کِتَابُ الْاِیْمَانِ باب أول الإيمان قول لا إله إلا الله صحيح حديث المُسَيَّبِ بْنِ حَزْنٍ قَالَ: لَمّا حَضَرَتْ أَبا طَالِبٍ الْوَفاةُ جاءَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبا جَهْلِ بْنَ هِشامٍ وَعَبْدَ اللهِ بْنَ أَبي أُمَيَّةَ بْنِ المُغِيرَة، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأبي طالِبٍ يا عَمِّ قُلْ لا إِلهَ إِلاّ اللهَ كَلِمَةَ أَشْهَدُ لَكَ بِها عِنْدَ اللهِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللهِ بْنِ أَبي أُمَيَّةَ يا أَبا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِب فَلَمْ يَزَل رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُها عَلَيْهِ، وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ المَقالَةِ حَتّى قَالَ أَبو طَالِبٍ، آخِرَ ما كَلَّمَهُمْ، هُوَ عَلى مِلَّة عَبْدِ المُطَّلِبِ، وَأَبى أَنْ يَقُولَ لا إِلهَ إِلاّ الله، فَقالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمّا وَاللهِ لأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ ما لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللهُ تَعالى فِيهِ (مَا كانَ لِلنَّبِي) الآية
کتاب: ایمان کا بیان
باب: ایمان کا بنیادی اور پہلا جزو لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے
سیّدنا مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب سے فرمایا کہ چچا آپ ایک کلمہ لا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کہہ دیجئے تا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں اس پر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابو طالب کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے ابو جہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے آخر ابو طالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا تا آنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی نبی کو اور ایمان داروں کو یہ لائق ہی نہیں کہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں اس کے بعد کہ ان پر یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ دوزخی ہیں۔ (التوبہ۱۱۳)
تشریح :
راوي حدیث: سیّدنا مسیب بن حزن کی کنیت ابو سعید تھی۔ آپ نے اپنے والد حزن کے ہمراہ ہجرت کی۔ مسیب بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ صحیحین میں ان کی ایک حدیث ہے جو طارق بن عبدالرحمن کے واسطے سے بیان ہوئی ہے۔ شام کی فتوحات میں شریک رہے۔ مشہور تابعی سعید بن مسیب کے باپ ہیں۔
تخریج :
أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 81 باب إذا قال المشرك عند الموت لا إله إلاّ الله
راوي حدیث: سیّدنا مسیب بن حزن کی کنیت ابو سعید تھی۔ آپ نے اپنے والد حزن کے ہمراہ ہجرت کی۔ مسیب بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ صحیحین میں ان کی ایک حدیث ہے جو طارق بن عبدالرحمن کے واسطے سے بیان ہوئی ہے۔ شام کی فتوحات میں شریک رہے۔ مشہور تابعی سعید بن مسیب کے باپ ہیں۔