اللولؤ والمرجان - حدیث 536

كتاب الجنائز باب الميت يعذب ببكاء أهله عليه صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، وَعُمَرَ، وَعَائِشَةَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّيتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رضي الله عَنهُ بِمكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا، وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا (أَوْ قَالَ جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي) فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ، لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ: أَلاَ تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ كَانَ عُمَرُ رضي الله عنه يَقُولُ بَعْضَ ذلِك ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ رضي الله عنه مِنْ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ مَنْ هؤلاءِ الرَّكْبُ؛ قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ، فَأَخْبَرتُهُ، فَقَالَ: ادْعُهُ لِي، فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ، فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالْحَقْ أَمِيرَ الْمُؤمِنِينَ فَلَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي يَقُولُ: وَاأَخَاهْ وَاصَاحِبَاهْ؛ فَقَالَ عُمَرُ رضي الله عنه: يَا صُهَيْبُ أَتَبْكِي عَلَيَّ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رضي الله عنه ذَكَرْتُ ذلِكَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: رَحِمَ اللهُ عُمَرَ وَاللهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ اللهَ لَيُعَذِّبُ الْمُؤمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ؛ وَلكِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللهَ لَيَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَقَالَتْ: حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ وَلاَ تَزِرُ وزِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، عِنْدَ ذلِكَ: وَاللهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى قَالَ ابْنُ أُبِي مُلَيْكَةَ: وَاللهِ مَا قَالَ ابنُ عُمَرَ شَيْئًا

ترجمہ اللولؤ والمرجان - حدیث 536

کتاب: جنازے کے مسائل باب: میت کو گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جانے کا بیان حضرت عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی (ام ابان) کا مکہ میں انتقال ہو گیا تھا ہم بھی ان کے جنازے میں حاضر ہوئے سیّدنا عبداللہ بن عمر اور سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے میں ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہا کہ میں ایک بزرگ کے قریب بیٹھ گیا اور دوسرے بزرگ بعد میں آئے اور میرے بازو میں بیٹھ گئے سیّدنا عبداللہ بن عمر نے عمرو بن عثمان سے کہا (جو ام ابان کے بھائی تھے) رونے سے کیوں نہیں روکتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ میت پر گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے اس پر سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بھی تائید کی کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا پھر آپ بیان کرنے لگے کہ میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے چلا جب ہم بیداء تک پہنچے تو سامنے ایک ببول کے درخت کے نیچے چند سوار نظر پڑے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جا کر دیکھو تو سہی یہ کون لوگ ہیں ان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا تو سیّدنا صہیب رضی اللہ عنہ تھے پھر جب اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ میں سیّدنا صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہا کہ چلئے امیرالمومنین بلاتے ہیں چنانچہ وہ خدمت میں حاضر ہوئے (خیر یہ قصہ تو ہو چکا) پھر جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندر داخل ہوئے وہ کہہ رہے تھے ہائے میرے بھائی ہائے میرے صاحب اس پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صہیب تم مجھ پر روتے ہو تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت عمر پر ہو بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کر دیتا ہے اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں (الانعام ۱۶۴) اس پر سیّدنا ابن عباس نے اس وقت (یعنی ام ابان کے جنازے میں) سورہ نجم کی یہ آیت پڑھی اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ خدا کی قسم سیّدنا ابن عباس کی یہ تقریر سن کر سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے کچھ جواب نہیں دیا۔
تشریح : الزین بن المنیر فرماتے ہیں کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماکا سکوت ان کے اقرار پر دلالت نہیں کرتا۔شائد انہوں نے اس بارے میں مجادلہ اور مباحثہ نا پسند کیا ہو۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان کا سکوت شک کی وجہ سے نہیں کہ جو انہیں صریح مرفوع حدیث کے بعد ہوا بلکہ یہاں احتمال ہے کہ ان کے خیال میں حدیث قابل تاویل ہو اور اس وقت کوئی معین مفہوم نہ ہو جس پر وہ اس حدیث کو محلول کرتے۔ یا یہ مجلس بحث مباحثہ کی متحمل نہ ہو۔ اور خاص ضرورت نہ ہو۔ امام خطابی فرماتے ہیں۔جب روایت ثابت ہو جائے تو ظن کی وجہ سے اسے رد کرنا درست نہیں اور اس حدیث کو سیّدنا عمر اور سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمادونوں نے روایت کیا ہے باقی جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا ہے اس میں اس حدیث کو رد کرنے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ دونوں خبریں ہی صحیح ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔(وجہ جمع یہ ہے) میت کو رونے کی وجہ سے عذاب اور سزا اس وقت ہوتی ہے جب وہ زندگی میں وصیت کر گئی ہو اور یہی بات عرب کے مذاہب اور اشعار سے مشہور ہے اور موجودو منقول ہے۔ جیسے طرفہ بن عبد کا قول ہے۔اذا امت فانعینی بما انا اہلہ وشقی علی الجیب یا ابنتہ معبد ’’ اے معبد کی بیٹی جب میں مر جاؤں تو میرے حسب حال مجھ پر نوحہ کرنا اور گریبان پھاڑنا۔‘‘ اور اسی پر جمہور علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو محلول کیا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اس میت پر عذاب کیا جا سکتا ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 33 باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه الزین بن المنیر فرماتے ہیں کہ سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماکا سکوت ان کے اقرار پر دلالت نہیں کرتا۔شائد انہوں نے اس بارے میں مجادلہ اور مباحثہ نا پسند کیا ہو۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان کا سکوت شک کی وجہ سے نہیں کہ جو انہیں صریح مرفوع حدیث کے بعد ہوا بلکہ یہاں احتمال ہے کہ ان کے خیال میں حدیث قابل تاویل ہو اور اس وقت کوئی معین مفہوم نہ ہو جس پر وہ اس حدیث کو محلول کرتے۔ یا یہ مجلس بحث مباحثہ کی متحمل نہ ہو۔ اور خاص ضرورت نہ ہو۔ امام خطابی فرماتے ہیں۔جب روایت ثابت ہو جائے تو ظن کی وجہ سے اسے رد کرنا درست نہیں اور اس حدیث کو سیّدنا عمر اور سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمادونوں نے روایت کیا ہے باقی جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا ہے اس میں اس حدیث کو رد کرنے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ دونوں خبریں ہی صحیح ہیں اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔(وجہ جمع یہ ہے) میت کو رونے کی وجہ سے عذاب اور سزا اس وقت ہوتی ہے جب وہ زندگی میں وصیت کر گئی ہو اور یہی بات عرب کے مذاہب اور اشعار سے مشہور ہے اور موجودو منقول ہے۔ جیسے طرفہ بن عبد کا قول ہے۔اذا امت فانعینی بما انا اہلہ وشقی علی الجیب یا ابنتہ معبد ’’ اے معبد کی بیٹی جب میں مر جاؤں تو میرے حسب حال مجھ پر نوحہ کرنا اور گریبان پھاڑنا۔‘‘ اور اسی پر جمہور علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو محلول کیا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے اس میت پر عذاب کیا جا سکتا ہے۔