اللولؤ والمرجان - حدیث 512

كتاب صلاة العيدين باب الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد صحيح حديث عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، وَعِنْدَي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الأَنْصَارِ، تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْن فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَزَاميرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذلِكَ فِي يَوْمِ عيدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عيدًا وَهذَا عيدُنَا

ترجمہ اللولؤ والمرجان - حدیث 512

کتاب: نماز عیدین کا بیان باب: عید کے دن میں مباح کھیل کھیلنا جائز ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھی سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے؟ اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے ابوبکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
تشریح : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گانے کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جوان عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرح شریف کے خلاف نہ ہو۔ اور صوفیوں نے جو اس باب میں خرافات اور بدعات نکال لی ہے، ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اور نفوس شہوانیہ بہت سے صوفیوں پر غالب آگئے۔ یہاں تک کہ بہت سے صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور اس کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں۔(تسہیل القاری) بعاث ایک قلعہ کا نام ہے جس کے پاس اوس اور خزرج کے درمیان ایک طویل جنگ لڑی گئی تھی۔ اس میں شدید قتل و غارت ہوئی تھی۔ آخر اوس خزرج پر غالب آگئے۔ یہ لڑائی ایک سو بیس سال تک جاری رہی۔ حتیٰ کہ اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان الفت اور محبت ڈال دی۔ عید کے دن خوشی کا ظہار دین کے شعائر میں سے ہے۔ اس حدیث سے لڑکی کے گانے کی آواز کے سننے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اگرچہ وہ آزاد لڑکی ہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اس کے سننے کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ سیّدنا ابو بکر کے انکار کا انکار کیا ہے۔ اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اس وقت ہے جب کسی قسم کے فتنے کا ڈر نہ ہو۔
تخریج : أخرجه البخاري في: 13 كتاب العيدين: 3 باب سنة العيدين لأهل الإسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے گانے کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جوان عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرح شریف کے خلاف نہ ہو۔ اور صوفیوں نے جو اس باب میں خرافات اور بدعات نکال لی ہے، ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اور نفوس شہوانیہ بہت سے صوفیوں پر غالب آگئے۔ یہاں تک کہ بہت سے صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور اس کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں۔(تسہیل القاری) بعاث ایک قلعہ کا نام ہے جس کے پاس اوس اور خزرج کے درمیان ایک طویل جنگ لڑی گئی تھی۔ اس میں شدید قتل و غارت ہوئی تھی۔ آخر اوس خزرج پر غالب آگئے۔ یہ لڑائی ایک سو بیس سال تک جاری رہی۔ حتیٰ کہ اسلام آیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان الفت اور محبت ڈال دی۔ عید کے دن خوشی کا ظہار دین کے شعائر میں سے ہے۔ اس حدیث سے لڑکی کے گانے کی آواز کے سننے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ اگرچہ وہ آزاد لڑکی ہو کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر اس کے سننے کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ سیّدنا ابو بکر کے انکار کا انکار کیا ہے۔ اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ اس وقت ہے جب کسی قسم کے فتنے کا ڈر نہ ہو۔