كتاب الحج باب بيان وجوه الإحرام وأنه يجوز إِفراد الحج والتمتع والقران وجواز إِدخال الحج على العمرة، ومتى يحل القارن من نسكه صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ وَأَصْحَابَهُ بِالْحَجِّ، وَلَيْسَ مَعَ أَحَدٍ مِنْهُمْ هَدْىٌ، غَيْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَةَ وَكَانَ عَلِيٌّ قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ وَمَعَهُ الْهَدْيُ، فَقَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لأَصْحَابِهِ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، يَطُوفُوا بِالْبَيْتِ، ثُمَّ يُقَصِّرُوا وَيَحِلُّوا، إِلاَّ مَنْ مَعَهُ الْهَدْيُ، فَقَالُوا نَنْطَلِقُ إِلَى مِنًى وَذَكَرُ أَحَدِنَا يَقْطُرُ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ: لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِى مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدَيْتُ، وَلَوْلاَ أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لأَحْلَلْتُ وَأَنَّ عَائِشَةَ حَاضَتْ، فَنَسَكَتِ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، غَيْرَ أَنَّهَا لَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ؛ قَالَ: فَلَمَّا طَهُرَتْ وَطَافَتْ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللهِ أَتَنْطَلِقُونَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ وَأَنْطَلِقُ بِالْحَجِّ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَخْرُجَ مَعَهَا إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ فِي ذِي الْحَجَّة وَأَنَّ سُرَاقَةَ بْنَ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ لَقِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْعَقَبَةِ وَهُوَ يَرْمِيهَا، فَقَالَ: أَلَكُمْ هذِهِ خَاصَّةً يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: لاَ، بَلْ لِلأَبَدِ
کتاب: حج کے مسائل
باب: احرام کی قسموں کا بیان حج مفرد۔ تمتع اور قران اور عمرے کے ساتھ حج کو شامل کیا جا سکتا ہے اور قارن کے حلال ہونے کا وقت
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کے ساتھ قربانی نہیں تھی ان ہی دنوں میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر) اس کی اجازت دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کریں اور بیت اللہ کا طواف (اور صفا مروہ کی سعی) کر کے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں جن کے ساتھ قربانی ہو اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منی سے حج کے لئے اس طرح سے جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ نے فرمایا جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد) میں بھی احرام کھول دیتا سیدہ عائشہ (اس حج میں) حائضہ ہو گئی تھیں اس لئے انہوں نے اگرچہ تمام مناسک ادا کئے لیکن بیت اللہ کا طواف نہیں کیا پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور طواف کر لیا تو عرض کی یا رسول اللہ سب لوگ حج اور عمرہ دونوں کر کے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کر سکی ہوں آپ نے اس پر عبدالرحمن بن ابی بکر سے کہا کہ انہیں ہمراہ لے کر تنعیم جائیں اور عمرہ کرا لائیں یہ عمرہ حج کے بعد ذی الحجہ کے ہی مہینہ میں ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے تو مالک بن جعشم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا یا رسول اللہ کیا یہ (عمرہ اور حج کے درمیان احرام کھول دینا) صرف آپ ہی کے لئے ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري في: 26 كتاب العمرة: 6 باب عمرة التنعيم