اللولؤ والمرجان - حدیث 1524

كتاب الفضائل باب توقيره صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وترك إِكثار سؤاله عما لا ضرورة إِليه أو لا يتعلق به تكليف، وما لا يقع، ونحو ذلك صحيح حديث أَبِي مُوسى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ قَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ، قَالَ: يَا رَسُول اللهِ إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ اللولؤ والمرجان - حدیث 1524

کتاب: فضائل و مناقب کا بیان باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توقیر اور آپ سے بہت زیادہ اور غیر ضروری اور نا ممکن قسم کے سوالات پوچھنے کی ممانعت حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: (اچھا اب) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شیبہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کی: یا رسول اللہ! ہم (ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں) اللہ عزوجل سے توبہ کرتے ہیں۔
تخریج : أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 28 باب الغضب في الموعظة والتعليم إذا رأى ما يكره