Book - حدیث 95

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابُ فَضْلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِؓ صحیح حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، إِلَّا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ مَا دَامَا حَيَّيْنِ»

ترجمہ Book - حدیث 95

کتاب: سنت کی اہمیت وفضیلت باب: حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے فضائل ومناقب حضرت علی ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:‘‘ ابو بکر اور عمر تمام پہلے پچھلے ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں، نبیوں اور رسولوں کے علاوہ۔ اے علی! جب تک وہ دونوں زندہ ہیں، انہیں یہ بات نہ بتانا۔’’
تشریح : (1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے، وہ اس روایت کی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ اس روایت کے بعض الفاظ کی تائید میں کچھ طرق حسن درجے کے بھی ہیں، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (الصحیحۃ، حدیث:824) لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ (2) ادھیڑ عمر جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس عمر میں فوت ہوئے، ورنہ جنت میں عمروں کا فرق نہیں ہو گا، بلکہ سب لوگ ہمیشہ کی جوانی سے لطف اندوز ہوں گے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیر نبی خواہ کتنے بلند مرتبہ پر پہنچ جائے، نبی کے برابر یا اس سے افضل نہیں ہو سکتا۔ (4) اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ انبیاء علیھم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں، یعنی امت محمدیہ اور سابقہ امتوں کے تمام مومنوں سے افضل ہیں۔ (5) اس میں اشارہ ہے کہ یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مستحق ہیں۔ چونکہ جنت میں اہل جنت کے سردار ہوں گے، تو دنیا میں بھی انہی کو مومنوں کا سردار ہونا چاہیے۔ (6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین رضی اللہ عنہما کو براہ راست یہ خبر نہیں دی تاکہ دل میں فخر نہ آجائے کیونکہ غیر نبی معصوم نہیں ہوتا۔ (1) ہمارے فاضل محقق نے اس روایت کو سندا ضعیف قرار دیا ہے، وہ اس روایت کی تحقیق میں رقم طراز ہیں کہ اس روایت کے بعض الفاظ کی تائید میں کچھ طرق حسن درجے کے بھی ہیں، علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (الصحیحۃ، حدیث:824) لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایت سندا ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ (2) ادھیڑ عمر جنتیوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس عمر میں فوت ہوئے، ورنہ جنت میں عمروں کا فرق نہیں ہو گا، بلکہ سب لوگ ہمیشہ کی جوانی سے لطف اندوز ہوں گے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیر نبی خواہ کتنے بلند مرتبہ پر پہنچ جائے، نبی کے برابر یا اس سے افضل نہیں ہو سکتا۔ (4) اس میں صراحت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ انبیاء علیھم السلام کے بعد سب سے افضل ہیں، یعنی امت محمدیہ اور سابقہ امتوں کے تمام مومنوں سے افضل ہیں۔ (5) اس میں اشارہ ہے کہ یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے مستحق ہیں۔ چونکہ جنت میں اہل جنت کے سردار ہوں گے، تو دنیا میں بھی انہی کو مومنوں کا سردار ہونا چاہیے۔ (6) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیخین رضی اللہ عنہما کو براہ راست یہ خبر نہیں دی تاکہ دل میں فخر نہ آجائے کیونکہ غیر نبی معصوم نہیں ہوتا۔