طیبی فرماتے ہیں : قرآن عزیز کے الفاظ و معانی بواسطہ جبریل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے گئے جبکہ حدیث قدسی وہ ہے جس کے معنی سے رب کریم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام یا خواب کے ذریعے آگاہ کیا:
’’قال الطیبی: القرآن وهو اللفظ المنزل به جبریل علی النبي صلی اللّٰه علیه وسلم، والقدسي اخبار اللّٰه معناه بالالهام او بالمنام، فاخبر النبي أمته بعبادة نفسه، وسائر الاحادیث لم یضفها الی اللّٰه تعالٰی، ولم یروها عنه تعالیٰ۔‘‘ (أیضًا، ص : ۶۶، شرح صحیح البخاري، الکرماني : ۹؍۷۹۔)
’’علامہ کرمانی (ـمحمد بن یوسف) شارح بخاری فرماتے ہیں : قرآن معجز کلام ہے اور بواسطہ جبریل منزل ہے، جبکہ حدیث قدسی غیر معجز اور بغیر واسطہ کے من جانب اللہ ہے، ایسی حدیث کو حدیث قدسی، حدیث الٰہی اور حدیث ربانی کہا جاتا ہے، اب اگر پوچھے کہ سب احادیث من جانب اللہ ہیں، کیونکہ ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى﴾ پس اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث قدسیہ کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے۔‘‘
حدیث قدسی اور قرآن کریم میں فرق:
1۔....قرآن عزیز معجز ہے اور حدیث قدسی معجز نہیں۔
2۔....تلاوت قرآن کے بغیر نماز نہیں ہوتی لیکن اگر نماز میں حدیث قدسی پڑھی جائے تو نماز ادا نہ ہوگی۔
3۔....قرآن عزیز کا منکر کافر ہے، حدیث قدسی اگر متواتر نہ ہو تو اس کا منکر کافر نہیں بلکہ مبتدع ہے۔
4۔....قرآن عزیز کا نزول بواسطہ جبریل ہوا ہے، جبکہ حدیث قدسی کا معاملہ یہ نہیں۔
5۔....قرآن عزیز کے الفاظ و معانی دونوں اللہ کی جانب ہوتے ہیں جبکہ حدیث قدسی کے معانی اللہ کی جانب سے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اللہ کے ہوتے ہیں لیکن یہ کلام الٰہی قرآن کا درجہ نہیں پاتا۔
6۔....قرآن کریم کا باوضو چھونا زیادہ مناسب ہے جبکہ حدیث قدسی کا یہ معاملہ نہیں۔( الاحادیث القدسیة، ص : ۷، طبع المجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ، قاہرہ۔)
2۔ صلہ رحمی:
مسلمان کا جو حسن سلوک صرف اس کے والدین، بیوی بچوں، اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہوتا ہے صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ رشتہ داروں سے مراد وہ اعزاء ہیں جن کا انسان سے نسب کے واسطے سے تعلق ہو۔ خواہ ان کو میراث میں حصہ ملتا ہو یا نہ ملتا ہو۔
اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت و فضیلت:
اسلام نے صلہ رحمی کو وہ معزز اور بلند مقام دیا ہے جو پوری تاریخ انسانیت میں کسی مذہب، کسی نظریے اورکسی شریعت نے نہیں دیا۔ اسلام نے رشتوں کا پاس و لحاظ کرنے کی وصیت کی ہے۔ صلہ رحمی کی ترغیب دلائی ہے اور قطع رحمی سے ڈرایا ہے۔
رشتے کے ساتھ اسلام کے اعزاز و اکرام کا اندازہ اس سے بڑھ کر کسی چیز سے نہیں ہوسکتا کہ جس کی تصویر کشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے کہ رشتہ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس بڑے میدان میں جہاں اللہ تعالیٰ نے عالم مثال میں مخلوق کی تخلیق فرمائی کھڑا ہوتا ہے اور رشتوں کے کاٹنے والوں سے پناہ مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی اس درخواست کو قبول کرلیتا ہے۔ چنانچہ جو رشتوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے جوڑتا ہے اور جو رشتوں کو کاٹتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے کاٹ دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پیدا کیں یہاں تک کہ جب وہ اس سے فارغ ہوا تو رشتہ کھڑا ہوا اور عرض کیا: کیا یہ جگہ اس کے کھڑے ہونے کی وجہ سے جوتیرے ذریعے قطع رحمی سے پناہ مانگے۔ فرمایا:
((اَمَا تَرْضَیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ، وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟ قَالَتْ بَلٰی: یَا رَبِّ! قَالَ: فَهُوَ لَكِ۔))( صحیح البخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۹۷، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۵۴۔)
’’ہاں کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو تجھے جوڑے میں اسے جوڑوں اور جو تجھے کاٹے میں اسے کاٹوں۔ رشتہ نے کہا کیوں نہیں ؟ اللہ نے فرمایا: تیرے لیے ایسا ہی ہوگا۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو یہ ارشادِ باری تعالیٰ پڑھو:
﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ () أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ﴾ (محمد : ۴۷؍۲۲۔۲۳)
’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں قطع رحمی کرو گے۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنادیا۔‘‘
قرآن کریم میں بے شمار آیات ہیں جو اسلام میں رشتے کا مقام واضح کرتی ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، رشتوں کا احساس کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں ذکی الحس ہونے پر ابھارتی ہیں اور ان کے حقوق کو ہضم کرنے، انھیں پامال کرنے یا ان کے سلسلہ میں ظلم و زیادتی کرنے یا تکلیف پہنچانے سے بچنے کا حکم دیتی ہیں اور رشتے کے تعلقات کو خراب کرنے سے ڈراتی ہیں۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ﴾ (النساء : ۴؍۱)
’’اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد متصلاً رشتوں کے بارے میں حکم دیا ہے۔ اس طرح اس نے رشتے کی عظمت کا احساس دلایا ہے اور رشتے کا پاس و لحاظ کرنے اور ہمیشہ اس کے خنک سایہ میں پناہ لینے کی تاکید کی ہے۔
سچے مسلمان کے شعور و احساس میں رشتہ کی اہمیت و منزلت کے لیے یہی کافی ہے کہ بیشتر آیات میں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بعد بھی صلہ رحمی کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
﴿ وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل : ۱۷؍۲۳)
’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘
﴿ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴾ (بنی اسرائیل : ۱۷؍۲۶)
’’اور رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین، مسافر کو اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘
صلہ رحمی ان اولین اسلامی مبادی و اصول میں سے ہے جن کے ساتھ یہ دین روز اول ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا اعلان کیا، اس کی بنیادوں کی تشریح کی اور اس کے نقوش واضح کیے۔ چنانچہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق اور نیک برتاؤ، شریعت اسلامی کے ممتاز اور نمایاں اصولوں میں سے ہے۔ اس کی تائید ہرقل کے ساتھ ابوسفیان کی اس گفتگو سے ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا: تمہارا نبی تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتا ہے؟ تو جواب دیا: وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور جو کچھ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے اسے چھوڑ دو، وہ نماز، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔( صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، رقم : ۷، صحیح مسلم، کتاب الجهاد، رقم : ۱۷۷۳۔)
یہاں صلہ رحمی کو اس دین حنیف کے بنیادی اصولوں توحید، نماز، سچائی اور پاک دامنی کی فہرست میں گنوایا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ صلہ رحمی اس دین کی ان ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں اسلام کے جملہ اصول و آداب بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ آغاز نبوت کا زمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیں ؟ فرمایا نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔ میں نے عرض کیا: کن چیزوں کے ساتھ بھیجا ہے۔ فرمایا:
((اَرْسَلَنِیْ بِصِلَةِ الْاَرْحَامِ وَکَسْرِ الْاَوْثَانِ وَاَنْ یُوْحَّدَ اللّٰهُ لَا یُشْرَكُ بِهِ شَیْئًا۔))( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، رقم : ۸۳۲۔)
’’اس نے مجھے ان احکام کے ساتھ بھیجا ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، بتوں کو توڑا جائے۔ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے.....‘‘
یہ بالکل عیاں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول و مبادی کی مختصر تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کو مقدم رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان اصولوں اور مبادی میں سرفہرست ذکر کیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ لَهٗ فِیْ رِْقِهِ، وَیُنْسَأَ لَهٗ فِیْ اَثَرِهِ فَلْیَصَِلْ رَحِمْهُ۔))( صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۸۶، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۵۷۔)
’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کردی جائے اور اس کی عمر دراز کردی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ صلہ رحمی مال میں اضافہ کرتی ہے، اسے پروان چڑھاتی ہے، اس کے عرصہ حیات کو دراز کرتی ہے اور زندگی میں برکت دیتی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((مَنِ اتَّقٰی رَبَّهُ وَوَصَلَ رحِمَهُ نُسِیئَ فِیْ اَجْلِهِ وَثَرَی مَالُهُ وَاَحَبَّهُ اَهْلُهُ)) (الادب المفرد للبخاري، رقم : ۵۸، سلسلة الاحادیث الصحیحة، رقم : ۲۷۶۔)
’’جو شخص اپنے ر سے ڈرے گا اور صلہ رحمی کرے گا، اس کی عمر دراز کردی جائے گی، اس کے مال میں اضافہ کردیا جائے گا اور اس سے اس کے اہل خوش رہیں گے۔‘‘
قطع رحمی کرنے والے بدبختی اور محرومی کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ۔))( صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۸۴، صحیح مسلم، کتاب الادب، رقم : ۲۵۵۶۔)
’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا۔‘‘
اسلامی تعلیمات کے مطابق صلہ رحمی کی جائے:
چنانچہ متقی اور باشعور مسلمان صلہ رحمی کرتا ہے اور مال و دولت، بیوی بچے اور دنیا سے عزیزوں اور رشتہ داروں کی خبرگیری کرنے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کا اکرام و احترام اور تعاون کرنے سے غافل نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں وہ دین حنیف کی تعلیمات و ہدایات کی پیروی کرتا ہے جس نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اور اسے اہمیت و قرابت کے مطابق سلسلہ وار قرار دیا ہے۔ چنانچہ پہلے ماں کا درجہ قرار دیا، پھر باپ کا، پھر ترتیب وار قریب ترین رشتہ داروں کا۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا:
((اُمُّکَ، ثُمَّ اُمُّكَ، ثُمَّ اُمُّكَ، ثُمَّ أَبُوْکَ، ثُمَّ اَدْنَاكَ، اَدْنَاكَ۔)) (صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۷۱، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۴۸۔)
’’تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر رشتہ داروں میں جو تم سے قریب ترین ہو۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے:
’’اللہ تمہیں ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، پھر ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔ پھر باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔ پھر ترتیب وار قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد : ۴؍۱۳۴، سنن ابن ماجة، کتاب الادب، رقم : ۳۶۶۱۔)
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں، اگرچہ وہ صلہ رحمی نہ کریں :
سچا مسلمان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے خواہ وہ لوگ اس کے ساتھ صلہ رحمی نہ کریں کیونکہ وہ صلہ رحمی کے ذریعے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتا ہے اور خود کو اسلامی اخلاق و آداب سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیْئِ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا۔)) (صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۹۱، سنن الترمذي، کتاب البر والصلة، رقم : ۱۹۰۸۔)
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے بلکہ دراصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
بعض احادیث کے ذریعے اس شخص کے نفس میں جو صلہ رحمی کرتا ہے مگر اس کے رشتہ دار اس کے بدلے میں اس سے قطع رحمی، سختی اور بدسلوکی کا معاملہ اختیار کرتے ہیں، حل و بردباری، صبر، عفو اور سماحت و کرم کے اخلاق راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی تائید اس شخص کے ساتھ ہوتی ہے جو صلہ رحمی کرتا ہے، مگر دوسرے اس کے ساتھ صلہ رحمی نہیں کرتے۔ اسی طرح اس گناہ کی بھیانک اور خوف ناک تصویر کشی کی گئی ہے جو سختی برتنے والوں، احسان فراموشی اور ناشکری کرنے والوں اور قطع رحمی کرنے والوں کو ملتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ نہیں کرتے۔ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں لیکن وہ برائی اور بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں لیکن وہ جہالت سے پیش آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَئِنْ کُنْتَ کَمَا قُلْتَ، فَکَأَنَّمَا تسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا یَزَالُ مَعَکَ مِنَ اللّٰهِ ظَهِیْرٌ عَلَیْہِمْ، مَا دُمْتَ عَلٰی ذٰلِكَ۔))( صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۵۸۔)
’’اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہ تم نے بیان کیا تو گویا تم ان کو گرم راکھ کھلا رہے ہو (حدیث میں ’’مل‘‘ کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گرم راکھ) اور تمہارے ساتھ ہمیشہ اللہ کی مدد رہے گی۔ وہ ان اذیتوں اور شرور کو دفع کرنے والا ہے، جب تک کہ تم اس صفت پر قائم ہو۔‘‘
سچے اور دین کی تعلیمات کو سمجھنے والے مسلمان کے نزدیک صلہ رحمی کا مفہوم بہت زیادہ عام اور وسیع ہے۔ صلہ رحمی غریب رشتہ داروں پر مال خرچ کرنے سے ہوتی ہے۔ صلہ رحمی زیارتوں اور ملاقاتوں سے ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ محبت کے تعلقات پائیدار ہوتے ہیں اور باہم رحم و ہمدردی اور اخلاق و مودت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صلہ رحمی آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی، بھلائی، تعاون، ایثار اور انصاف کے ذریعے سے ہوتی ہے، صلہ رحمی، اچھی بات، خندہ پیشانی، شگفتہ ملاقات اور محبت، مسکراہٹ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صلہ رحمی ان دیگر اعمال سے بھی ہوتی ہے جن سے دلوں میں محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ محبت و الفت، باہمی رحم و ہمدردی اور تعاون کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔
تخریج :
مسند أحمد : ۱؍۱۹۴، مسند ابي یعلی، رقم : ۸۴۰۔ مستدرك حاکم : ۴؍۱۵۷، مسند بزار، رقم : ۹۹۲۔
یہ حدیث قدسی ہے اور اس میں صلہ رحمی کا بیان ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے:
1۔ حدیث قدسی:
’’القدس‘‘ بمعنی پاکیزگی کی طرف منسوب ہے۔ اصطلاح میں وہ حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہو:
’’وهو ما ورد من الاحادیث الا لهیة وتسمی: القدسیة۔‘‘ (قواعد التحدیث، القاسمي، ص : ۶۴۔)
علامہ طیبی فرماتے ہیں : قرآن عزیز کے الفاظ و معانی بواسطہ جبریل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیے گئے جبکہ حدیث قدسی وہ ہے جس کے معنی سے رب کریم نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہام یا خواب کے ذریعے آگاہ کیا:
’’قال الطیبی: القرآن وهو اللفظ المنزل به جبریل علی النبي صلی اللّٰه علیه وسلم، والقدسي اخبار اللّٰه معناه بالالهام او بالمنام، فاخبر النبي أمته بعبادة نفسه، وسائر الاحادیث لم یضفها الی اللّٰه تعالٰی، ولم یروها عنه تعالیٰ۔‘‘ (أیضًا، ص : ۶۶، شرح صحیح البخاري، الکرماني : ۹؍۷۹۔)
’’علامہ کرمانی (ـمحمد بن یوسف) شارح بخاری فرماتے ہیں : قرآن معجز کلام ہے اور بواسطہ جبریل منزل ہے، جبکہ حدیث قدسی غیر معجز اور بغیر واسطہ کے من جانب اللہ ہے، ایسی حدیث کو حدیث قدسی، حدیث الٰہی اور حدیث ربانی کہا جاتا ہے، اب اگر پوچھے کہ سب احادیث من جانب اللہ ہیں، کیونکہ ارشاد ربانی ہے کہ: ﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى﴾ پس اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث قدسیہ کی نسبت براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاتی ہے۔‘‘
حدیث قدسی اور قرآن کریم میں فرق:
1۔....قرآن عزیز معجز ہے اور حدیث قدسی معجز نہیں۔
2۔....تلاوت قرآن کے بغیر نماز نہیں ہوتی لیکن اگر نماز میں حدیث قدسی پڑھی جائے تو نماز ادا نہ ہوگی۔
3۔....قرآن عزیز کا منکر کافر ہے، حدیث قدسی اگر متواتر نہ ہو تو اس کا منکر کافر نہیں بلکہ مبتدع ہے۔
4۔....قرآن عزیز کا نزول بواسطہ جبریل ہوا ہے، جبکہ حدیث قدسی کا معاملہ یہ نہیں۔
5۔....قرآن عزیز کے الفاظ و معانی دونوں اللہ کی جانب ہوتے ہیں جبکہ حدیث قدسی کے معانی اللہ کی جانب سے اور الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اور بعض اوقات اللہ کے ہوتے ہیں لیکن یہ کلام الٰہی قرآن کا درجہ نہیں پاتا۔
6۔....قرآن کریم کا باوضو چھونا زیادہ مناسب ہے جبکہ حدیث قدسی کا یہ معاملہ نہیں۔( الاحادیث القدسیة، ص : ۷، طبع المجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ، قاہرہ۔)
2۔ صلہ رحمی:
مسلمان کا جو حسن سلوک صرف اس کے والدین، بیوی بچوں، اس کے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہوتا ہے صلہ رحمی کہلاتا ہے۔ رشتہ داروں سے مراد وہ اعزاء ہیں جن کا انسان سے نسب کے واسطے سے تعلق ہو۔ خواہ ان کو میراث میں حصہ ملتا ہو یا نہ ملتا ہو۔
اسلام میں صلہ رحمی کی اہمیت و فضیلت:
اسلام نے صلہ رحمی کو وہ معزز اور بلند مقام دیا ہے جو پوری تاریخ انسانیت میں کسی مذہب، کسی نظریے اورکسی شریعت نے نہیں دیا۔ اسلام نے رشتوں کا پاس و لحاظ کرنے کی وصیت کی ہے۔ صلہ رحمی کی ترغیب دلائی ہے اور قطع رحمی سے ڈرایا ہے۔
رشتے کے ساتھ اسلام کے اعزاز و اکرام کا اندازہ اس سے بڑھ کر کسی چیز سے نہیں ہوسکتا کہ جس کی تصویر کشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے کہ رشتہ اللہ تعالیٰ کے روبرو اس بڑے میدان میں جہاں اللہ تعالیٰ نے عالم مثال میں مخلوق کی تخلیق فرمائی کھڑا ہوتا ہے اور رشتوں کے کاٹنے والوں سے پناہ مانگتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی اس درخواست کو قبول کرلیتا ہے۔ چنانچہ جو رشتوں کو جوڑتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے جوڑتا ہے اور جو رشتوں کو کاٹتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے کاٹ دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پیدا کیں یہاں تک کہ جب وہ اس سے فارغ ہوا تو رشتہ کھڑا ہوا اور عرض کیا: کیا یہ جگہ اس کے کھڑے ہونے کی وجہ سے جوتیرے ذریعے قطع رحمی سے پناہ مانگے۔ فرمایا:
((اَمَا تَرْضَیْنَ اَنْ اَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ، وَاَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ؟ قَالَتْ بَلٰی: یَا رَبِّ! قَالَ: فَهُوَ لَكِ۔))( صحیح البخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۹۷، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۵۴۔)
’’ہاں کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ جو تجھے جوڑے میں اسے جوڑوں اور جو تجھے کاٹے میں اسے کاٹوں۔ رشتہ نے کہا کیوں نہیں ؟ اللہ نے فرمایا: تیرے لیے ایسا ہی ہوگا۔‘‘
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاہو تو یہ ارشادِ باری تعالیٰ پڑھو:
﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ () أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ﴾ (محمد : ۴۷؍۲۲۔۲۳)
’’اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ تم الٹے منہ پھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں قطع رحمی کرو گے۔ یہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور ان کو اندھا اور بہرا بنادیا۔‘‘
قرآن کریم میں بے شمار آیات ہیں جو اسلام میں رشتے کا مقام واضح کرتی ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے، رشتوں کا احساس کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں ذکی الحس ہونے پر ابھارتی ہیں اور ان کے حقوق کو ہضم کرنے، انھیں پامال کرنے یا ان کے سلسلہ میں ظلم و زیادتی کرنے یا تکلیف پہنچانے سے بچنے کا حکم دیتی ہیں اور رشتے کے تعلقات کو خراب کرنے سے ڈراتی ہیں۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ﴾ (النساء : ۴؍۱)
’’اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تقویٰ اختیار کرنے اور اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے اور اس کے بعد متصلاً رشتوں کے بارے میں حکم دیا ہے۔ اس طرح اس نے رشتے کی عظمت کا احساس دلایا ہے اور رشتے کا پاس و لحاظ کرنے اور ہمیشہ اس کے خنک سایہ میں پناہ لینے کی تاکید کی ہے۔
سچے مسلمان کے شعور و احساس میں رشتہ کی اہمیت و منزلت کے لیے یہی کافی ہے کہ بیشتر آیات میں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بعد بھی صلہ رحمی کرنے اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
﴿ وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل : ۱۷؍۲۳)
’’تیرے رب نے فیصلہ کردیا کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘
﴿ وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ﴾ (بنی اسرائیل : ۱۷؍۲۶)
’’اور رشتے دار کو اس کا حق دو اور مسکین، مسافر کو اس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘
صلہ رحمی ان اولین اسلامی مبادی و اصول میں سے ہے جن کے ساتھ یہ دین روز اول ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا اعلان کیا، اس کی بنیادوں کی تشریح کی اور اس کے نقوش واضح کیے۔ چنانچہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلق اور نیک برتاؤ، شریعت اسلامی کے ممتاز اور نمایاں اصولوں میں سے ہے۔ اس کی تائید ہرقل کے ساتھ ابوسفیان کی اس گفتگو سے ہوتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا: تمہارا نبی تمہیں کن چیزوں کا حکم دیتا ہے؟ تو جواب دیا: وہ کہتے ہیں صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور جو کچھ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے اسے چھوڑ دو، وہ نماز، سچائی، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔( صحیح بخاري، کتاب بدء الوحي، رقم : ۷، صحیح مسلم، کتاب الجهاد، رقم : ۱۷۷۳۔)
یہاں صلہ رحمی کو اس دین حنیف کے بنیادی اصولوں توحید، نماز، سچائی اور پاک دامنی کی فہرست میں گنوایا گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ صلہ رحمی اس دین کی ان ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے۔
حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں اسلام کے جملہ اصول و آداب بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ آغاز نبوت کا زمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیں ؟ فرمایا نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔ میں نے عرض کیا: کن چیزوں کے ساتھ بھیجا ہے۔ فرمایا:
((اَرْسَلَنِیْ بِصِلَةِ الْاَرْحَامِ وَکَسْرِ الْاَوْثَانِ وَاَنْ یُوْحَّدَ اللّٰهُ لَا یُشْرَكُ بِهِ شَیْئًا۔))( صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، رقم : ۸۳۲۔)
’’اس نے مجھے ان احکام کے ساتھ بھیجا ہے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، بتوں کو توڑا جائے۔ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے.....‘‘
یہ بالکل عیاں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول و مبادی کی مختصر تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کو مقدم رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان اصولوں اور مبادی میں سرفہرست ذکر کیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُبْسَطَ لَهٗ فِیْ رِْقِهِ، وَیُنْسَأَ لَهٗ فِیْ اَثَرِهِ فَلْیَصَِلْ رَحِمْهُ۔))( صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۸۶، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۵۷۔)
’’جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی کردی جائے اور اس کی عمر دراز کردی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ صلہ رحمی مال میں اضافہ کرتی ہے، اسے پروان چڑھاتی ہے، اس کے عرصہ حیات کو دراز کرتی ہے اور زندگی میں برکت دیتی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
((مَنِ اتَّقٰی رَبَّهُ وَوَصَلَ رحِمَهُ نُسِیئَ فِیْ اَجْلِهِ وَثَرَی مَالُهُ وَاَحَبَّهُ اَهْلُهُ)) (الادب المفرد للبخاري، رقم : ۵۸، سلسلة الاحادیث الصحیحة، رقم : ۲۷۶۔)
’’جو شخص اپنے ر سے ڈرے گا اور صلہ رحمی کرے گا، اس کی عمر دراز کردی جائے گی، اس کے مال میں اضافہ کردیا جائے گا اور اس سے اس کے اہل خوش رہیں گے۔‘‘
قطع رحمی کرنے والے بدبختی اور محرومی کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ۔))( صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۸۴، صحیح مسلم، کتاب الادب، رقم : ۲۵۵۶۔)
’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا۔‘‘
اسلامی تعلیمات کے مطابق صلہ رحمی کی جائے:
چنانچہ متقی اور باشعور مسلمان صلہ رحمی کرتا ہے اور مال و دولت، بیوی بچے اور دنیا سے عزیزوں اور رشتہ داروں کی خبرگیری کرنے، ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کا اکرام و احترام اور تعاون کرنے سے غافل نہیں کرتی۔ اس سلسلے میں وہ دین حنیف کی تعلیمات و ہدایات کی پیروی کرتا ہے جس نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اور اسے اہمیت و قرابت کے مطابق سلسلہ وار قرار دیا ہے۔ چنانچہ پہلے ماں کا درجہ قرار دیا، پھر باپ کا، پھر ترتیب وار قریب ترین رشتہ داروں کا۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا:
((اُمُّکَ، ثُمَّ اُمُّكَ، ثُمَّ اُمُّكَ، ثُمَّ أَبُوْکَ، ثُمَّ اَدْنَاكَ، اَدْنَاكَ۔)) (صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۷۱، صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۴۸۔)
’’تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر رشتہ داروں میں جو تم سے قریب ترین ہو۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے:
’’اللہ تمہیں ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، پھر ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔ پھر باپوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔ پھر ترتیب وار قریب ترین رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔‘‘ (مسند احمد : ۴؍۱۳۴، سنن ابن ماجة، کتاب الادب، رقم : ۳۶۶۱۔)
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں، اگرچہ وہ صلہ رحمی نہ کریں :
سچا مسلمان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے خواہ وہ لوگ اس کے ساتھ صلہ رحمی نہ کریں کیونکہ وہ صلہ رحمی کے ذریعے صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی چاہتا ہے اور خود کو اسلامی اخلاق و آداب سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیْئِ وَلٰکِنِ الْوَاصِلُ الَّذِیْ اِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا۔)) (صحیح بخاري، کتاب الادب، رقم : ۵۹۹۱، سنن الترمذي، کتاب البر والصلة، رقم : ۱۹۰۸۔)
’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے بلکہ دراصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
بعض احادیث کے ذریعے اس شخص کے نفس میں جو صلہ رحمی کرتا ہے مگر اس کے رشتہ دار اس کے بدلے میں اس سے قطع رحمی، سختی اور بدسلوکی کا معاملہ اختیار کرتے ہیں، حل و بردباری، صبر، عفو اور سماحت و کرم کے اخلاق راسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بتلایا گیا ہے کہ اللہ کی تائید اس شخص کے ساتھ ہوتی ہے جو صلہ رحمی کرتا ہے، مگر دوسرے اس کے ساتھ صلہ رحمی نہیں کرتے۔ اسی طرح اس گناہ کی بھیانک اور خوف ناک تصویر کشی کی گئی ہے جو سختی برتنے والوں، احسان فراموشی اور ناشکری کرنے والوں اور قطع رحمی کرنے والوں کو ملتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں۔ میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ نہیں کرتے۔ میں ان کے ساتھ احسان کرتا ہوں لیکن وہ برائی اور بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں لیکن وہ جہالت سے پیش آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَئِنْ کُنْتَ کَمَا قُلْتَ، فَکَأَنَّمَا تسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا یَزَالُ مَعَکَ مِنَ اللّٰهِ ظَهِیْرٌ عَلَیْہِمْ، مَا دُمْتَ عَلٰی ذٰلِكَ۔))( صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم : ۲۵۵۸۔)
’’اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہ تم نے بیان کیا تو گویا تم ان کو گرم راکھ کھلا رہے ہو (حدیث میں ’’مل‘‘ کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گرم راکھ) اور تمہارے ساتھ ہمیشہ اللہ کی مدد رہے گی۔ وہ ان اذیتوں اور شرور کو دفع کرنے والا ہے، جب تک کہ تم اس صفت پر قائم ہو۔‘‘
سچے اور دین کی تعلیمات کو سمجھنے والے مسلمان کے نزدیک صلہ رحمی کا مفہوم بہت زیادہ عام اور وسیع ہے۔ صلہ رحمی غریب رشتہ داروں پر مال خرچ کرنے سے ہوتی ہے۔ صلہ رحمی زیارتوں اور ملاقاتوں سے ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ محبت کے تعلقات پائیدار ہوتے ہیں اور باہم رحم و ہمدردی اور اخلاق و مودت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صلہ رحمی آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی، بھلائی، تعاون، ایثار اور انصاف کے ذریعے سے ہوتی ہے، صلہ رحمی، اچھی بات، خندہ پیشانی، شگفتہ ملاقات اور محبت، مسکراہٹ سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صلہ رحمی ان دیگر اعمال سے بھی ہوتی ہے جن سے دلوں میں محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور عزیزوں اور رشتہ داروں کے ساتھ محبت و الفت، باہمی رحم و ہمدردی اور تعاون کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔