اللولؤ والمرجان - حدیث 533

كتاب الجنائز باب في الصبر على المصيبة عند أول الصدمة صحيح حديث أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ: اتَّقِي اللهَ وَاصْبِرِي قَالَتْ: إِلَيْكَ عَنِّي، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي وَلَمْ تَعْرِفْهُ فَقِيلَ لَهَا: إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ؛ فَقَالَتْ: لَمْ أَعْرِفْكَ فَقَالَ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى

ترجمہ اللولؤ والمرجان - حدیث 533

کتاب: جنازے کے مسائل باب: ابتدائے صدمہ میں مصیبت پر صبر کرنے کا بیان مطلب یہ ہے کہ معذرت کی ضرورت نہیں کیونکہ میری عادت یہ ہے کہ صرف اللہ کے لیے غصہ ہوتا ہوں باقی تو اس طرف غور کر کہ تو نے رونے کی وجہ سے بہت بڑا ثواب ضائع کر دیا ہے، اور اچانک مصیبت آنے پر صبر نہیں کیا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت کی حالت میں اس کے سینے سے نکلنے والی آگ اور غلطی کو معاف کر دیا، کیونکہ اسے علم ہی نہ تھا۔ اور اس کے لیے واضح کیا کہ اصل صبر وہ ہے جو مصیبت میں ابتداء ہی میں کیا جائے، جس سے ثواب حاصل ہوتا ہے۔(مرتبؒ)
تخریج : أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 32 باب زيارة القبور