اللولؤ والمرجان - حدیث 180

كتاب الحيض باب وجوب الغسل على المرأة بخروج المني منها صحيح حديث أُمِّ سَلَمَةَ؛ قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ الله إنَّ اللهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الحَقِّ، فَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْ غسْلٍ إِذَا احْتَلَمَتْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ، فَغَطَّتْ أُمُّ سَلَمَةَ، تَعْنِي، وَجْهَهَا، وَقَالَتْ: يَا رَسولَ اللهِ وَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ قَالَ: نَعَمْ، تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا

ترجمہ اللولؤ والمرجان - حدیث 180

کتاب: حیض کے مسائل باب: اگر عورت کی منی نکلے تو اس پر غسل واجب ہے ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاروایت کرتی ہیں کہ ام سلیم (نامی ایک عورت) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں۔ اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا۔ (اس لیے میں پوچھتی ہوں کہ) کیا احتلام سے عورت پر بھی غسل ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ہاں) جب عورت پانی دیکھ لے۔ (یعنی کپڑے وغیرہ پر منی کا اثر معلوم ہو) تو (یہ سن کر) سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانے (شرم کی وجہ سے) اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اور کہا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں، پھر کیوں اس کا بچہ اس کی صورت کے مشابہ ہوتا ہے (یعنی یہی اس کے احتلام کا ثبوت ہے)
تشریح : تربت یمینک: یعنی تیرا دایاں ہاتھ خاک آلودہ ہو۔ یہ کلمہ اہل عرب کا تکیہ کلام ہے جس سے ان کا مقصد بددعا دینا نہیں ہوتا۔ (مرتب) مذکورہ حدیث میں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت عمدہ اسلوب کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی خاص صفت بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا۔ پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے مگر مسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا۔ امت مسلمہ کو انصار کی عورتوں کا ممنون ہونا چاہیے کہ اگر وہ طہارت کے ان پوشیدہ مسائل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ فرماتیں تو آج مسلمان عورت کو زندگی کے اس پہلو کے متعلق کہاں سے راہنمائی ملتی۔ (راز)
تخریج : أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 50 باب الحياء في العلم تربت یمینک: یعنی تیرا دایاں ہاتھ خاک آلودہ ہو۔ یہ کلمہ اہل عرب کا تکیہ کلام ہے جس سے ان کا مقصد بددعا دینا نہیں ہوتا۔ (مرتب) مذکورہ حدیث میں سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نہایت عمدہ اسلوب کے ساتھ پہلے اللہ تعالیٰ کی خاص صفت بیان فرمائی کہ وہ حق بات کے بیان میں نہیں شرماتا۔ پھر وہ مسئلہ دریافت کیا جو بظاہر شرم سے تعلق رکھتا ہے مگر مسئلہ ہونے کی حیثیت میں اپنی جگہ دریافت طلب تھا۔ امت مسلمہ کو انصار کی عورتوں کا ممنون ہونا چاہیے کہ اگر وہ طہارت کے ان پوشیدہ مسائل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ فرماتیں تو آج مسلمان عورت کو زندگی کے اس پہلو کے متعلق کہاں سے راہنمائی ملتی۔ (راز)