Book - حدیث 96

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِؓ صحیح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَهْلَ الدَّرَجَاتِ الْعُلَى يَرَاهُمْ مَنْ أَسْفَلَ مِنْهُمْ كَمَا يُرَى الْكَوْكَبُ الطَّالِعُ فِي الْأُفُقِ مِنْ آفَاقِ السَّمَاءِ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْهُمْ وَأَنْعَمَا»

ترجمہ Book - حدیث 96

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے فضائل ومناقب حضرت ابو سعید خدری ؓ سےروایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:‘‘(جنت میں) اونچے درجے والوں کو ان سے کم تردرجات والے اس طرح دیکھیں گے جیسے آسمان کے کسی افق میں طلوع ہونے والا ستارہ دیکھا جاتا ہے۔ بلاشبہ ابو بکر اور عمر ؓ ان( بلند درجات والوں) میں سے ہیں، بلکہ ان سے بھی اچھے ہیں۔’’
تشریح : (1) اس روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے، اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت کے کچھ حصے کا حسن درجے کا شاھد ملتا ہے، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کے اعتبار سے اسے صحیح قرار دیا، دیکھئے: (الروض النضير في ترتيب و تخريج معجم الطبراني الصغير‘ حديث:970) لہذا معلوم ہو کہ یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ (2) جنت کے درجات کا فرق، کوئی معمولی فرق نہیں، اس لیے مومن کو بلند سے بلند درجات کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت اور کوشش کرنی چاہیے۔ (3) افق میں طلوع ہونے والا ستارہ اگرچہ دیکھنے میں زیادہ بلند محسوس نہیں ہوتا، لیکن درحقیقت بہت بلندی پر ہوتا ہے۔ جنت کے مختلف درجات میں مذکور نعمتیں سرسری نظر میں ایک دوسری سے بہت زیادہ مختلف محسوس نہیں ہوتیں، مگر حقیقت میں ان کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہے کہ اندازہ بھی نہیں لگا جا سکتا۔(4) آسمان میں چمکنے والا ستارہ زمین سے بہت زیادہ دور ہوتا ہے۔ اس طرح اہل جنت کے درجات کا فرق بھی بہت زیادہ ہے۔ (5) انعما کا ایک مفہوم زیادہ ہونا ہے، یعنی شیخین رضی اللہ عنہما کا درجہ بہت زیادہ ہے۔ دوسرا یہ لفظ نعمت سے ماخوذ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ حجرات بہت نعمتوں میں ہیں اور اللہ کے بے شمار انعامات سے سرفراز ہیں۔ (6) اس حدیث میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بلند درجات کی تصریح ہے۔ اس طرح اس حدیث میں ان دونوں جلیل القدر صحابیوں کے لیے جنت کی واضح خوشخبری ہے۔ (1) اس روایت کو بھی ہمارے فاضل محقق نے سندا ضعیف قرار دیا ہے، اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت کے کچھ حصے کا حسن درجے کا شاھد ملتا ہے، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجموعی طرق کے اعتبار سے اسے صحیح قرار دیا، دیکھئے: (الروض النضير في ترتيب و تخريج معجم الطبراني الصغير‘ حديث:970) لہذا معلوم ہو کہ یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ (2) جنت کے درجات کا فرق، کوئی معمولی فرق نہیں، اس لیے مومن کو بلند سے بلند درجات کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت اور کوشش کرنی چاہیے۔ (3) افق میں طلوع ہونے والا ستارہ اگرچہ دیکھنے میں زیادہ بلند محسوس نہیں ہوتا، لیکن درحقیقت بہت بلندی پر ہوتا ہے۔ جنت کے مختلف درجات میں مذکور نعمتیں سرسری نظر میں ایک دوسری سے بہت زیادہ مختلف محسوس نہیں ہوتیں، مگر حقیقت میں ان کا باہمی فرق اتنا زیادہ ہے کہ اندازہ بھی نہیں لگا جا سکتا۔(4) آسمان میں چمکنے والا ستارہ زمین سے بہت زیادہ دور ہوتا ہے۔ اس طرح اہل جنت کے درجات کا فرق بھی بہت زیادہ ہے۔ (5) انعما کا ایک مفہوم زیادہ ہونا ہے، یعنی شیخین رضی اللہ عنہما کا درجہ بہت زیادہ ہے۔ دوسرا یہ لفظ نعمت سے ماخوذ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ حجرات بہت نعمتوں میں ہیں اور اللہ کے بے شمار انعامات سے سرفراز ہیں۔ (6) اس حدیث میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے بلند درجات کی تصریح ہے۔ اس طرح اس حدیث میں ان دونوں جلیل القدر صحابیوں کے لیے جنت کی واضح خوشخبری ہے۔