اللولؤ والمرجان - حدیث 785

كتاب الحج باب بيان عدد عمر النبي صلی اللہ علیہ وسلم وزمانهن صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ وَعَائِشَةَ عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، جَالِسٌ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَإِذَا نَاسٌ يُصَلُّونَ فِي الْمَسْجِدِ صَلاَةَ الضُّحى قَالَ: فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلاَتِهِمْ؛ فَقَالَ: بِدْعَةٌ ثُمَّ قَالَ لَهُ: كَمِ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعَ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ فَكَرِهْنَا أَنْ نَرُدَّ عَلَيْهِ قَالَ: وَسَمِعْنَا اسْتِنَانَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحُجْرَةِ، فَقَالَ عُرْوَةُ: يَا أُمَّاهْ، يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَلاَ تَسْمَعِينَ مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمنِ قَالَتْ: مَا يَقُولُ قَالَ: يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمُرَاتٍ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، قَالَتْ: يَرْحَمُ اللهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمنِ، مَا اعْتَمَرَ عُمْرَةً إِلاَّ وَهُوَ شَاهِدُهُ، وَمَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ قَطُّ

ترجمہ اللولؤ والمرجان - حدیث 785

کتاب: حج کے مسائل باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرے اور ان کے اوقات مجاہد رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے وہاں سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کچھ لوگ مسجد نبوی میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے مجاہد کہتے ہیں کہ ہم نے سیّدنا عبداللہ بن عمر سے ان لوگوں کی اس نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ بدعت ہے پھر ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ چار۔ ایک ان میں سے رجب میں کیا تھا لیکن ہم نے پسند نہیں کیا کہ ان کی اس بات کی تردید کریں مجاہد نے بیان کیا کہ ہم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہاکے حجرہ سے ان کے مسواک کرنے کی آواز سنی تو عروہ نے پوچھا اے میری ماں اے ام المومنین ابو عبدالرحمن کی بات آپ سن رہی ہیں؟ سیدہ عائشہ نے پوچھا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ عروہ نے کہا وہ کہہ رہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے تھے جن میں سے ایک رجب میں کیا تھا انہوں نے فرمایا کہ اللہ ابو عبدالرحمن پر رحم کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ (ابن عمر) خود موجود نہ رہے ہوں آپ نے رجب میں تو کبھی عمرہ ہی نہیں کیا۔
تشریح : چاشت کی نماز صحیح احادیث سے ثابت ہے اور پڑھنا مسنون ہے۔ رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا نفی کرنا تو وہ ان کے اپنے علم کی حد تک ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز چاشت ہمیشہ اور باقاعدہ پڑھنے کی نفی ہے۔ اور جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے اسے بدعت کہا ہے تو ان کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ جب مسجد میں اہتمام کے ساتھ نماز چاشت پڑھی جائے۔ جیسا کہ اس روایت میں لوگوں کا فعل ذکر ہے دوسرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہمیشگی اور مواظبت کا اعتقاد رکھنے کی صورت پر محمول ہوگا۔
تخریج : أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 3 باب كم اعتمر النبي صلي الله عليه وسلم چاشت کی نماز صحیح احادیث سے ثابت ہے اور پڑھنا مسنون ہے۔ رہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکا نفی کرنا تو وہ ان کے اپنے علم کی حد تک ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز چاشت ہمیشہ اور باقاعدہ پڑھنے کی نفی ہے۔ اور جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے اسے بدعت کہا ہے تو ان کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ جب مسجد میں اہتمام کے ساتھ نماز چاشت پڑھی جائے۔ جیسا کہ اس روایت میں لوگوں کا فعل ذکر ہے دوسرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہمیشگی اور مواظبت کا اعتقاد رکھنے کی صورت پر محمول ہوگا۔