Book - حدیث 980

كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنُ رَجَاءٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَوْسَ بْنُ ضَمْعَجٍ، قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهُ، فَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَتُهُمْ سَوَاءً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً، فَإِنْ كَانَتِ الْهِجْرَةُ سَوَاءً، فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ سِنًّا، وَلَا يُؤُمُّ الرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ، وَلَا فِي سُلْطَانِهِ، وَلَا يُجْلَسْ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنٍ، أَوْ بِإِذْنِهِ»

ترجمہ Book - حدیث 980

کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ باب: امامت کا زیادہ حق دار کون ہے؟ سیدنا ابو مسعود ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو وہ آدمی نماز پڑھائے جو اللہ کی کتاب( قرآن مجید) زیادہ پڑھا ہوا ہو۔ اگر وہ قراءت میں برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جس نے ہجرت (دوسروں سے) پہلے کی ہو۔ اگر ہجرت بھی اکٹھے کی ہو تو وہ شخص نماز پڑھائے جو ان میں سے عمر میں بڑا ہو ،اور کوئی شخص کسی کے گھر میں یا اس کے دائرہٴ اقتدار میں امامت نہ کروائے اور اس کے گھر میں اس کی اجازت کے بغیر اس کی مخصوص نشست گاہ پر نہ بیٹھے۔
تشریح : 1۔امامت کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو دوسروں سے افضل ہو اور افضلیت کا معیار نہ مال ودوولت ہے نہ خاندان اور قبیلہ بلکہ دین کا علم افضلیت کا میعار ہے۔2۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے اس لئے جسے قرآن زیادہ یاد ہوتا تھا۔وہ علم میں بھی برتر ہوتا تھا۔3۔دینی علوم میں سب سے اہم علم قرآن مجید کا علم ہے۔اس کے بعد سنت نبوی ﷺ اور حدیث شریف کا مرتبہ ہے۔جو قرآن مجید کی تشریح ہے۔4،۔قرآن کا عالم اگر عمر میں چھوٹا ہو تب بھی بڑی عمر والوں کی نسبت امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔حضرت عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے قبیلے کی امامت کراتے تھے۔کیونکہ انھیں قرآن زیادہ یاد تھا۔اسوقت ان کی عمر آٹھ سال تھی۔(سنن نسائی الامامۃ باب امامۃ الغلام قبل ان یحتلم حدیث 790 وسنن ابی دائود الصللاۃ باب من احق بالامامۃ ؟ حدیث 585)5۔جو شخص امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔اس کی اجازت یا فرمائش پر دوسرا آدمی امام بن سکتاہے۔6۔مخصوص نشست سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کا کوئی شخص اپنے منصب ومرتبے کے مطابق بیٹھنے کا حق رکھتا ہے۔یا گھر میں جہاں وہ عام طور پر بیٹھا کرتا ہے۔مثلاً کسی سرکاری ملازم اور عہدیدار کے دفتر میں اس کی خاص کرسی یاگھر میں کسی بزرگ کے بیٹھنے کی خاص جگہ وہاں دوسرے آدمی کو بلا اجازت نہیں بیٹھنا چاہیے۔کیونکہ یہ بڑوں کے احترام کے منافی ہے۔البتہ اگر صاحب حق اجازت دے تو وہاں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔ 1۔امامت کا زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو دوسروں سے افضل ہو اور افضلیت کا معیار نہ مال ودوولت ہے نہ خاندان اور قبیلہ بلکہ دین کا علم افضلیت کا میعار ہے۔2۔صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین قرآن مجید کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کرتے تھے اس لئے جسے قرآن زیادہ یاد ہوتا تھا۔وہ علم میں بھی برتر ہوتا تھا۔3۔دینی علوم میں سب سے اہم علم قرآن مجید کا علم ہے۔اس کے بعد سنت نبوی ﷺ اور حدیث شریف کا مرتبہ ہے۔جو قرآن مجید کی تشریح ہے۔4،۔قرآن کا عالم اگر عمر میں چھوٹا ہو تب بھی بڑی عمر والوں کی نسبت امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔حضرت عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں اپنے قبیلے کی امامت کراتے تھے۔کیونکہ انھیں قرآن زیادہ یاد تھا۔اسوقت ان کی عمر آٹھ سال تھی۔(سنن نسائی الامامۃ باب امامۃ الغلام قبل ان یحتلم حدیث 790 وسنن ابی دائود الصللاۃ باب من احق بالامامۃ ؟ حدیث 585)5۔جو شخص امامت کا زیادہ حق رکھتا ہے۔اس کی اجازت یا فرمائش پر دوسرا آدمی امام بن سکتاہے۔6۔مخصوص نشست سے مراد وہ جگہ ہے جہاں کا کوئی شخص اپنے منصب ومرتبے کے مطابق بیٹھنے کا حق رکھتا ہے۔یا گھر میں جہاں وہ عام طور پر بیٹھا کرتا ہے۔مثلاً کسی سرکاری ملازم اور عہدیدار کے دفتر میں اس کی خاص کرسی یاگھر میں کسی بزرگ کے بیٹھنے کی خاص جگہ وہاں دوسرے آدمی کو بلا اجازت نہیں بیٹھنا چاہیے۔کیونکہ یہ بڑوں کے احترام کے منافی ہے۔البتہ اگر صاحب حق اجازت دے تو وہاں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔