كِتَابُ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةُ فِيهَا بَابُ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي صحیح - حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَرْسَلُونِي إِلَى زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَسْأَلُهُ عَنِ الْمُرُورِ، بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، فَأَخْبَرَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَأَنْ يَقُومَ أَرْبَعِينَ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ» قَالَ سُفْيَانُ: فَلَا أَدْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً، أَوْ شَهْرًا، أَوْ صَبَاحًا، أَوْ سَاعَةً
کتاب: نماز کی اقامت اور اس کا طریقہ
باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ
سیدنا بسر بن سعید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ( کچھ افراد نے ) مجھے سیدنا زید بن کالد ؓ کی خدمت میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا مسئلہ پوچھنے کے لئے بھیجا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس کے آگے سے گزرنے کی نسبت چالیس تک ٹھہرے رہنا بہتر ہے۔‘‘ سیدنا سفیان (بن عیینہ ) ؓ نے فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ حدیث میں چالیس سال کا لفظ ہے یا ( چالیس) مہینے یا دن یا گھڑیاں۔
تشریح :
۔1۔نمازی کے آگے سے گزرنااتنا بڑا گنا ہ ہے۔کہ اس سے بچنے کےلئے طویل مدت تک ٹھرنا پڑے تو ٹھرنا چاہیے۔2۔محدثین کرام حدیث کی روایت میں اس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے کہ جس لفظ کے بارے میں شک ہوا اس کی وضاحت کردی ۔اس لئے قابل اعتمادسند کے ساتھ روایت ہونے والی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔البتہ ضعیف حدیث میں چونکہ نبی کریمﷺ کی طرف نسبت یقینی نہیں ہوتی۔اس لئے اس پر عمل نہیں کیاجاتا۔
۔1۔نمازی کے آگے سے گزرنااتنا بڑا گنا ہ ہے۔کہ اس سے بچنے کےلئے طویل مدت تک ٹھرنا پڑے تو ٹھرنا چاہیے۔2۔محدثین کرام حدیث کی روایت میں اس قدر احتیاط سے کام لیتے تھے کہ جس لفظ کے بارے میں شک ہوا اس کی وضاحت کردی ۔اس لئے قابل اعتمادسند کے ساتھ روایت ہونے والی حدیث پر عمل کرنا واجب ہے۔البتہ ضعیف حدیث میں چونکہ نبی کریمﷺ کی طرف نسبت یقینی نہیں ہوتی۔اس لئے اس پر عمل نہیں کیاجاتا۔