كِتَابُ حَدِيثِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَلَمْ يَكُنْ مِمَّا أُنْزَلَ عَلَيْنَا ((جَاهِدُوا كَمَا جَاهَدْتُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ)) قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَأَنَا لَا أَجِدُهَا، قَالَ: أُسْقِطَتْ مِمَّا أُسْقِطَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: نَخْشَى أَنْ يَرْجِعَ النَّاسُ كُفَّارًا، قَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: لَئِنْ رَجَعَ النَّاسُ كُفَّارًا لَيَكُونَنَّ أُمَرَاؤُهُمْ بَنُو فُلَانٍ، وَوُزَرَاؤُهُمْ بَنُو فُلَانٍ
کتاب
مسور بن مخرمہ کی عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے حدیث
حضرت مسور بن مخرمہ نے روایت کیا، کہا: عمر بن خطاب نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا ہم پر نازل کردہ آیات میں سے یہ آیت نہیں ہے: ﴿جَاهِدُوْا کَمَا جَاهدتم اول مرة﴾ ’’تم نے جس طرح پہلے جہاد کیا نے اب بھی کیا کرو۔‘‘ تو انہوں نے کہا: ہاں یہ آیت ہے، فرمایا تو مجھے یہ آیت مصحف میں نہیں ملی، فرمایا کہ یہ آیت قرآن کے منسوخات میں سے ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ڈر ہے کہ لوگ کافر نہ بن جائیں۔ انہوں نے کہا: جو اللہ چاہے گا ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا: اگر لوگ کافر بن جائیں گے تو وہ بنو فلاں کے امراء اور بنو فلاں کے وزراء بن جائیں گے۔
تشریح :
حدیث ہذا میں آیت ﴿جَاهِدُوْا کَمَا جَاهدتم اول مرة﴾ کے نسخ کا بیان ہے۔ یہ آیت کریمہ منسوخ تلاوہ ہے منسوخ الحکم نہیں۔
قرآن کے اعجاز اور حقانیت پر یہودیوں، مستشرقین اور دوسرے منکرین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس میں نسخ کا ذکر ہوا ہے حالانکہ نسخ انسان کی کتاب میں تو ہو سکتا ہے اس لیے کہ انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور اس کے علم میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے لیکن اللہ کی کتاب میں نسخ کا امکان نہیں ہے اس لیے کہ اس کے علم میں کمی و بیشی اور تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔ یہ اعتراض چونکہ قرآن نے معجزہ ہونے کو مشکوک بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
علوم القرآن کی مباحث میں سے نسخ کی بحث ایک کثیر الجہات بحث ہے جو مشکل مباحث میں شمار ہوتی ہے اس لیے مختصر مگر جامع بحث کی گئی ہے تاکہ موضوع سے متعلق تمام مباحث کی تنقیح و تحقیق قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائے۔
نسخ کی بحث:
یہود جن جن طریقوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن کو مشکوک قرار دیا جائے۔ وہ لوگوں سے کہتے کہ اگر قرآن بھی منزل من اللہ ہے اور تورات تو منزل من اللہ ہے ہی۔ پھر قرآن اور تورات کے احکام میں اختلاف کیوں ہے؟ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی اور حکم آجاتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہیں کہ میں پہلے کیا حکم دے چکا ہوں اور اب کیا دے رہا ہوں ؟ یہود کے ایسے ہی اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور فرمایا کہ عیب نہ پہلے حکم میں تھا اور نہ دوسرے حکم میں ہے۔ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس طرح کے احکام کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی دیے جاتے ہیں اور تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ مالک الملک ہے وہ جیسے چاہے حکم دے سکتا ہے۔ پہلے کے احکام منسوخ بھی کرسکتا ہے اور نئے دے بھی سکتا ہے۔
متقدمین نے نسخ کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں لیا۔ وہ احکام میں تدریج کو بھی نسخ کے معنوں میں لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک شمار کردی جب کہ احکام میں تدریج پر نسخ کا اطلاق درست نہیں۔ نسخ سے مراد کسی حکم کا اٹھ جانا ہے اس لحاظ سے شاہ ولی اللہ صاحب نے آیات منسوخہ صرف پانچ شمار کی ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں :
قرآن سے نسخ کی مثالیں :
1۔....اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۸۱ میں فرمایا کہ ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ﴾ اس آیت کی رو سے میت پر والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض تھا۔ پھر جب سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۱۱ اور ۱۱۲ میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے خود ہی والدین اور اقربین کے حق میں مقرر فرمادیے تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور میت پر وصیت کرنا فرض نہ رہا۔ بلکہ اب وہ صرف غیر ذوی الفروض کے حق میں ہی وصیت کرسکتا ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک، نیز یہ وصیت فرض نہیں بلکہ اختیاری اور مستحب ہے۔
2۔....اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۵ میں زانیہ عورت کی یہ سزا مقرر فرمائی کہ بقیہ عمر اسے گھر میں مقید رکھا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی نئی سزا مقرر فرمادے۔ پھر جب سورۂ نور نازل ہوئی جس میں زانی مرد کو اور زانی عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے تو اس حکم سے پہلی سزا کا حکم اٹھ گیا۔ یعنی وہ منسوخ ہوگئی۔
3۔....سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۴۰ کی رو سے میت کے وارثوں پر فرض تھا کہ وہ اس کی بیوہ کو ایک سال گھر سے نہ نکالیں اور اس کا خرچ برداشت کریں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی۔ نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے حق میں تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ سے ہی ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔
مندرجہ مثالیں ایسی ہیں جن میں سابقہ آیت کا حکم قطعاً منسوخ ہے۔ اب ہم کچھ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں دونوں قسم کے حکم حالات کے تقاضوں کے تحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً:
1۔ سورۂ انفال (جو کہ جنگ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی) آیت نمبر ۶۵ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا معیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ یہ حکم ان مسلمانوں کے لیے تھا جو علم و عمل میں پختہ اور ہر طرح کی سختیاں برداشت کرچکے تھے اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل کامل تھا۔ بعد میں اسلام لانے والے مسلمان جن کی تربیت بھی پوری طرح نہ ہوسکی تھی۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے معیار میں کافی تخفیف کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مسلمان کو کم از کم دو کافروں پر ضرور غالب آنا چاہیے۔ اب اس بعد والے حکم سے پہلے حکم منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ جب بھی کسی خطہ میں تحریک جہاد شروع ہوگی تو حالات کے مطابق دونوں قسم کے احکام لاگو ہوں گے۔
2۔سورہ محمد کی آیت نمبر ۴ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو خواہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا احسان رکھ کر۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے سے منع فرما دیا ہے۔ دوسری طرف سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۰ کی رو سے عام مسلمان تو درکنار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے بلکہ لونڈیوں سے تمتع کی بھی اجازت فرما رہے ہیں اور ان دونوں طرح سے احکام میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے۔ بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دونوں میں سے کسی نہ کسی پر عمل درآمد ہوگا اور ایسی مثالیں قرآن میں اور بھی بہت ہیں۔
آیات میں تبدیلی کی دوسری صورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ہم اس آیت یا اس جملہ کو بھلا ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ اعلیٰ میں فرمایا: ﴿ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى () إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ﴾(الاعلیٰ: ۸۷؍۶، ۷) ’’یعنی ہم تمہیں پڑھائیں گے جسے تم بھولو گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ اور اس بھلانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں سیدنا جبریل علیہ السلام کے ساتھ نازل شدہ قرآن کریم کا دورہ کیا کرتے، اس دوران جن الفاظ یا جس جملہ کو منسوخ کرنا اللہ کو منظور ہونا تھا وہ آپ بھول جاتے تھے اور جبریل بھی اس کا تکرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے نسخ کی بھی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶ میں فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر مخلوق کی مثال بیان کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی آیت بھی نازل کی تھی جس میں مچھر کی مثال بیان کی گئی تھی۔ جسے کافروں نے اضحوکہ بنایا تھا اور چونکہ وہ مچھر کی مثال والی آیت قرآن میں موجود نہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھلا دی گئی تھی۔
2۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ﴾ کے بعد ﴿ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى﴾ کے الفاظ بھی نازل ہوئے تھے جس کی رو سے مجاہدین کے لیے محاذ جنگ کے دوران متعہ حلال ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر اس کی ابدی حرمت ہوگئی تو یہ آخری الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے بھلا دیے اور شامل قرآن نہ ہوسکے۔
3۔ آیت رجم بھی اس قبیل سے ہے جس کے متعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری زندگی کے ایک خطبہ میں برسر منبر فرمایا تھا۔ ’’اس کتاب اللہ میں رجم کے حکم کی بھی آیت تھی۔ جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا اور اس پر عمل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مرجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو۔( صحیح بخاري، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلٰی۔)
معتزلہ کا نسخ سے انکار:
منزل من اللہ وحی میں سے اللہ کی حکمت کے تحت کچھ آیات یا جملے یا الفاظ بھلا بھی دیے گئے اور کچھ احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ قرآن میں کسی طرح کے نسخ کا قائل نہیں لہٰذا یہ مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھا گیا اور ان پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ قرآن میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔
تخریج :
عبد الرزاق فی الأمالي، رقم : ۶۹۔ شرح مشکل الآثار : ۱۲؍۹، رقم : ۴۵۹۹۔
حدیث ہذا میں آیت ﴿جَاهِدُوْا کَمَا جَاهدتم اول مرة﴾ کے نسخ کا بیان ہے۔ یہ آیت کریمہ منسوخ تلاوہ ہے منسوخ الحکم نہیں۔
قرآن کے اعجاز اور حقانیت پر یہودیوں، مستشرقین اور دوسرے منکرین کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس میں نسخ کا ذکر ہوا ہے حالانکہ نسخ انسان کی کتاب میں تو ہو سکتا ہے اس لیے کہ انسان کی رائے بدلتی رہتی ہے اور اس کے علم میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے لیکن اللہ کی کتاب میں نسخ کا امکان نہیں ہے اس لیے کہ اس کے علم میں کمی و بیشی اور تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے۔ یہ اعتراض چونکہ قرآن نے معجزہ ہونے کو مشکوک بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
علوم القرآن کی مباحث میں سے نسخ کی بحث ایک کثیر الجہات بحث ہے جو مشکل مباحث میں شمار ہوتی ہے اس لیے مختصر مگر جامع بحث کی گئی ہے تاکہ موضوع سے متعلق تمام مباحث کی تنقیح و تحقیق قارئین کی خدمت میں پیش کر دی جائے۔
نسخ کی بحث:
یہود جن جن طریقوں سے لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا کردار ادا کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ قرآن کو مشکوک قرار دیا جائے۔ وہ لوگوں سے کہتے کہ اگر قرآن بھی منزل من اللہ ہے اور تورات تو منزل من اللہ ہے ہی۔ پھر قرآن اور تورات کے احکام میں اختلاف کیوں ہے؟ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ قرآن میں ایک حکم نازل ہوتا ہے پھر اس کی جگہ کوئی اور حکم آجاتا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو یہ علم نہیں کہ میں پہلے کیا حکم دے چکا ہوں اور اب کیا دے رہا ہوں ؟ یہود کے ایسے ہی اعتراضات کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے اور فرمایا کہ عیب نہ پہلے حکم میں تھا اور نہ دوسرے حکم میں ہے۔ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس طرح کے احکام کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی دیے جاتے ہیں اور تمہیں یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ مالک الملک ہے وہ جیسے چاہے حکم دے سکتا ہے۔ پہلے کے احکام منسوخ بھی کرسکتا ہے اور نئے دے بھی سکتا ہے۔
متقدمین نے نسخ کا مفہوم بہت وسیع معنوں میں لیا۔ وہ احکام میں تدریج کو بھی نسخ کے معنوں میں لیتے تھے اور اس طرح انہوں نے آیات منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک شمار کردی جب کہ احکام میں تدریج پر نسخ کا اطلاق درست نہیں۔ نسخ سے مراد کسی حکم کا اٹھ جانا ہے اس لحاظ سے شاہ ولی اللہ صاحب نے آیات منسوخہ صرف پانچ شمار کی ہیں۔ جن کی مثالیں درج ذیل ہیں :
قرآن سے نسخ کی مثالیں :
1۔....اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۸۱ میں فرمایا کہ ﴿ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ﴾ اس آیت کی رو سے میت پر والدین اور اپنے قریبی رشتہ داروں کے حق میں مرنے سے پہلے وصیت کرنا فرض تھا۔ پھر جب سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۱۱ اور ۱۱۲ میں اللہ تعالیٰ نے میراث کے حصے خود ہی والدین اور اقربین کے حق میں مقرر فرمادیے تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا اور میت پر وصیت کرنا فرض نہ رہا۔ بلکہ اب وہ صرف غیر ذوی الفروض کے حق میں ہی وصیت کرسکتا ہے اور وہ بھی زیادہ سے زیادہ تہائی مال تک، نیز یہ وصیت فرض نہیں بلکہ اختیاری اور مستحب ہے۔
2۔....اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء کی آیت نمبر ۱۵ میں زانیہ عورت کی یہ سزا مقرر فرمائی کہ بقیہ عمر اسے گھر میں مقید رکھا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی نئی سزا مقرر فرمادے۔ پھر جب سورۂ نور نازل ہوئی جس میں زانی مرد کو اور زانی عورت کو سو سو کوڑے مارنے کا ذکر ہے تو اس حکم سے پہلی سزا کا حکم اٹھ گیا۔ یعنی وہ منسوخ ہوگئی۔
3۔....سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۴۰ کی رو سے میت کے وارثوں پر فرض تھا کہ وہ اس کی بیوہ کو ایک سال گھر سے نہ نکالیں اور اس کا خرچ برداشت کریں۔ بعد میں جب بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر ہوگئی۔ نیز آیت میراث کی رو سے خاوند کے ترکہ میں بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوگیا تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اب بیوہ کے حق میں تو یہ حکم ہوا کہ وہ بس عدت کے ایام اپنے مرنے والے شوہر کے ہاں گزارے۔ بعد میں وہ آزاد ہے اور اس دوران نان و نفقہ بھی وارثوں کے ذمہ اور ترکہ سے ہی ہوگا اور سال بھر کے خرچہ کا مسئلہ میراث میں حصہ ملنے سے حل ہوگیا۔
مندرجہ مثالیں ایسی ہیں جن میں سابقہ آیت کا حکم قطعاً منسوخ ہے۔ اب ہم کچھ ایسی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ جن میں دونوں قسم کے حکم حالات کے تقاضوں کے تحت ساتھ ساتھ چلتے ہیں مثلاً:
1۔ سورۂ انفال (جو کہ جنگ بدر کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی) آیت نمبر ۶۵ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جرأت ایمانی کا معیار مقرر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک مسلمان کو دس کافروں پر غالب آنا چاہیے۔ یہ حکم ان مسلمانوں کے لیے تھا جو علم و عمل میں پختہ اور ہر طرح کی سختیاں برداشت کرچکے تھے اور ان کا اللہ تعالیٰ پر توکل کامل تھا۔ بعد میں اسلام لانے والے مسلمان جن کی تربیت بھی پوری طرح نہ ہوسکی تھی۔ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے معیار میں کافی تخفیف کرتے ہوئے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان میں سے بھی ایک مسلمان کو کم از کم دو کافروں پر ضرور غالب آنا چاہیے۔ اب اس بعد والے حکم سے پہلے حکم منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ جب بھی کسی خطہ میں تحریک جہاد شروع ہوگی تو حالات کے مطابق دونوں قسم کے احکام لاگو ہوں گے۔
2۔سورہ محمد کی آیت نمبر ۴ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں کو خواہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا احسان رکھ کر۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے سے منع فرما دیا ہے۔ دوسری طرف سورۂ احزاب کی آیت نمبر ۵۰ کی رو سے عام مسلمان تو درکنار خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے بلکہ لونڈیوں سے تمتع کی بھی اجازت فرما رہے ہیں اور ان دونوں طرح سے احکام میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے۔ بلکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دونوں میں سے کسی نہ کسی پر عمل درآمد ہوگا اور ایسی مثالیں قرآن میں اور بھی بہت ہیں۔
آیات میں تبدیلی کی دوسری صورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ ہم اس آیت یا اس جملہ کو بھلا ہی دیتے ہیں۔ جیسا کہ سورہ اعلیٰ میں فرمایا: ﴿ سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى () إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ﴾(الاعلیٰ: ۸۷؍۶، ۷) ’’یعنی ہم تمہیں پڑھائیں گے جسے تم بھولو گے نہیں مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ اور اس بھلانے کی صورت یہ ہوتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں سیدنا جبریل علیہ السلام کے ساتھ نازل شدہ قرآن کریم کا دورہ کیا کرتے، اس دوران جن الفاظ یا جس جملہ کو منسوخ کرنا اللہ کو منظور ہونا تھا وہ آپ بھول جاتے تھے اور جبریل بھی اس کا تکرار نہیں کرتے تھے۔ ایسے نسخ کی بھی چند مثالیں درج ذیل ہیں :
1۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶ میں فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر مخلوق کی مثال بیان کرے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی آیت بھی نازل کی تھی جس میں مچھر کی مثال بیان کی گئی تھی۔ جسے کافروں نے اضحوکہ بنایا تھا اور چونکہ وہ مچھر کی مثال والی آیت قرآن میں موجود نہیں۔ لہٰذا اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھلا دی گئی تھی۔
2۔ سورۂ نساء کی آیت نمبر ۲۴ میں﴿ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ﴾ کے بعد ﴿ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى﴾ کے الفاظ بھی نازل ہوئے تھے جس کی رو سے مجاہدین کے لیے محاذ جنگ کے دوران متعہ حلال ہوتا رہا۔ لیکن بالآخر اس کی ابدی حرمت ہوگئی تو یہ آخری الفاظ بھی اللہ تعالیٰ نے بھلا دیے اور شامل قرآن نہ ہوسکے۔
3۔ آیت رجم بھی اس قبیل سے ہے جس کے متعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی آخری زندگی کے ایک خطبہ میں برسر منبر فرمایا تھا۔ ’’اس کتاب اللہ میں رجم کے حکم کی بھی آیت تھی۔ جسے ہم نے پڑھا، یاد کیا اور اس پر عمل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی رجم ہوا اور ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اس فریضہ کو جسے اللہ نے اپنی کتاب میں اتارا چھوڑ کر مرجائیں۔ کتاب اللہ میں رجم کا حکم مطلق حق ہے اس پر جو زنا کرے اور شادی شدہ ہو۔ خواہ مرد ہو یا عورت، جبکہ اس کے زنا پر کوئی شرعی ثبوت یا حمل موجود ہو۔( صحیح بخاري، کتاب المحاربین، باب رجم الحبلٰی۔)
معتزلہ کا نسخ سے انکار:
منزل من اللہ وحی میں سے اللہ کی حکمت کے تحت کچھ آیات یا جملے یا الفاظ بھلا بھی دیے گئے اور کچھ احکام منسوخ بھی ہوئے ہیں۔ چونکہ مسلمانوں میں بھی ایک فرقہ قرآن میں کسی طرح کے نسخ کا قائل نہیں لہٰذا یہ مثالیں پیش کرنا ضروری سمجھا گیا اور ان پر اکتفا کیا گیا۔ حالانکہ قرآن میں ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔