مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 12

كِتَابُ حَدِيثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنِ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: شَهِدْتُ وَأَنَا غُلَامٌ، حِلْفًا مَعَ عُمُومَتِي الْمُطَيَّبِينَ فَمَا أُحِبُّ أَنْ لِي حُمْرَ النَّعَمِ وَإِنِّي نَكَثْتُهُ

ترجمہ مسند عبد الرحمن بن عوف - حدیث 12

کتاب جبیر بن مطعم کی عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے حدیث ہمیں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا۔ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنے چچوں کے ساتھ حلف المطیبین میں حاضر ہوا اور اس وقت میں بچہ تھا اور آج میں یہ پسند نہیں کرتا کہ مجھے سرخ اونٹ دیے جائیں اور ان کے بدلے میں اس (معاہدے) کو توڑ دوں۔
تشریح : زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے سینکڑوں گھرانے تباہ و برباد ہوچکے تھے۔ لوگوں کے اندر احساس پیدا ہوا کہ ملک میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش اور مسافروں کی حفاظت اور غریبوں کی امداد کریں گے اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے چھڑائیں گے۔ یہ معاہدہ قریش کے پانچ قبیلوں میں ہوا، بنو ہاشم، بنو عبد المطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیم۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلف الفضول میں شرکت: اسے مطیبین کا حلف بھی کہتے ہیں۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مطیبین کے حلف میں شریک ہوا تھا۔ اس وقت میں نوجوان تھا۔ مجھے کوئی سرخ اونٹوں کا ریوڑ بھی دے تو میں وہ عہد توڑنا پسند نہ کروں۔‘‘ (مسند احمد (تحقیق أحمد شاکر) : ۳؍۱۲۱۔) بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں حلف المطیبین کے علاوہ قریش کے کسی معاہدے میں شریک نہیں ہوا۔ سرخ اونٹوں کے عوض بھی مجھے وہ عہد توڑنا گوارا نہیں۔‘‘ (دلائل النبوة للبیهقي : ۲؍۳۷، ۳۸، والبدایة والنهایة : ۲؍۳۱۵۔) امام بیہقی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چند سیرت نگاروں نے کہا ہے: ’’اس عہد سے مراد ’’حلف الفضول‘‘ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف المطیبین کا دور نہیں پایا۔ (دلائل النبوة للبیهقي : ۲؍۳۸۔) ہمارے نزدیک سیرت نگاروں کی یہ بات صحیح ہے۔ خود امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں یہی کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف المطیبین کا دور نہیں پایا۔( السنن الکبریٰ للبیهقي : ۶؍۳۶۷۔) احمد، بیہقی اور اہل سیر کی روایت میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلف المطیبین کی تجدید کرکے اس کا نام حلف الفضول رکھ دیا گیا۔( النهایة فی غریب الحدیث والأثر : ۳؍۴۵۶، مادۃ الفاء مع الضاد، وحاشیة مسند أحمد (تحقیق أحمد شاکر): ۳؍۱۲۲، سبل الهدٰی والرّشاد : ۲؍۲۰۹۔) واللہ اعلم مسند حمیدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے میں موجود تھا۔ اگر آج بھی مجھے اس معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور قبول کروں گا۔ اس معاہدے کے شرکاء نے عہد کیا تھا کہ ہر حق والے کو اس کا حق دلایا جائے گا اور کوئی ظالم کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرسکے گا۔‘‘( البدایة والنهایة : ۲؍۳۱۵۔) ابن اسحاق کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے میں موجود تھا۔ مجھے پسند نہیں کہ مجھے اس معاہدے میں شرکت کے بجائے سرخ اونٹ ملتے اور اگر اسلام میں بھی مجھے اس قسم کے معاہدے کی دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔‘‘ (السیرة النبویة لابن هشام : ۱؍۱۸۲، ۱۸۳۔) یہ باہمی معاہدہ بنوہاشم، بنوعبدالمطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیم نے کیا تھا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ظالم سے مظلوم کا حق لے کر دیں گے۔ (السیرة النبویة لابن هشام : ۱؍۱۸۲۔)یہ ماہِ ذیقعد میں بعثت سے بیس سال پہلے کا واقعہ ہے جب قریش فجار سے واپس آئے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس برس تھی۔ اس معاہدے کے اولین داعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبد المطلب تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زبید قبیلے کا ایک آدمی اپنا تجارتی سامان لے کر مکہ مکرمہ آیا۔ عاص بن وائل سہمی نے اس سے وہ سامان خرید لیا۔ عاص بہت بڑا سردار تھا۔ اپنی سرداری کے زعم میں اس نے اس غریب کی رقم دبا لی۔ زبید کے آدمی نے احلاف کے قبائل عبد الدار، مخزوم، جمع اور سہم سے مدد طلب کی۔ انھوں نے نہ صرف اس بے چارے کی مدد سے انکار کیا بلکہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جب اس زبیدی نے خطرہ محسوس کیا تو وہ طلوع شمس کے وقت جبل ابوقبیس پر چڑھ گیا، اس وقت قریشی کعبہ کے اردگرد اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے بڑي رقت اور بلند آہنگی یہ شعر پڑھے: یَا آلَ فِهْرٍ لَّمَظْلُوْمٌ بِضَاعَتُهٗ بِبَطْنِ مَکَّةَ نَائِي الدَّارِ وَالنَّفَرِ وَمُحْرِمٌ أَشْعَثَ لَمْ یَقْضِ عُمْرَتَهٗ یَا لَلرِّجَالِ وَبَیْنَ الْحِجْرِ وَالْحَجَرِ إِنَّ الْحَرَامَ لِمَنْ تَمَّتْ مَکَارِمُهٗ وَلَا حَرَامَ لِثَوْبِ الْفَاجِرِ الْغَدِرِ ’’اے آل فہر! (قریشیو!) اس مظلوم کی مدد کرو جس کا تجارتی مال وادیٔ مکہ میں چھین لیا گیا وہ یہاں غریب الوطن اور اپنے لوگوں سے دور ہے۔ اس نے احرام باندھ رکھا ہے۔ پراگندہ سر ہے۔ ابھی تک اس نے عمرہ بھی پورا نہیں کیا۔ اے حجر اسود اور حجر کے مابین بیٹھے ہوئے لوگو! (میری مدد کرو۔) عزت و حرمت تو اس شخص کی ہے جس کے کام اچھے ہیں۔ غدار اور بدکار (عاص بن وائل) کی چادر کی کوئی عزت نہیں۔‘‘ یہ سن کر زبیر بن عبد المطلب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’کیا اسے بے یارو مددگار چھوڑا جاسکتا ہے؟‘‘ اس پر قریش، زہرہ اور تیم عبد اللہ بن جدعان کے گھر اکٹھے ہوئے اور آپس میں معاہدہ کیا کہ وہ مظلوم کی مدد کے لیے یک جان رہیں گے حتیٰ کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کردے۔ وہ اس معاہدے پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک سمندر میں پانی کی ایک بوند بھی باقی ہے اور جب تک ثبیر اور حرا پہاڑ اپنی جگہ قائم ہیں۔ اور یہ کہ وہ امورِ روزگار میں بھی ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائیں گے۔ یہ معاہدہ ماہِ حرام ذیقعد میں طے ہوا اور قریش نے اس معاہدہ کو ’’حلف الفضول‘‘ کا نام دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ایک فضیلت والے کام پر اکٹھے ہوئے ہیں، پھر یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے مظلوم کا سامان چھین کر اس کے سپرد کردیا۔(البدایة والنهایة : ۲؍۳۱۵، ۳۱۶، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ۱؍۱۲۸، ۱۲۹۔) حلف الفضول میں شرکت کی حکمت: ٭ اگر اہل جاہلیت اپنے فطری جذبات کی بنیاد پر ظلم کے سدباب کے لیے اٹھ سکتے ہیں تو اہل اسلام کے لیے تو ناگزیر ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کیونکہ اسلام کی تو دعوت ہی یہ ہے کہ ظلم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اسلام فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے اور اسے ہر قسم کی کجی اور انحراف سے بچانا چاہتا ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاہدے کی اہمیت پر زور دیں کیونکہ اس معاہدے کا مضمون سراسر اسلام کی دعوت ہے کہ حق کو قائم رکھا جائے اور باطل اور ظلم کو مٹا دیا جائے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر نے اس معاہدے میں جو کردار ادا کیا وہ اس حقیقت کی بڑی روشن دلیل ہے کہ ہاشمی خاندان کے لوگ جوان مرد تھے اور ایسے مواقع پر وہ دوسروں سے افضل ثابت ہوتے تھے۔ اس خاندان کے شرف و فضل کے لیے یہ یگانہ عظمت ہی بہت کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی خاندان سے ہیں۔
تخریج : صحیح الجامع الصغیر، رقم : ۷۳۱۷، مسند احمد : ۱؍۱۹۰، ۱۹۳، صحیح ابن حبان، رقم : ۴۳۷۳۔ مسند بزار، ۳؍۲۱۳، رقم : ۱۰۰۰، مستدرك حاکم : ۲؍۲۳۹، مسند أبویعلي : ۲؍۱۵۶، ۱۵۷، رقم : ۸۴۴، الأحاد والمثاني : ۱؍۱۷۵، رقم : ۹۱۸، سلسلة الصحیحة : ۱۹۰۰۔ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی خانہ جنگی کی وجہ سے سینکڑوں گھرانے تباہ و برباد ہوچکے تھے۔ لوگوں کے اندر احساس پیدا ہوا کہ ملک میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش اور مسافروں کی حفاظت اور غریبوں کی امداد کریں گے اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے چھڑائیں گے۔ یہ معاہدہ قریش کے پانچ قبیلوں میں ہوا، بنو ہاشم، بنو عبد المطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیم۔ اس معاہدے کو حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حلف الفضول میں شرکت: اسے مطیبین کا حلف بھی کہتے ہیں۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے چچاؤں کے ساتھ مطیبین کے حلف میں شریک ہوا تھا۔ اس وقت میں نوجوان تھا۔ مجھے کوئی سرخ اونٹوں کا ریوڑ بھی دے تو میں وہ عہد توڑنا پسند نہ کروں۔‘‘ (مسند احمد (تحقیق أحمد شاکر) : ۳؍۱۲۱۔) بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں حلف المطیبین کے علاوہ قریش کے کسی معاہدے میں شریک نہیں ہوا۔ سرخ اونٹوں کے عوض بھی مجھے وہ عہد توڑنا گوارا نہیں۔‘‘ (دلائل النبوة للبیهقي : ۲؍۳۷، ۳۸، والبدایة والنهایة : ۲؍۳۱۵۔) امام بیہقی نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ چند سیرت نگاروں نے کہا ہے: ’’اس عہد سے مراد ’’حلف الفضول‘‘ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف المطیبین کا دور نہیں پایا۔ (دلائل النبوة للبیهقي : ۲؍۳۸۔) ہمارے نزدیک سیرت نگاروں کی یہ بات صحیح ہے۔ خود امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں یہی کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلف المطیبین کا دور نہیں پایا۔( السنن الکبریٰ للبیهقي : ۶؍۳۶۷۔) احمد، بیہقی اور اہل سیر کی روایت میں تطبیق یوں ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حلف المطیبین کی تجدید کرکے اس کا نام حلف الفضول رکھ دیا گیا۔( النهایة فی غریب الحدیث والأثر : ۳؍۴۵۶، مادۃ الفاء مع الضاد، وحاشیة مسند أحمد (تحقیق أحمد شاکر): ۳؍۱۲۲، سبل الهدٰی والرّشاد : ۲؍۲۰۹۔) واللہ اعلم مسند حمیدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے میں موجود تھا۔ اگر آج بھی مجھے اس معاہدے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور قبول کروں گا۔ اس معاہدے کے شرکاء نے عہد کیا تھا کہ ہر حق والے کو اس کا حق دلایا جائے گا اور کوئی ظالم کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرسکے گا۔‘‘( البدایة والنهایة : ۲؍۳۱۵۔) ابن اسحاق کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں ایک معاہدے میں موجود تھا۔ مجھے پسند نہیں کہ مجھے اس معاہدے میں شرکت کے بجائے سرخ اونٹ ملتے اور اگر اسلام میں بھی مجھے اس قسم کے معاہدے کی دعوت دی جائے تو میں ضرور قبول کروں گا۔‘‘ (السیرة النبویة لابن هشام : ۱؍۱۸۲، ۱۸۳۔) یہ باہمی معاہدہ بنوہاشم، بنوعبدالمطلب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تیم نے کیا تھا کہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور ظالم سے مظلوم کا حق لے کر دیں گے۔ (السیرة النبویة لابن هشام : ۱؍۱۸۲۔)یہ ماہِ ذیقعد میں بعثت سے بیس سال پہلے کا واقعہ ہے جب قریش فجار سے واپس آئے تھے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بیس برس تھی۔ اس معاہدے کے اولین داعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بن عبد المطلب تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زبید قبیلے کا ایک آدمی اپنا تجارتی سامان لے کر مکہ مکرمہ آیا۔ عاص بن وائل سہمی نے اس سے وہ سامان خرید لیا۔ عاص بہت بڑا سردار تھا۔ اپنی سرداری کے زعم میں اس نے اس غریب کی رقم دبا لی۔ زبید کے آدمی نے احلاف کے قبائل عبد الدار، مخزوم، جمع اور سہم سے مدد طلب کی۔ انھوں نے نہ صرف اس بے چارے کی مدد سے انکار کیا بلکہ اسے ڈانٹ ڈپٹ کی۔ جب اس زبیدی نے خطرہ محسوس کیا تو وہ طلوع شمس کے وقت جبل ابوقبیس پر چڑھ گیا، اس وقت قریشی کعبہ کے اردگرد اپنی مجلسوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے بڑي رقت اور بلند آہنگی یہ شعر پڑھے: یَا آلَ فِهْرٍ لَّمَظْلُوْمٌ بِضَاعَتُهٗ بِبَطْنِ مَکَّةَ نَائِي الدَّارِ وَالنَّفَرِ وَمُحْرِمٌ أَشْعَثَ لَمْ یَقْضِ عُمْرَتَهٗ یَا لَلرِّجَالِ وَبَیْنَ الْحِجْرِ وَالْحَجَرِ إِنَّ الْحَرَامَ لِمَنْ تَمَّتْ مَکَارِمُهٗ وَلَا حَرَامَ لِثَوْبِ الْفَاجِرِ الْغَدِرِ ’’اے آل فہر! (قریشیو!) اس مظلوم کی مدد کرو جس کا تجارتی مال وادیٔ مکہ میں چھین لیا گیا وہ یہاں غریب الوطن اور اپنے لوگوں سے دور ہے۔ اس نے احرام باندھ رکھا ہے۔ پراگندہ سر ہے۔ ابھی تک اس نے عمرہ بھی پورا نہیں کیا۔ اے حجر اسود اور حجر کے مابین بیٹھے ہوئے لوگو! (میری مدد کرو۔) عزت و حرمت تو اس شخص کی ہے جس کے کام اچھے ہیں۔ غدار اور بدکار (عاص بن وائل) کی چادر کی کوئی عزت نہیں۔‘‘ یہ سن کر زبیر بن عبد المطلب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: ’’کیا اسے بے یارو مددگار چھوڑا جاسکتا ہے؟‘‘ اس پر قریش، زہرہ اور تیم عبد اللہ بن جدعان کے گھر اکٹھے ہوئے اور آپس میں معاہدہ کیا کہ وہ مظلوم کی مدد کے لیے یک جان رہیں گے حتیٰ کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کردے۔ وہ اس معاہدے پر اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک سمندر میں پانی کی ایک بوند بھی باقی ہے اور جب تک ثبیر اور حرا پہاڑ اپنی جگہ قائم ہیں۔ اور یہ کہ وہ امورِ روزگار میں بھی ایک دوسرے کی ڈھارس بندھائیں گے۔ یہ معاہدہ ماہِ حرام ذیقعد میں طے ہوا اور قریش نے اس معاہدہ کو ’’حلف الفضول‘‘ کا نام دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ایک فضیلت والے کام پر اکٹھے ہوئے ہیں، پھر یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے مظلوم کا سامان چھین کر اس کے سپرد کردیا۔(البدایة والنهایة : ۲؍۳۱۵، ۳۱۶، الطبقات الکبرٰی لابن سعد : ۱؍۱۲۸، ۱۲۹۔) حلف الفضول میں شرکت کی حکمت: ٭ اگر اہل جاہلیت اپنے فطری جذبات کی بنیاد پر ظلم کے سدباب کے لیے اٹھ سکتے ہیں تو اہل اسلام کے لیے تو ناگزیر ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں کیونکہ اسلام کی تو دعوت ہی یہ ہے کہ ظلم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اسلام فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے اور اسے ہر قسم کی کجی اور انحراف سے بچانا چاہتا ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاہدے کی اہمیت پر زور دیں کیونکہ اس معاہدے کا مضمون سراسر اسلام کی دعوت ہے کہ حق کو قائم رکھا جائے اور باطل اور ظلم کو مٹا دیا جائے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر نے اس معاہدے میں جو کردار ادا کیا وہ اس حقیقت کی بڑی روشن دلیل ہے کہ ہاشمی خاندان کے لوگ جوان مرد تھے اور ایسے مواقع پر وہ دوسروں سے افضل ثابت ہوتے تھے۔ اس خاندان کے شرف و فضل کے لیے یہ یگانہ عظمت ہی بہت کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی خاندان سے ہیں۔